7

دنیا کی بے ثباتی اور لوگوں کی اقسام، علی ؑ ابنِ ابی طالب ؑ کی نظر میں

  • News cod : 11361
  • 24 فوریه 2021 - 0:16
دنیا کی بے ثباتی اور لوگوں کی اقسام، علی ؑ ابنِ ابی طالب ؑ کی نظر میں
اسی لئے تو بروز محشر دیّان بن کر تُو حکم دے گا میں جانتا ہوں، تمام صدیق تیرے در پر کھڑے ہوئے ہیں تو باب حکمت، وحی کا خازن، امم کا ناصح، شرع کا داعی، سنن کا مظہر ترے اوامر حلال پر اور ترے نواہی حرام پر اک دلیل مسکت بنے ہوئے ہیں

تحریر: سید اظہار مہدی بخاری

دنیا، دنیا کے مفہوم، دنیا کی تفسیر و تشریح، دنیا کے مثبت و منفی پہلووں اور دنیا کے عارضی اور دائمی ہونے کے حوالے سے اہل دنیا کے اپنے اور مختلف نظریات ہیں اور اہلِ دین و مذہب کے اپنے عقائد و افکار ہیں۔ لیکن اس بات پر تمام طبقات متفق نظر آتے ہیں کہ دنیا میں رہنے کے لیے پرامن، شریف، تعمیری اور مثبت طرزِ زندگی اچھے انسانوں کا شعار ہونا چاہیئے۔ اگر کوئی طبقہ موجودہ ارضی دنیا کے بعد کوئی ابدی یا دائمی دنیا کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسی موجودہ ارضی دنیا کو اول و آخر قرار دیتا ہے، تب بھی وہ طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ یہاں رہنے کا سلیقہ مہذب ہونا چاہیئے اور طریقہ بھی انسانی تقاضوں کے مطابق ہو۔ دوسری طرف جو طبقات اس موجودہ جہان کے بعد ایک اور دنیا کے قائل ہیں، و6ہ بھی اس دنیا کو آئندہ دنیا کا دروازہ، زینہ، بنیاد اور ذریعہ سمجھتے ہیں، یعنی اس دنیا میں کاشت کی جانے والی فصل اگلی دنیا میں کاٹنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

اول الذکر طبقہ اگر اس دنیا کو جنت بنا کر رکھے تو اس کی اچھائی ہے اور اگر اس دنیا کو جہنم بنائے تو اس کے نظریئے کے مطابق اس جرم کی دنیاوی تادیب تو شاید ہو جائے، لیکن اگلی کسی دنیا میں اس کی کوئی تادیب و سزا نہیں ہے، اس لیے یہ طبقہ اپنی ذمہ داریوں کو فقط موجودہ دنیا کی حد تک رکھتا ہے، جبکہ موخرالذکر طبقہ اس دنیا کا ماحول دو حوالوں سے بہتر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک اس لیے کہ اس سے موجودہ دنیا میں امن و محبت رہے، دوسرا یہ کہ اگلی دنیا میں وہ سزا سے بچ کر جنت میں داخل ہو جائیں۔ بہرحال تمام روحانی و غیر روحانی سلاسل، آسمانی و زمینی عقائد، آفاقی و اختراعی افکار اور ان سے منسلک و مربوط شخصیات اسی دنیا کی شاہراہ سے ہوکر ہی اپنی جانی اور انجانی منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ان میں انبیاء و رسل، اولیاء و صلحاء، فلاسفہ و اساتذہ اور رہبران و رہنماء شامل ہیں۔

اسی دنیا میں آنے والا، اسی دنیا میں رہنے والا، اسی دنیا کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے والا، اسی دنیا میں متعدد جنگیں فتح کرنے والا، اسی دنیا میں سیاسی و معاشی نظریات ایجاد کرنے والا، اسی دنیا میں حکمت و علم کے دروازے کھولنے والا، اسی دنیا میں مذہبی و سیاسی حکومت کرنے والا، اسی دنیا میں پچیس سال تک زیرِ عتاب رہ کر خاموشی اور تنہائی کی زندگی گذارنے والا اور اسی دنیا کے سب سے متبرک مقام یعنی کعبہ میں متولد ہو کر اسی دنیا کے دوسرے متبرک مقام یعنی مسجد میں شہید ہونے والا علی ؑ اس دنیا کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟؟ آیئے نہج البلاغہ میں اس کے کلام کا وہ حصہ دیکھتے ہیں، جس میں وہ دنیا کی حقیقت اور دنیا کے ثبات و بے ثباتی کے حوالے سے اہل دنیا کو متوجہ فرما رہا ہے۔

خطبہ نمبر 28 میں علی ؑ ابنِ ابی طالب فرماتے ہیں۔ ’’دنیا نے پیٹھ پھیر کر اپنے رخصت ہونے کا اعلان اور منزلِ عقبی کے سامنے آکر اپنی آمد سے آگاہ کر دیا ہے۔ آج کا دن تیاری کا ہے اور کل دوڑ کا ہوگا۔ جس طرف آگے بڑھنا ہے، وہ تو جنت ہے اور جہاں کچھ اشخاص (اپنے اعمال کی بدولت بلا اختیار) پہنچ جائیں گے، وہ دوزخ ہے۔ کیا موت سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کوئی نہیں اور کیا اس روز مصیبت کے آنے سے پہلے عمل (خیر) کرنے والا ایک بھی نہیں۔؟ تم امیدوں کے دور میں ہو، جس کے پیچھے موت کا ہنگامہ ہے۔ تو جو شخص موت سے پہلے ان امیدوں کے دنوں میں عمل کر لیتا ہے تو یہ عمل اس کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے اور موت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور جو شخص موت سے قبل زمانہ امید و آرزو میں کوتاہیاں کرتا ہے تو وہ عمل کے اعتبار سے نقصان رسیدہ رہتا ہے اور موت اس کے لیے پیغامِ ضرر لے کر آتی ہے۔ لہذا جس طرح اس وقت جب ناگوار حالات کا اندیشہ ہو، نیک اعمال میں منہمک ہوتے ہو، ویسا ہی اس وقت بھی نیک اعمال کرو، جبکہ مستقبل کے آثارِ مسرت افزاء محسوس ہو رہے ہوں۔ مجھے جنت ہی ایسی چیز نظر آتی ہے، جس کا طلب گار سویا پڑا ہو اور جہنم ہی ایسی شئے دکھائی دیتی ہے، جس سے دور بھاگنے والا خوابِ غفلت میں محو ہو۔ جو حق سے فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے باطل سے نقصان و ضرر اٹھانا پڑے گا۔ جس کو ہدایت ثابت قدم نہ رکھے، اسے گمراہی ہلاکت کی طرف کھینچ لے جائے گی۔ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور زادِ راہ کا پتہ دیا جا چکا ہے۔ مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ دو ہی چیزوں کا خطرہ ہے۔ ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے اتنا زاد لے لو، جس سے کل اپنے نفسوں کو بچا سکو۔‘‘

خطبہ نمبر 32 میں علی ؑ ابنِ ابی طالب ؑ نے اہلِ دنیا کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’اس زمانے کے لوگ چار طرح کے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جنہیں مفسدہ انگیزی سے مانع صرف اس کے نفس کا بے وقعت ہونا، ان کی دھار کا کندہ ہونا اور ان کے پاس مال کا کم ہونا ہے اور کچھ لوگ وہ ہیں، جو تلواریں سونتے ہوئے اعلانیہ شر پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے سوار اور پیادے جمع کر رکھے ہیں۔ صرف کچھ مال بٹورنے یا کسی دستہ کی قیادت کرنے یا منبر پر بلند ہونے کے لیے انہوں نے اپنے نفسوں کو وقف کر دیا ہے اور دین کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ کتنا ہی برا سودا ہے کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو اور کچھ وہ لوگ ہیں، جو آخرت والے کاموں سے دنیا طلبی کرتے اور یہ نہیں کرتے کہ دنیا کے کاموں سے بھی آخرت کا بنانا مقصود رکھیں۔ یہ اپنے اوپر بڑا سکون و وقار طاری رکھتے ہیں۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہیں اور دامنوں کو اوپر کی طرف سمیٹتے رہتے ہیں اور اپنے نفسوں کو اس طرح سنوار لیتے ہیں کہ لوگ انہیں امین سمجھ لیں۔ یہ لوگ اللہ کی پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر اس کا گناہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور ساز و سامان کی نافراہمی ملک گیری کے لیے اٹھنے نہیں دیتی۔ ان حالات نے انہی ترقی و بلندی حاصل کرنے سے درماندہ عاجز کر دیا ہے، اس لیے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے آپ کو سجا لیا ہے۔ حالانکہ انہیں ان چیزوں سے کسی وقت کبھی کوئی لگاؤ نہیں رہا۔

اس کے بعد تھوڑے سے وہ لوگ رہ گئے ہیں، جن کی آنکھیں آخرت کی یاد اور حشر کے خوف سے جھکی ہوئی ہیں اور ان سے آنسو رواں رہتے ہیں۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو دنیا والوں سے الگ تھلگ تنہائی میں پڑے رہتے ہیں اور کچھ خوف و ہراس کے عالم میں ذلتیں سہہ رہے ہیں اور بعض نے اس طرح چپ سادھ لی ہے کہ گویا ان کے منہ باندھ دیئے گئے ہیں۔ کچھ خلوص سے دعائیں مانگ رہے ہیں، کچھ غمزدہ و درد رسیدہ ہیں، جنہیں خوف نے گمنامی کے گوشہ میں بٹھا دیا ہے اور خستگی و درماندگی ان پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ ایک شورِ دریا میں (کہ باوجود پانی کی کثرت کے پھر بھی وہ پیاسے ہیں) ان کے منہ بند اور دل مجروح ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اتنا سمجھایا، بجھایا کہ وہ اکتا گئے ہیں اور اتنا ان پر جبر کیا گیا کہ وہ بالکل دب گئے اور اتنے قتل کئے گئے کہ ان میں نمایاں کمی ہوگئی۔ اس دنیا کو تمہاری نظروں میں کیکر کے چھلکوں اور ان کے ریزوں سے بھی زیادہ حقیر و پست ہونا چاہیئے اور اپنے قبل کے لوگوں سے تم عبرت حاصل کر لو۔ اس سے قبل کہ تمہارے حالات سے بعد والے عبرت حاصل کریں اور اس دنیا کی برائی محسوس کرتے ہوئے اس سے قطع تعلق کرو۔ اس لئے کہ اس نے آخر میں ایسوں سے قطع تعلق کرلیا، جو تم سے زیادہ اس کے والہ و شیدا تھے۔”
کلام الامام چونکہ امام الکلام ہوتا ہے، لہذا اہل دنیا اب اپنے آپ کا جائزہ لے کر اندازہ یا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کونسی قسم میں شامل ہیں اور انہیں اپنی اصلاح و فلاح کے لیے کون سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ جس سے ان کی انفرادی زندگی بہتر راستے پر ڈالی جاسکے اور ان کی اجتماعی و معاشرتی زندگی بھی دیگر انسانوں کے لیے کارمند و مفید و موثر ثابت ہوسکے۔

علی ؑ کے در پر سوال
(یوم ِ ولادت 13 رجب کے حوالے سے خراجِ عقیدت)
سید اظہار مہدی بخاری
اے میرے حیدر، مرے دلاور، مرے تونگر، مرے مقدر
میں جانتا ہوں، خدا نے تجھ کو علی ؑ بنا کر
بلندیوں کو ترے مقدس اور پائے اطہر کی دھول سے بھی پرے ہی رکھا
فقط محمدؐ کی ذات اقدس کو تیرا آقا بنا کے بھیجا
میں مانتا ہوں، نبی احمدؐ کے بعد دنیا کی ساری ذاتیں، سبھی جماعتیں سبھی صفاتیں، یہ کائناتیں، سبھی جہاتیں ترے مقابل کھڑی ہیں ایسے، غلام جیسے
میں جانتا ہوں، ترے بدن سے شجاعتوں نے لباس پہنے
میں مانتا ہوں، ترے دہن سے علوم سارے بیاں ہوئے ہیں
جو تو نہ ہوتا تو علم و حکمت کا اس جہاں میں وجود کیا تھا؟
جو تو نہ ہوتا تو دینِ اسلام آج ماضی کا حصہ ہوتا
جو تو نہ ہوتا تو اس شریعت کا حال اتنا عجیب ہوتا کہ پاک احمدؐ ملول ہوتے
میں جانتا ہوں، تمام فاتح ہیں تیرے مفتوح، ہیں امر تیرے عزم میں پنہاں،
وحی کا تنہا امین تو ہے، تمام خلقت کا تو ہے شاہد اور سراج منیر تُو ہے
خدا نے جس دن نبیؐ کو مبعوث کر دیا تو، اس پہ تنہا دلیل تُو ہے
تمام ادیان تیرے عدل عظیم سے مستفید بھی ہیں

میانِ خلق و خدا قضا کی تُو حدّ فاصل قرار پایا
نبیؐ نے تجھ کو دین اپنے، خدا نے تجھ کو تمام پنہاں امور کا رازداں بنایا عبادتوں کے تمام تیور ترے عمل کی اساس میں ہیں
میں جانتا ہوں خدا کے خاصان میں تیرا اک عظیم و اعظم مقام بھی ہے
اسی لئے تو بروز محشر دیّان بن کر تُو حکم دے گا
میں جانتا ہوں، تمام صدیق تیرے در پر کھڑے ہوئے ہیں
تو باب حکمت، وحی کا خازن، امم کا ناصح، شرع کا داعی، سنن کا مظہرترے اوامر حلال پر اور ترے نواہی حرام پر اک دلیل مسکت بنے ہوئے ہیں
جہاد تیرے عمل سے اپنی شناخت لے کر مجاہدوں کو بتا رہا ہے
کہ ذات کی جنگ کو خدا کے احکام میں تم ملا نہ دینا
میرے دلاور ترے فضائل، ترے مناقب، ترے قصائد
قلم کی قدرت، ذہن کی وسعت، جہاں کی طاقت سے بالاتر ہیں
میں جانتا ہوں، کہ اس قدر لامحیط اوصاف و منزلت کے مقام پر بھی تو کتنا مظلوم، کتنا محروم، کتنا مجبور راہبر ہے

میں دیکھتا ہوں کہ تو نے اپنے کلام برحق میں اپنی مظلومیت کے قصے بیاں کئے ہیں
اور دعویداروں کی شکل میں اپنے چاہنے والوں کے سارے اعمال کے حقائق عیاں کئے ہیں
انہی حقائق کو آج میں اپنے دور کے تیرے چاہنے والوں کے درمیاں بھی بڑی وضاحت، بہت صراحت، پوری شدّت سے دیکھتا ہوں
ترے موالی، ترے حلالی اور تیرے شیعہ تری ریاضت، تری عبادت، تری شجاعت، تری امامت، تری ولایت،
تری حقیقت، تری اطاعت کو بھول بیٹھے کلام تیرا، فکر تیری، اصول تیرے، فروع تیرے، علم تیرا اور تیری حکمت
سبھی خزانے، سبھی اثاثے انہوں نے یکسر بھلا دیئے ہیں
میرے دلاور ترے محب تجھ سے رزق، دولت، مفاد دنیاوی مانگتے ہیں
اگرچہ میں بھی مفاد میں ہوں، مگر میں تجھ سے، تیرے خزانے سے علم و حکمت، زہد عبادت اور مغفرت ہی تو مانگتا ہوں
یہ ساری نعمات، سب خزانے تری ولایت میں مضّمر ہیں
مجھے ولایت کی ساری ساری حقیقتوں کا شناسا کر دے
اور اپنے سارے موالیوں کو مانگنے کا، حقیقی انداز اور اصلی ہنر عطا کر
میرے تونگر اے میرے حیدر

izharbukhari5@hotmail.com

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11361