11

اتحاد کے فروغ اور فرقہ واریت میں کمی کے لئے جامعہ المنتظر کی طویل تاریخ ہے، علامہ افضل حیدری کی وفاق ٹائمز سے خصوصی گفتگو

  • News cod : 11474
  • 25 فوریه 2021 - 12:10
اتحاد کے فروغ اور فرقہ واریت میں کمی کے لئے جامعہ المنتظر کی طویل تاریخ ہے، علامہ افضل حیدری کی وفاق ٹائمز سے خصوصی گفتگو

وفاق ٹائمز- حوزہ علمیہ جامعة المنتظر پاکستان کے شہر لاہور میں ساٹھ سال سے قائم پاکستان بھر میں ملت تشیع پاکستان کی سب بڑی […]

وفاق ٹائمز- حوزہ علمیہ جامعة المنتظر پاکستان کے شہر لاہور میں ساٹھ سال سے قائم پاکستان بھر میں ملت تشیع پاکستان کی سب بڑی دینی درسگاہ ہے اس کی تاسیس 1954 میں ہوئی۔حوزہ علمیہ جہاں ایک قومی یونیورسٹی ہے وہاں قوم کی امیدوں اور امنگوں کا مرکز بھی ہے۔ جب بھی کوئی مشکل مقام آیا ہے اس ادارہ نے مکمل رہنمائی کی ہے۔ اور اس کا تدارک کرنے کی سعی کی ہے۔

جامعۃ المنتظر نے اسلامی انقلاب ایران کو مکمل طور پر پاکستان کی سطح تک بلکہ بیرون ملک بھی روشناس کرایا ہے۔ساٹھ سالوں میں جہاں اس حوزہ علمیہ نے ہزاروں کی تعداد میں علما اور مبلغین قوم کو فراہم کیے وہاں ساتھ ساتھ شیعہ مطالبات کمیٹی سے لے کر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان تک اور دیگر ملی تنظیموں کے ضمن بھی اس کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک کوئٹہ کے سہاروں سے لے کر لاہور کے مرغزاروں تک جہاں جامعہ کے علم کی کرنیں پھوٹ پھوٹ پڑتی ہیں ساتھ ساتھ قومی خدمات کے ستارے بھی چمکتے نظر آتے ہیں ۔سابق پرنسپل علامہ قاضی نیاز حسین نقوی کے انتقال پُرملال کے بعد علامہ محمد افضل حیدری کو جامعہ کا پرنسپل تعینات کیا گیا ہے ۔

حوزہ علمیہ جامعة المنتظر پاکستان کے مہتمم اعلیٰ علامہ محمد افضل حیدری کا تعلق شاہینوں کے شہر سرگودھا ہے ۔آپ نے نومبر1976میں جامعة المنتظرلاہور سے دینی تعلیم کا آغاز کیا۔1981میں راولپنڈی کے مدرسہ آیت اللہ حکیم میں دینی تعلیمی کیلئے داخلہ لیا۔1983میں ایران کے شہر قم میں حوزوی تعلیم حاصل کرنے کیلئے عازم ِسفر ہوئے ۔1992تک قم میں دینی و مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں واپس جامعة المنتظرمیں بطور مدرس دینی دروس کاآغاز کیا اورتین دہائیوں سے جامعة المنتظرسے وابستہ ہیں ۔جامعة المنتظرمیں بطور معلم تعیناتی سے قبل قم میں وفاق المدارس الشیعہ کے صدر اور پاکستان میں جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر فائز رہے۔آپ 10سال سے زائدعرصہ سے وفاق المدارس شیعہ کے سیکرٹری جنرل ہیں اور اتحاد تنظیمات مدارس کے نائب صدر بھی ہیں۔ دو ماہ قبل جامعة المنتظر پاکستان کے مہتتم اعلیٰ کے عہدہ پہ فائز ہوئے ہیں۔ وفاق ٹائمز کے لاہور سے نمائندہ صحافی توقیر کھرل نے اُن سے جامعة المنتظر کی کارکردگی اور حکومت کی جانب سے نئے بورڈ کی تشکیل کے حوالے سے انٹرویو کے لئے ایک نشست کی جوقارئین کے لئے پیش خدمت ہے ( ادارہ ) قسط 2

وفاق ٹائمز:حکومت کی طرف سے پانچ نئے بورڈ کی تشکیل دی گئی ہے آپ کے خیال میں کیا یہ وفاق کی طاقت کو توڑنے کی ایک کوشش نہیں ہے ؟
علامہ افضل حیدری :اچھا سوال ہے۔اس حوالے سے ہمارا ایک خصوصی اجلاس اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں ہوگا جس میں تمام موضوعات کو زیربحث لایا جائے گا اس لئے مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
وفاق ٹائمز:آپ کے خیال میں پہلے پانچ بورڈ کی موجودگی میں نئے پانچ بورڈ کی تشکیل سے کیا مدارس کو بھی فائدہ ہوگا؟
علامہ افضل حیدری :دیکھیں وفاق المدارس ہو یاوفاق المدارس عربیہ یا دیگر تین بورڈ صرف امتحانی بورڈ ہیں ان کا مدارس کے نصاب سے تو کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ہر مدرسہ جو پڑھاتا ہے اس میں سے کچھ مشترکات کو شامل کرکے طلبہ کا امتحان لیا جاتا ہے اور بورڈ اس کوسند جار ی کرتا ہے بعض لوگ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ بورڈ کے ساتھ منسلک نہیں تھے تو یہ سند کیسے جاری کرتے تھے اور جو یہ کہتے ہیں ہم کچھ نہیں کر رہے تھے ان مدارس کے طلبہ بھی تو ہم سے سند لیکر قم میں داخلہ لیتے رہے ہیں اور یہ محض الزام تھا کہ ہمارا لوگوں سے رابطہ نہیں تھاگویا “جب کوئی بات نہیں ہے تو کوئی بات بنا دو”۔ایک اور اہم بات ہمارے بورڈ کا ہر سال مجلس عاملہ کا اجلاس ہوتا ہے۔پانچ سال بعد صدر کا انتخاب ہوتا ہے ابھی 23مار چ کو مجلس عاملہ اجلاس ہے جس میں پورے ملک سے پرنسپلز حضرات شریک ہوں گ اور نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔وفاق المدارس شیعہ کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے نہ ہمارے کوئی فنڈ تھے البتہ اخلاقی طور پہ ہم نے ایک نصاب بنایا ۔
علامہ تقی نقو ی صاحب کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی اس عمل کے دوران تین لاکھ سے زائد کے اخراجات ہوئے ہم نے ایک بہترین نصاب بنا کر پورے ملک کے مدارس میں بھیجا ۔وفاق اتنا ہی کرسکتا تھا کہ یہ نصاب ہے اس کو پڑھائیں اور ہماری اتنی ہی ذمہ داری تھی ۔
وفاق ٹائمز:حکومت کی جانب مدارس میں جدید تعلیم کی ہدایات کیانافذالعمل ہیں؟
علامہ افضل حیدری :ایسا نہیں ہے کہ ریاست مدارس میں جدید تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کی پیش نظر سال قبل سے کوئی تبدیلیاں لانا چاہتی ہے بلکہ پاکستان کے سابق صدر ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں جب وفاق کی تشکیل دی گئی تھی اس زمانے سے یہ طے شدہ تھا کہ مدارس میں جدید تعلیم ہوگی ۔کئی مدارس میں اس پہ عمل ہورہا تھا چونکہ الزامی نہیں تھا اختیاری تھا اس لئے یہ سلسلہ چلتا رہا ۔بنیادی طور پہ ہمارے شیعہ مدارس میں اُس کی ضرو رت پیش نہیں آئی کیونکہ اُن کی شرط یہ تھی کہ طلبہ کو میٹرک تک تعلیم دی جائے اور شیعہ مدارس میں میٹرک پاس طلبہ کو ہی داخلہ دیا جاتا تھا اس لئے ہمارے ہاں اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔چونکہ ہمارے بھائیوں کے میٹرک سے قبل ہی طلبہ کو داخل کیا جاتا ہے اس لئے حکومت کی طرف سے جدید تعلیم کو لازم قرار دیا گیا ہے۔اب چونکہ حکومت نے مدارس کے طلبہ پہ لازم کردیا ہے کہ انہیںمیٹرک سے بڑھا کر ایف اے کی تعلیم لازمی دیں تو ہمارے جامعہ میں میٹرک اور ایف کے طلباء کی الگ الگ کلاسز باقاعدہ ہوتی ہیں۔
وفاق ٹائمز:اتحاد بین المسلمین کے فروغ اور فرقہ واریت کے ناسور کے خاتمہ کے لئے جامعة المنتظر نے کردار ادا کیا ہے؟
علامہ افضل حیدری :وفاق المدارس شیعہ اور جامعة المنتظرکا پاکستان میں اتحاد بین المسلین کے لئے اور بنیادی کردار ہے۔اتحاد کے فورغ اور فرقہ واریت میں کمی کے لئے جامعہ کی طویل تاریخ ہے یہاں ہر مسلک کے علماء کرام آتے رہے ہیں اور ہم ان کے مدارس میں جاتے رہے ہیں ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی میں بیرونی ایجنڈے کی بنیا دپر فرقہ واریت کو ہوا دی گئی اور محبتیں کم ہوئی ۔جامعہ میں اتحاد تنظیمات کا اجلاس ہوا تھا جس میں مولانا مفتی منیب الرحمن نے بھی خصوصی شرکت کی تھی اور انہوں نے نماز باجماعت کروائی تھی ۔جامعہ اشرفیہ جامعہ نعمیہ میں بھی رفت و آمد اور باہمی روابط کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ایام ولادت مولا علی السلام کے سلسلہ میں عالم اسلام کو کیا پیغام دیں گے؟
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ذات برکات اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ان کی زندگی کے تمام پہلو اس لائق ہیں کہ ان کو اپنااسوہ اور آئیڈیل دیکر ہم اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق سنواریں اگر حضرت علی کی زندگی کا کوئی پہلو سامنے رکھیں تو اس میں تکامل اور کمال نظر آئے گا ہمیں دنیا اور آخرت میں کمال چاہتے ہیں تو میں امیر المومنین کی سیرت طیبہ پہ عمل کرنا چاہیئے۔
وفاق ٹائمز:وفاق ٹائمز اور قارئین کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
علامہ افضل حیدری :وفاق ٹائمز کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔مذہبی۔علماء کرام کی اور مدارس کی فعالیت کی خبروں سے آگاہی ہوتی ہے ۔ میں یہ عرض کرناچاہوں گا کہ اس کو سیاسی سسٹم سے الگ رہنا چاہیئے چونکہ یہ علما اور مدارس کا سلسلہ ہے تو ہمیں سیاسی بیانات سے گریز کرنا چاہیئے اور اخلاقی تربیتی موضوعات کو ترجیح دینی چاہیئے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11474

ٹیگز