مفتی گلزار نعیمی نے کہا کہ مسلم دنیا کے چند حکمرانوں کی خیانت کاری کی وجہ سے آج مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی حل نہیں ہواجبکہ دوسری جانب عرب حکمران صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین پر گیارہ روزہ جنگ کے خاتمہ کے بعد یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ فلسطینی مزاحمت پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے میں اہم کردا ر ادا کر رہی ہے ۔ جب بات فلسطینی مزاحمت کی ہو تو اس سے مراد فلسطین کی وہ تمام مزاحمتی جماعتیں بشمول حماس، اسلامی جہاد اور ان کے جہادی و عسکری ونگ ہیں جن میں القسام بریگیڈ، الصابرین، القدس بریگیڈ اور دیگر شامل ہیں ۔
انیس نقاش نے اپنی زندگی کے انہی ایام میں جنوبی لبنان کے علاقوں کفر شعبا اور بنت جبیل میں دو مختلف مزاحمتی گروہوں کو تشکیل دیا جنہوں نے نہ صرف جنوبی لبنان پر اسرائیلی فوجی چڑھائی کے خلاف مزاحمت کی بلکہ آگے چل کر لبنان کی مزاحمتی تحریک کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا ۔
جامعہ کراچی سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے کہا کہ تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر سے متعلق تاریخ مسخ کر کے نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تاہم ہر طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے خلاف ہونے والی مذموم سازشوں کا مقابلہ کرے۔
ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک وسیع النظر شخص تھے ۔ آپ "گریٹر اسرائیل" کے فتنے کو جان چکے تھے ۔ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک کے دوران اسرائیل کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور مسلمانان عالم کو فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی سازشوں سے خبر دار کرتے رہے ۔
حالیہ دنوں میں پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے کے عنوان سے ایک بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس عنوان سے چند ایک دانشور اور صحافی حضرات کی جانب سے اسرائیل کی حمایت میں بیانات بھی سامنے آئے ہیں ۔ اسی طرح فلسطین کی حمایت میں بھی پاکستان کے مختلف حلقوں سے بات سامنے آئی ہے ۔