10

اہل سنت پیغمبر اکرم(ص) کے مشن کو آگے بڑھانے میں جناب ابوطالبؑ کے فیصلہ کن کردار کو تسلیم کرتے ہیں،ڈاکٹر صباحی

  • News cod : 12466
  • 05 مارس 2021 - 12:37
اہل سنت پیغمبر اکرم(ص) کے مشن کو آگے بڑھانے میں جناب ابوطالبؑ کے فیصلہ کن کردار کو تسلیم کرتے ہیں،ڈاکٹر صباحی
ابوطالب تحقیقاتی اور ثقافتی مرکز کے سربراہ نے کہا کہ بعض اس طرح سے سفسطہ کرتے ہیں کہ چونکہ رسول خدا نے جناب ابوطالب کے جنازے پر نماز نہیں پڑھائی لہذا وہ مسلمان نہیں تھے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک پیغمبر مکہ میں تھے نماز میت کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا۔ نماز میت کا حکم پیغمبر اکرم کی مدینہ ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔

وفاق ٹائمز-جناب ابوطالب(ع) حامی پیغمبر اعظم(ص) بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے پچیسویں علمی نشست “جناب ابوطالب (س) کے بارے میں تحقیقی اور علمی رہنمائی” کے زیر عنوان ورچوئل طریقے سے منعقد ہوئی۔
یہ علمی نشست جو ایران کے صوبہ یزد کے دفتر تبلیغات اسلامی اور اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے باہمی تعاون سے منعقد ہوئی اس میں یزد کے بعض علماء نے گفتگو کی۔
حجۃ الاسلام ڈاکٹر محقق زارع خورمیزی نے اس نشست کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالی اور ابوطالب تحقیقی سینٹر کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محمد مہدی صباحی کاشانی اور حوزہ علمیہ قم کے استاد حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد کاظم مدرسی نے اس نشست میں گفتگو کی۔
یہ نشست جو اسکائی روم پر منعقد ہوئی اسے ابنا نیوز کے انسٹاگرام پیچ پر لائو بھی نشر کیا گیا۔

حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محمد رضا محقق زارع خورمیزی نے اس علمی نشست کے آغاز میں جناب ابوطالب کی حیات طیبہ پر روشنی ڈولتے ہوئے کہا: آپ نے ۳۰ سال تک پیغمبر اکرم کی بھرپور حمایت کی اور ۱۰ سال مومن قریش ہونے کے عنوان سے کردار پیش کیا۔
اس علمی نشست کے سیکرٹری نے مزید کہا: لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر جناب ابوطالب کے چہرے پر نقاب ڈال دی گئی۔ اور یہ ایسے حال میں ہے کہ اسلام کے تئیں ان کی حمایت اور خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ جنہیں یہاں بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جناب ابوطالب نے شعب ابی طالب میں محاصرے کے تین سال تک مزاحمت کی اور رسول خدا (ص) کی پشت پناہی کرتے رہے۔ یہاں پر جن اہم موضوعات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ ان بحرانی حالات اور اقتصادی پابندیوں کے خلاف مزاحمت ہے کہ جو جناب ابوطالب نے ان تین سالوں میں کی۔
محقق زارع نے کانفرنس کے موضوعات کے بارے میں کہا: جناب ابوطالب بین الاقوامی کانفرنس پانچ اصلی موضوعات؛ “تاریخ اور سیرت”، “کلام اور عقائد”، “شعر و ادب”، “تصنیفات اور مصنفین”، اور “حضرت ابوطالب اور مزاحمت” پر منعقد ہو رہی ہے۔ اور صوبہ یزید سے اس کانفرنس کے حوالے سے علمی مقالات اور ادبی و ہنری آثار وصول کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت ابوطالب کے بارے میں یزد کے کتب خانے میں خطی نسخوں کو احیاء کرنے اور انہیں دوبارہ منظر عام پر لانے کا کام شروع ہے۔
اس علمی نشست کے سیکرٹری نے خود نشست کی بارے میں کہا: مجھے امید ہے کہ آج کی یہ علمی نشست جو جناب ابوطالب کے بارے میں تحقیقی رہنمائی پر منعقد کی جا رہی ہے اس میں صوبہ یزد کے علماء اور فضلاء بھر پور شرکت کا مظاہرہ کریں گے۔
انہوں نے نشست کے پہلے مقرر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا: ابوطالب تحقیقاتی مرکز کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محمد مہدی صباحی کاشانی نے اپنی عمر جناب ابوطالب (ع) کے حوالے سے مرقوم آثار کو احیاء کرنے میں گزاری ہے اور اس راہ میں بے مثال کارنامے انجام دئے ہیں۔
ابنا نیوز کے مطابق، جناب ابوطالب بین الاقوامی کانفرنس کی پچیسویں علمی نشست کے پہلے مقرر حجۃ الاسلام و المسلمین محمد مہدی صباحی کاشانی نے جناب ابوطالب کی عملی زندگی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: پہلی بات جس پر تمام مراجع کی تاکید ہے اور رہبر انقلاب نے بھی اس پر توجہ مبذول کروائی ہے وہ جناب ابوطالب کی شخصیت کی شناخت اور پہچان ہے۔ ائمہ طاہرین اس کے باوجود کہ امام تھے جناب ابوطالب کے نسبت ایک خاص لگاؤ رکھتے تھے اور ان کی خصوصیات کو لوگوں کے لیے بیان کرتے تھے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انقلاب اسلامی کے گزشتہ بیالیس سالوں میں اس موضوع پر کام نہیں ہوا۔
جناب ابوطالب (ع) تحقیقاتی سینٹر کے سربراہ نے مزید کہا: جناب ابوطالب (ع) کانفرنس کے موضوعات میں سے ایک اصلی اور بنیادی موضوع جناب ابوطالب کی شخصیت کو اہل سنت کی نگاہ سے پہچنوانا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت مذہب اہل سنت کی پیرو ہے اور اہل سنت کی بعض تاریخی اور تفسیری کتابوں میں جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کو بیان کیا گیا ہے وہاں جناب ابوطالب کے بنیادی کردار کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر ان موارد کو اکٹھا کیا جائے تو رسول اسلام کی حمایت اور آپ کے مشن کی ترقی کے سلسلے میں جناب ابوطالب کے کردار کا اندازہ ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: شیعہ علماء متفقہ طور پر جناب ابوطالب کی شخصیت کو مانتے ہیں اور ایمان و تقویٰ کے لحاظ سے ان کے مقام سے آگاہ ہیں۔ ہم اس کانفرنس میں اہل سنت کے حوالے سے اس موضوع کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اہل سنت کے علما بھی جناب ابوطالب کی شخصیت کا احترام کرتے اور ان کے معنوی مقام کے قائل ہیں۔ لہذا اس سیمینار میں ہمارے زیادہ تر پیش نظر منابع و ماخذ، اہل سنت کے منابع ہیں۔ ان منابع میں جناب ابوطالب کے مناقب کو رسول اکرم (ص) کے مناقب کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا: جناب ابوطالب کی خدمات تھیں کہ پیغمبر اکرم قرآن کریم کی آیات اور الہی قوانین کو بیان کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آپ دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے اور رسول اپنا مشن انجام دیتے تھے۔ یہ چیز اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہذا ہم اس سیمینار میں ان مطالب کی طرف عالم اسلام کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
صباحی کاشانی نے ان منابع اور کتابوں کے بارے میں واضح کیا: اہل سنت کے منابع اور مصادر کی ۳۰۰ کتابوں کا جائزہ کیا گیا ہے ۱۳۵ اخلاقی، حدیثی، تفسیری اور تاریخی کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے کہ جن میں جناب ابوطالب کے اہم کردار کو بیان کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مثال کے طور پر حلب یونیورسٹی کے پروفیسر “محمد التونجی” نے جناب ابوطالب کے بارے میں کئی رسالے اور مقالات تحریر کئے ہیں اور آپ سے متعلق اشعار کا دیوان اکٹھا کر کے اسے شائع کیا ہے۔ حلب یونیورسٹی کے استاد لکھتے ہیں: جناب ابوطالب کے ایمان کی بحث سے قطع نظر، انہوں نے 42 سال یعنی اپنی زندگی کے آخری لمحے تک رسول اکرم (ص) کی قدم قدم پر مدد کی ہے”۔ پیغمبر اکرم آٹھ سال کی عمر سے جناب ابوطالب کی سرپرستی میں تھے اس اعتبار سے انہوں نے پیغمبر اکرم کی بچپنے سے لے کر، نوجوانی، ازدواج، بعثت اور بعثت کے بعد کے مراحل میں، آپ کے پشت پناہی کی۔ رسول اسلام کے مشن کو آگے بڑھانے میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔

ابوطالب تحقیقاتی اور ثقافتی مرکز کے سربراہ نے جناب ابوطالب کی حمایت کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے کہا: رسول اکرم نے بعثت کے بعد مشرکین مکہ کے سرداروں کو دعوت دی، اور ان کے ساتھ جلسے رکھنا شروع کئے، ہر روز ابولہب یا ابوجہل جیسے لوگ جلسے میں خلل اندازی پیدا کر کے لوگوں کو بھگا دیتے تھے، آخر کار جناب ابوطالب نے جلسات کی مدیریت کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور ابولہب کو فتنہ کرنے کی اجازت نہیں دی، یہ وہی دعوت ہے جسے دعوت ذوالعشیرہ کہا جاتا ہے اور اس میں حضرت علی کو پیغمبر اکرم نے اپنا وصی اور جانشین متعارف کروایا۔ حضرت ابوطالب نے اس جلسے اور دعوت میں مرکزی کردار ادا کیا اور رسول خدا کے دفاع میں مشرکوں کی جانب سے طعنے بھی سنے کہ “اب تمہیں اپنے بیٹے کی اطاعت کرنا پڑے گی”۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ” جو افراد امیرالمومنین (ع) سے محبت رکھتے ہیں اور ولایت امام کو وسعت دینا چاہتے ہیں انہیں جناب ابوطالب کے کردار کو بھی زندہ رکھنا ہو گا”، انہوں نے جناب ابوطالب کے ایمان کے بارے میں پائے جانے والے بعض شبہات کی طرف اشارہ کیا اور کہا: بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ جناب ابوطالب نے ظاہری طور پر کلمہ نہیں پڑھا ہے لہذا شاید مسلمان نہیں ہوئے!”۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ وہ شخص جو مشرکین مکہ کے ساتھ ہونے والے جلسے کی مدیریت کرتا ہے اور مشرکین کے شر سے پیغمبر اکرم کو محفوظ رکھتا ہے اور آپ کی رسالت کو آگے بڑھانے میں آپ کی مدد کرتا ہے اسے چاہیے کہ ظاہری طور پر غیر جانبداری کا ثبوت دے۔ جو حضرت ابوطالب نے بخوبی کیا، لیکن انہوں نے اپنے اشعار میں کہا: “اگر میں اپنے ایمان کو ظاہر نہیں کر پا رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں رسول اکرم کی حمایت کرنا چاہتا ہوں”۔ لہذا جناب ابوطالب نے عملی طور پر اپنے ایمان کا ثبوت پیش کیا۔
صباحی کاشانی نے جناب ابوطالب کے ایمان کے بارے میں بعض دوسرے شبہات کو اس طرح سے بیان کیا: بعض اس طرح سے سفسطہ کرتے ہیں کہ چونکہ رسول خدا نے جناب ابوطالب کے جنازے پر نماز نہیں پڑھائی لہذا وہ مسلمان نہیں تھے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک پیغمبر مکہ میں تھے نماز میت کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا۔ نماز میت کا حکم پیغمبر اکرم کی مدینہ ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔
اس مذہبی اسکالر نے جناب ابوطالب بن عبد المطلب کو قبل اسلام عرب کے معروف حکما میں سے قرار دیا اور واضح کیا: اسلام سے قبل بھی جزیرۃ العرب میں اہل علم و فہم شخصیات پائی جاتی تھیں جنہیں مفکر انسان ہونے کے عنوان سے جانا جاتا تھا۔ ان میں سے بعض عیسائی اور یہودی علماء سے رابطے میں تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اسلام میں بعض ایسے احکام پائے جاتے ہیں جن کا تعلق دوران جاہلیت سے ہے اور اسلام نے انہیں ویسے ہی قبول کیا ہے پس ایسے افراد جاہلیت کے دور میں عربوں کے درمیان موجود تھے جو علم و حکمت کی تبلیغ کرتے تھے اور جناب ابوطالب اسی گروہ میں سے تھے بلکہ ان کے سردار تھے۔
انہوں نے کہا: جاہلیت کے دور میں کچھ ایسے افراد تھے جو شراب کو حرام سمجھتے تھے اور شراب پینا پسند نہیں کرتے تھے، ان افراد میں سے ایک جناب ابوطالب تھے، سب لوگ جناب ابوطالب کی سربراہی کو مانتے تھے اور انہیں اپنے قبیلے کا سردار بلکہ ایک جامع شخصیت سمجھتے تھے۔ آپ حتیٰ نبی کریم کی بعثت سے پہلے جاہلیت کے دور میں بھی ان اسلامی قوانین پر عمل کرتے تھے جو بعد میں اسلام نے اپنے قوانین کا حصہ بنا لیا، لہذا ہم انہیں حتیٰ اسلام سے قبل بھی مومن اور خداپرست سمجھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: انہیں سب قرآئن اور نشانیوں کی بنا پر بعض اس بات کے قائل ہیں کہ جناب ابوطالب اولیائے الہی میں سے تھے اور سابق انبیاء کے وصی تھے کہ اس موضوع پر اس کانفرنس میں تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جناب ابوطالب کی شخصیت پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے کہا: آپ ایسی گمنام شخصیت کے مالک تھے جنہیں دنیا والوں کے سامنے متعارف کروانے کی ضرورت ہے، جناب ابوطالب نے رسول خدا کی حمایت کرنے کے علاوہ دیگر مسلمانوں کو بھی پناہ دی۔
حجۃ الاسلام و المسلمین صباحی کاشانی نے آخر میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ابوطالب کی شخصیت اسلام کی ترقی میں اہم ترین کردار کی حامل ہے اور علمائے اہل سنت اس بات کے معترف ہیں، کہا: سب سے بڑی وہ شخصیت جنہوں نے جناب ابوطالب کی شخصیت پر کام کیا ہے وہ علامہ عبد الحسین امینی (رہ) ہیں۔ انہوں نے کتاب الغدیر کی ساتویں اور آٹھویں جلدوں کو جناب ابوطالب سے مخصوص کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص جناب ابوطالب کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہے سب سے پہلے کتاب الغدیر کا مطالعہ کرے اس کے بعد علامہ سید جعفر مرتضیٰ العاملی کی کتاب “ظلامۃ ابی طالب” اور “تاریخ و دراسۃ” کا مطالعہ کرے اس کے بعد دیگر کتابوں کی تلاش میں جائے۔

آیت اللہ مدرسی یزدی: جناب ابوطالب کی استثنائی شخصیت
جناب ابوطالب بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے پچیسویں علمی نشست کے دوسرے مقرر حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد کاظم مدرسی یزدی نے ایمان ابوطالب پر گفتگو کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا: اس گفتگو کا سب سے پہلا مثبت نتیجہ یہ ہو گا کہ اس سے امیر المومنین علی علیہ السلام اور اہل بیت(ع) کی فضیلت بھی ثابت ہو گی۔
انہوں نے مزید وضاحت فرمائی: طول تاریخ میں وہ افراد جن کے آباؤ و اجداد اہل فضیلت تھے وہ بھی معاشرے میں خاص فضائل کے مالک رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ لوگ جو معاشرے میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے گھرانے کی طرف اگر منفی نگاہ سے دیکھا جائے تو سماج میں ان کے اندر وہ جذابیت پیدا نہیں ہو پاتی۔ اس وجہ سے بعض لوگوں نے طول تاریخ میں کوشش کی کہ اہل بیت(ع) کے فضائل کو چھپائیں اور یہاں تک کہ ان کے خلاف حدیثیں گھڑی گئیں۔
حوزہ علمیہ یزد کی کونسل کے نائب سربراہ نے مزید کہا: جو لوگ جناب ابوطالب کے ایمان کا انکار کرتے ہیں وہ در حقیقت اپنے رہبروں کو ان کے برابر میں لانا چاہتے ہیں کہ جن کے نہ صرف آباؤ و اجداد مشرک تھے بلکہ وہ خود بھی ایک عرصے تک مشرک تھے۔ لہذا وہ اس لیے کہ خود کو ناقص نہ سمجھیں دوسروں میں نقص تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے رہنماؤں کے اندر معمولی سا نقص و عیب بھی نہیں پایا جاتا۔
انہوں نے اہل بیت(ع) کے ساتھ دشمنی کے ثبوت بیان کرتے ہوئے کہا: جناب ابوطالب کا مقبرہ مکہ میں تھا اور اس پر گنبد بنا ہوا تھا لیکن وہابیوں نے اسے مسمار کر دیا۔ اہل بیت کے دشمن ہمیشہ سے اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان کئے گئے فضائل میں نقائص تلاش کرتے آئے ہیں۔
استاد مدرسی یزدی نے جناب ابوطالب کی زندگی کو مختلف پہلو کے اعتبار سے تحقیق کرنے کے لائق قرار دیا اور کہا: جناب ابوطالب کے ایمان کو ثابت کرنا ایک اعتقادی اور کلامی بحث ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ اہل بیت(ع) کے آباؤ و اجداد مومن تھے اس لیے پھولوں اور پودوں کے اگنے کے لیے کھیت کا صاف ہونا ضروری ہے ورنہ گندے کھیت میں پھول اور صاف پودے نہیں اگ سکتے۔
انہوں نے مزید کہا: جناب ابوطالب (ع) رسول اکرم (ص) کے زمانے میں ہی دنیا سے رخصت ہوئے لیکن آپ کی نسبت بغض و حسد رکھنے والوں نے ان کو مومن صحابی کے نام سے ذکر نہیں کیا بلکہ یہاں تک کہ انہیں “مخضرم” کی حد تک بھی نہیں سمجھا (علم حدیث میں اسے کہا جاتا ہے جس نے اسلام اور جاہلیت کے دور کو درک کیا ہو لیکن پیغمبر سے ملاقات نہ کی ہو)۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے اس کے بعد یہ سوال اٹھایا: یہ سوال اہم ہے کہ کیوں بعض لوگوں نے اتنے قرآئن اور نشانیوں کے باوجود جناب ابوطالب کی فضیلتوں کا انکار کیا؟ وہ بھی ایسے حال میں کہ اہل بیت اطہار (ع) کا اجماع ہے اس بات پر کہ ابوطالب مومن تھے۔ یعنی ائمہ معصومین کے درمیان جہاں کہیں بھی ابوطالب کا نام آیا ہے اہل بیت(ع) نے ان کے ایمان کو ثابت کیا ہے یہ چیز آپ کی عظیم شخصیت کی علامت ہے۔
حوزہ علمیہ یزد کی کونسل کے نائب سربراہ نے جناب ابوطالب کے ایمان پر دلیل پیش کرتے ہوئے کہا: حضرت ابوطالب کی زوجہ فاطمہ بن اسد تھیں اور تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ خاتون مومنہ تھیں اور پیغمبر اکرم کے نزدیک کا خاص احترام تھا۔ اسلام میں زن و شوہر کے درمیان ایمان کے لحاظ سے ہم کفو ہونا ضروری ہے یعنی اسلام میں مسلمان مرد کی زوجہ مسلمان اور اسی طرح مسلمان عورت کا شوہر مسلمان ہونا چاہیے۔ اور پھر ایسے حال میں جب پیغمبر اکرم نے مسلمان عورتوں کو اپنے غیر مسلم شوہر سے الگ ہونے کا حکم دے دیا تھا لیکن کہیں نہیں ملتا کہ جناب فاطمہ بن اسد کو جناب ابوطالب سے الگ ہونے اور طلاق لینے کے بارے میں کہا ہو۔
آیت اللہ مدرسی یزدی نے جناب ابوطالب کے بارے میں پائے جانے والے شبہات کے جوابات دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: سچے رہبروں کی فضیلتوں کو چھپانا ہنر نہیں، ضروری ہے کہ ہم جناب ابوطالب کے بارے میں پیدا کئے گئے شبہات کے جوابات دیں اور نیز یہ بھی بیان کریں کہ کون لوگ اس طرح کے شبہات پیدا کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جناب ابوطالب کے بارے میں ایک شبہہ یہ بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ کیوں آپ آشکارا طور پر مسلمانوں کی صف میں شامل نہیں ہوئے؟ ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ جناب ابوطالب نے آشکارا طور پر ایمان کا اعلان نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ مکہ کے سردار تھے بنی ہاشم بلکہ تمام قریش کے سردار، کعبہ کے کلید بردار اور بزرگان عرب میں سے تھے۔ لہذا وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی حمایت کو جاری رکھ سکیں۔
انہوں نے کہا: ابوطالب روح اسلام کو مانتے تھے یہاں تک کہ بعثت سے پہلے بھی انہوں نے ایک دن بھی بتوں کی پوجا نہیں کی، انہوں نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ رسول خدا کے ساتھ نماز قائم کریں انہیں حمایتوں کی بدولت انہوں نے تین سال شعب ابی طالب میں ہر طرح کے رنج و الم کو برداشت کیا لیکن رسول خدا کو خود سے دور نہیں کیا۔
استاد مدرسی یزدی نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں یہ بات بیان کی ہے کہ حضرت ابوطالب (ع) ایک استثنائی شخصیت تھے کہا: مختلف کتابیں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس عظیم شخصیت کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔
انہوں نے آخر میں شیخ الاباطح حضرت ابوطالب کے بارے میں چند کتابوں کا تعارف کرواتے ہوئے کہا: حجۃ الاسلام و المسلمین محمد مہدی اشتہاردی نے “زندگی ابوطالب(ع) کے حوالے سے کتاب لکھی ہے یہ کتاب آستان قدس رضوی کے ذریعے منظر عام پر لائی گئی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جناب ابوطالب مومن قریش تھے۔
انہوں نے کہا: اس کے علاوہ حجۃ الاسلام و المسلمین محمد حسن شفیعی شاہرودی نے “ابوطالب حامی پیغمبر” کے عنوان سے کتاب لکھی وہی شاہرودی جنہوں نے الغدیر کا فارسی میں ترجمہ کیا اور پھر ایک جلد میں اس کا خلاصہ کیا۔

خیال رہے کہ “جناب ابوطالب(ع) حامی پیغمبر اعظم (ص) بین الاقوامی سیمینار” اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے ذریعے اور دیگر ہم خیال اداروں منجملہ آستان مقدس حسینی، موسسہ فرھنگی تحقیقات و نشر حضرت ابوطالب، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، دفتر تبلیغات اسلامی، جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ، مرکز آموزش زبان حوزہ ہائے علمیہ، اہل بیت(ع) انٹرنیشنل یونیورسٹی، موسسہ فرہنگی میراث نبوت، جامعۃ الزہرا(س)، الذریہ النبویہ تحقیقی سینٹر، موسسہ فرہنگی قاسم بن الحسن(ع)، موسسہ فرہنگی ابناء الرسول، وغیرہ کے باہمی تعاون سے منعقد کی جا رہی ہے۔
سیمینار کے بارے میں مزید جانکاری کے لیے فارسی، عربی، انگریزی اور اردو کے پوسٹرز کو یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔
جناب ابوطالب عالمی مشاعرہ کانفرنس بھی اس سیمینار کے ضمنی پروگراموں کا حصہ ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=12466