23

امام خمینی کے افکار میں خواتین معاشرہ کی اہمیت

  • News cod : 10979
  • 19 فوریه 2021 - 16:22
امام خمینی کے افکار میں خواتین معاشرہ کی اہمیت
اسلام نے اسے شرافت وآبروعطاکی ہے۔‘‘عورت جو انسانی معاشرے میں کہیں ماں کہیں بہن تو کہیں بیوی کادرجہ رکھتی ہے۔ اسے ان رشتوں کے بندھن میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتاہے

انسانی معاشرے نے عورت کو ہرگز وہ مقام نہیں دیا جس کی وہ مستحق تھی۔ عورت کو زمانہ نے ہمیشہ ایک کمزور مخلوق سمجھا اس پر ظلم کیا۔ اس کے حقوق کا استحصال کیا اور اس کے ساتھ ناانصافی کوروا رکھا۔ عصر حاضر کے متمدن معاشرے نے ترقی و آزادی نسواں کے نام پر خواتین کو پستی کی اس منزل پر پہنچادیا جہاں سے اس کی واپسی کے امکانات ممکن نہیں گرچہ ہادیان مذاہب نیز مصلحین (Reformers) نے ہمیشہ خالق کائنات کے اس عظیم شاہ کار کو جو مربی نسل انسانی رہی ہے اس کی عظمت ورتبہ سے زمانہ کو ہمیشہ آشناکیا ہے۔ اب سے چودہ سال پہلے رسول اسلام نے اسلامی تعلیمات کے ذریعے جب انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات پیش کیا تو آپ نے خواتین کی حیثیت، ان کا رتبہ ومقام نیز ان کے حقوق کو واضح طورپر پیش کیا۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کا رتبہ بڑا عظیم اورغیرمعمولی اہمیت کاحامل رہاہے۔بیسویں صدی کے عظیم مفکراورعالم اسلام کی عہد آفریں انقلابی شخصیت امام خمینیؒ نے اپنے بیانات وارشادات عالیہ میں واضح طور پر خواتین کی اہمیت، معاشرے میں ان کا جائز مقام وحیثیت نیز ان کے حقوق کے سلسلہ میں بارہا سفارش کی ہے۔ ایک صالح معاشرے کی تشکیل اور نسل انسانی کی تربیت میں عورتوں کے اہم کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آغوش مادر بچہ کی پہلی درس گاہ ہے۔ 1970میں خواتین کے ایک مجمع کو خطاب فرماتے ہوئے اولاد کی تربیت میں ماں کے اہم کردار کی اہمیت پر امام خمینیؒ نے فرمایاتھا:
’’آپ خواتین ماں ہونے کا شرف رکھتی ہیں۔ اس عظمت میں آپ مردوں سے آگے ہیں۔ آپ پر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے اور بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ اچھی ماں اچھے بچے تربیت کرتی ہے۔ خدانخواستہ اگرماں گمراہ ہوتو اس کی گود سے بچے بھی برے ہی پروان چڑھتے ہیںگے۔‘‘اسی طرح اپنے ایک اور بیان میں اسلام نے عورتوں کوجواہمیت دی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قم کی خواتین سے ملاقات کے دوران آپ نے ان کوخطاب کرتے ہوئے کہاتھا: ’’مردوں نے آ پ کی گود میں پرورش پائی ہے۔ آپ مردوں کی مربی ہیں آپ اپنی اہمیت کو پہچانئے۔ اسلام آپ کی اہمیت کو پہچانتاہے۔‘‘
اسلام نے ماں کو جوعظمت ورتبہ دیاہے کہ اس کے پیروں تلے جنت ہے اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے امام خمینیؒ فرماتے ہیں۔ ـــ’’مائوں کے ان گنت حقوق شمار کیے جاسکتے اور ان کا حق پوری طرح ادا نہیں کیاجاسکتا۔ اپنے بچے کے لئے ماں کی ایک رات ذمہ دار باپ کے لئے سالوں سے بڑھ کر ہے۔ ماں کی نگاہوں میں پیار اور رحمت کا مجسم ہونا رب العالمین کے پیار ورحمت کا جلوہ ہے۔ خدا نے ماں کے دل کو اپنے نوراور رحمت سے اس طرح مزین کیاہے کہ قلم اس کے بیان سے عاجز ہے۔ اس کا علم فقط مائوں کوہی ہوسکتاہے۔ یہ وہ دائمی رحمت ہے کہ جس نے مائوں کو ان مشکلات کے سامنے عرش کی طرح مستحکم بنادیا ہے جو مشکلات شکم مادر میں بچے کی نشودنما کے وقت اورا س کے بعد بچپن میں پیش آتی ہیں ایسی مشکلات جن کو باپ ایک رات بھی برداشت نہیں کرسکتا اور ان کا مقابلہ کرنے کی ان میں سکت بھی نہیں ہے یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو یہ ایک حقیقت ہے۔‘‘
اسلامی نظام حکومت میں عورتوں کی آزادی کے سلسلہ میں ’’لومنڈ‘‘ نامی فرانسی مجلّہ کے نام نگار کو جواب دیتے ہوئے آپ نے واضح طورپر کہا تھا: ’’عورتوں کے سلسلہ میں اسلام کبھی بھی ان کی آزادی کا مخالف نہیں رہاہے اس کے برعکس اسلام عورت کے اس مفہوم کا مخالف ہے کہ اسے ایک تجارتی شئے قراردیاجائے۔ اسلام نے اسے شرافت وآبروعطاکی ہے۔‘‘عورت جو انسانی معاشرے میں کہیں ماں کہیں بہن تو کہیں بیوی کادرجہ رکھتی ہے۔ اسے ان رشتوں کے بندھن میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتاہے لیکن مغربی تمدن کے آزاد معاشرے نے عورت کو کیا دیا اسے بازار کی چیز بنا کر ہرمناسب ونامناسب اشتہارمیں اس کی عریاں ونیم عریاں تصاویر شائع کی جاتی ہیں اس کالباس اس سے چھین لیا۔ غرض کہ اسے انسانی معاشرے نے بکائو مال کی طرح متعارف کرایا ۔ جب کہ اسلام نے اسے تحفظ فراہم کیا اور اسے امتیازی حیثیت دی۔ اسلام چاہتاہے کہ عورت بکائو مال نہ بنے۔ اسی ضمن میں امام خمینی ؒ نے 1978میں پیرس سے اپنے ایک خطاب میں کہاتھا: ’’اسلام چاہتا ہے کہ مرد عورت ترقی کریں۔اسلام نے عورت کو عہد جاہلیت کے مسائل سے نجات دی ہے خداگواہ ہے کہ اسلام نے جس قدر عورت کی خدمت کی ہے مرد کی اس حد تک خدمت نہیں کی۔ آپ نہیں جانتے عہد جاہلیت میں عورت کی حیثیت کیاتھی اور اسلام نے اسے کہاں پہنچادیا۔ اسلام چاہتاہے کہ جس طرح مرد بنیادی امور کو انجام دیتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی ان امور کو انجام دیں البتہ یہ نہیں چاہتا کہ عورت بنائو سنگار کرکے آئے اور مردوں کے ساتھ گھل مل جائے یاجوانوں کے ساتھ مختلط ہوجائے۔ اسلام اخلاقی برائیوں پر پابندی کا طالب ہے اور چاہتا ہے کہ عورت کی عزت وحیثیت محفوظ رہے اس کو شخصیت بخشے اور اس کو بکائو مال نہ بننے دے۔‘‘
عصر حاضر میں بھی پردہ کے سوال پر اسلام پر طرح طرح کی الزام تراشیاں ہورہی ہیں کہیں پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیاجاتاہے تو کہیں رجعت پسندانہ رجحان سے تعبیر کیاجاتاہے جب یہی سوال امام خمینیؒ سے ’’مونٹ کارلو‘‘ نے 1978میں ریڈیو کے نامہ نگار کی حیثیت سے کیا تھا تو آپ نے اپنے جواب میں کہا تھا۔ ’’پردے کے جو معنی ہمارے درمیان رائج ہیں اور جس کا نام اسلامی پردہ ہے وہ آزادی کے برخلاف نہیں ہے ۔ اسلام اس چیز کا مخالف ہے جو عفت کے خلاف ہے ہم انہیں اسلامی پردہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں ‘‘۔رہبر انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران نے یوم خواتین کی مناسبت سے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے 1981کی ایک تقریرمیں مزید کہاتھا: ’’آپ کو اس بات کی طرف متوجہ رہناچاہئے کہ اسلام نے جو آپ کے لئے پردہ قرار دیاہے تو یہ آپ کے اقدار کی حفاظت کے لئے ہے۔ خدا نے جس چیز کا بھی حکم دیا ہے چاہے وہ مردہو یا عورت وہ ان کے حقیقی اقدار کے لئے ہیں۔ ممکن ہے شیطانی وسوسے یا استعمار کے فاسد ہاتھ یا استعمار کے ایجنٹوں کے ذریعے تباہ ہوجائیں یہ انہیں زندہ کرنے کے لئے ہے۔‘‘ اسلام نے عورتوں پر احسان کیا عورتوں کو زمانہ جاہلیت کی مظلومیت سے نکالا۔ جاہلیت کا دور ایساتھا جب عورت کو حیوان بلکہ اس سے بھی پست سمجھا جاتا تھا دورجاہلیت میں عورت مظلوم تھی ۔ اسلام نے عورت کو جاہلیت کی اس دلدل سے آزادکیا۔قابل افسوس امریہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کل مظلوم تھی تو یہ دور ہی دورجہالت تھا۔ عصر حاضر کے ترقی یافتہ روشن دور میں آج اگر عورت مظلوم ہے تو اس کا ذمہ دار انسانی معاشرے کوقرار دیا جائے یا خود عورت کو کہ جس مرد نے جارحانہ رویہ اور ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھا !کر خود مظلوم بن گئی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=10979