انہوں نے کہا کہ علمائے دین اس نورانی اور حیات بخش علم کے وارث ہیں،ممتاز اور لائق شاگردوں  کی حوصلہ افزائي  اور ان کی تکریم اور ان کے بارے میں علمی جلسوں کا انعقاد  خود اہل بیت اطہار اور آئمہ معصومین کی سیرت رہی ہے   چنانچہ ابن عباس، ھشام بن حکم اور میثم تمار وغیرہ وہ جملہ ممتاز شخصیات ہیں جن کی آئمہ اطہار علیہم السلام نے ہمیشہ تعریف وتمجید  کی  ۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے   سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کی بعض نمایاں صفات و خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ جلیل القدر عالم دین ایک فقیہ ، متکلم اور اصولی مفسر ہونےکے پیش نظر  ایک جامع شخصیت کے مالک تھے ، انہوں نے کہا کہ اس دور  کے عالم دین  ’’نجاشی‘‘ جو کہ ان کے ہم درس بھی تھے  سید مرتضیٰ(رح) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سید مرتضیٰ نے اتنے علوم حاصل کئے کہ کوئی بھی ان کے زمانہ میں ان جیسا علم حاصل نہ کر سکا۔
دین اسلام اور مذہب شیعہ کے اصولوں کا عقلی دفاع اور ان کی تشریح  سید مرتضیٰ کی ایک اور نمایاں خصوصیت ہے، اگر ہم اس جلیل القدر عالم دین کی صفات و خصوصیات کو بیان کرنا چاہیں  تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی ، فقہ کو سیاسی و معاشرتی میدان میں لانا، اہلبیت عصمت و طہارت(ع) کے مکتب و مذہب کی بنا پر فقہی ، کلامی، اصولی اور تفسیری کتب کی تالیف اور دارالعلم کی تأسیس  جیسے اقدامات سید مرتضیٰ(رح) کی نمایاں کارنامے تھے ۔
حجت الاسلام والمسلمین مروی نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے  کہ شیعہ تاریخ میں ہمیشہ   ایسے علما اور بزرگا ن  دین موجود تھے جنہوں نے وقت کے تقاضوں کی   صحیح شناخت کی اور ہمت  اور حوصلے سے اپنی تاریخی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مختلف علمی میدانوں میں  تبدیلی  پیدا کی ،  انہوں نے  کہا کہ حضرت سید مرتضیٰ(رح) ایک  وقت  شناس اور شجاع عالم دین تھے ، حضرت امام خمینیؒ بھی انہی علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے وقت کے صحیح تقاضوں اور حالات کو سمجھتے ہوئے ضروری سمجھا کہ ولایت فقیہ کے مسئلہ کو علمی، معاشرتی اور سیاسی میدان میں  بیان کریں  ۔
آستان قدس رضوی کے متولی کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں اسلامی علوم کو عملی طور پر  تمام ضروریات کو پورا کرنے کے قابل  بنانا چاہئے ، حوزہ علمیہ  کی ذمہ داری ہے کہ وہ  اجتہاد  کے راستے کو جو مکتب اہل بیت کا راستہ ہے اور جس پر  شیخ مفید، سید مرتضیٰ، شہید اول، صاحب جواہر، شیخ انصاری، آخوند خراسانی اور امام خمینیؒ  گامزن   تھے   پوری قوت کے ساتھ جاری  رکھے   ۔