حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کا مختصر تعارف
دین کا پیغام پہنچانے کے لئے ہمارے اندر خلق عظیم کے درجے پر فائز نبی اکرم ص کے اخلاق کی جھلک نظر آنی چاہیے
حضرت ابو طالب ہر مشکل وقت میں پیش قدم اور مشکلات کے حل کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ لوگوں کو پانی پہنچانے کے ذمہ داری آپ کے کندھوں پرتھی
انہوں نے کہا کہ آج کچھ نام نہاد اس ہستی کے ایمان میں شک و شبہ کا گناہ کرتے ییں ۔امام صادق علیہ السلام نے ایک صحابی جناب ابان کے ایمان ابوطالب پر سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جو ایمان ابوطالب میں شک بھی کرے گا خدا اسے جھنم میں ڈالے گا خواہ وہ کتنا بڑا نیک مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
ابوطالب کا پورا خاندان پیغمبر اکرم(ص) کی حمایت کے لئے مجتمع ہوچکا تھا، اور یہ حمایت رسول اللہ(ص) کی پچاس سال کی عمر تک جاری و ساری رہی؛ یوں ابو طالب(ع) نے 42 سال تک رسول اللہ(ص) کی سرپرستی، مدد اور حمایت کی۔ حمایت کا یہ سفر بڑا کٹھن تھا، کئی مرتبہ ابو طالب(ع) کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا تھا اور جو بھی خطرہ رسول اللہ(ص) کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا، حضرت ابو طالب(ع) تلوار سونت کر آپ(ص) کے دشمنوں کے مد مقابل سینہ سپر ہوجاتے تھے اور قریشی کفار و مشرکین کے تمام خطروں سے نمٹ لیتے تھے۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اپنی عمر کے آخری وقت میں خاندان کے تمام بزرگوں کو جمع کیا اوران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:میں تم چاروں کو پیغمبر اکرم (ص)کے بارے میں خاص طور پر وصیت کرتا ہوں۔ میرے بیٹے علی ، قبیلے کے سر براہ عباس اور خدا کے شیر حمزہ جنہوں نے ہمیشہ پیغمبر اکرم (ص)کی حمایت کی ہے اور میرے بیٹے جعفر جس نے ان کی نصرت اور مدد کی ہے۔ تم لوگوں نے ہمیشہ پیغمبر اکرم(ص) کو دشمنوں سے محفوظ رکھا ہے۔
ابوطالب تحقیقاتی اور ثقافتی مرکز کے سربراہ نے کہا کہ بعض اس طرح سے سفسطہ کرتے ہیں کہ چونکہ رسول خدا نے جناب ابوطالب کے جنازے پر نماز نہیں پڑھائی لہذا وہ مسلمان نہیں تھے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک پیغمبر مکہ میں تھے نماز میت کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا۔ نماز میت کا حکم پیغمبر اکرم کی مدینہ ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔