8

رسول اللہ(ص) کی حمایت کا سرچشمہ ابوطالب کا قلبی ایمان و اعتقاد ہے،آیت اللہ حسینی بوشہری

  • News cod : 13107
  • 10 مارس 2021 - 18:35
رسول اللہ(ص) کی حمایت کا سرچشمہ ابوطالب کا قلبی ایمان و اعتقاد ہے،آیت اللہ حسینی بوشہری
ابوطالب کا پورا خاندان پیغمبر اکرم(ص) کی حمایت کے لئے مجتمع ہوچکا تھا، اور یہ حمایت رسول اللہ(ص) کی پچاس سال کی عمر تک جاری و ساری رہی؛ یوں ابو طالب(ع) نے 42 سال تک رسول اللہ(ص) کی سرپرستی، مدد اور حمایت کی۔ حمایت کا یہ سفر بڑا کٹھن تھا، کئی مرتبہ ابو طالب(ع) کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا تھا اور جو بھی خطرہ رسول اللہ(ص) کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا، حضرت ابو طالب(ع) تلوار سونت کر آپ(ص) کے دشمنوں کے مد مقابل سینہ سپر ہوجاتے تھے اور قریشی کفار و مشرکین کے تمام خطروں سے نمٹ لیتے تھے۔

وفاق ٹائمز:حضرت ابو طالب(ع) حامی پیغمبر اعظم(ص) بین الاقوامی سیمینار” کی افتتاحی تقریب 9 مارچ 2021ء کو قم المقدسہ کے مدرسۂ امام خمینی(رح) کے قدس آڈیٹوریم میں شروع ہوئی۔
حوزہ علمیہ قم کی انجمن اساتذہ کے سربراہ آیت اللہ سید ہاشم حسینی بوشہری نے “حضرت ابو طالب(ع) حامی پیغمبر اعظم(ص) بین الاقوامی سیمینار” کے مہتممین، بالخصوص عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کا شکریہ ادا کیا اور کہا: دین اسلام جزیرہ نمائے عرب کی حدود سے گذر کر دنیا میں پھیل گیا اور اسلام کا عالمی پیغام پوری دنیا اور بادشاہوں اور سلاطین تک پہنچایا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی کامیابی کے کئی عوامل تھے، اور ہر عامل اور ہر سبب کا الگ الگ تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے رسول اللہ(ص) کی کامیابی کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ(ص) کی ذات بابرکات غیبی امداد سے بہرہ ور تھی اور اللہ نے آپ(ص) کی مدد کا وعدہ دیا۔ نیز بنی نوع انسان کے نازل ہونے والی کتاب ہدایت اور اس کی نورانی آیات کریمہ انسان کی روح و جان کی اتہاہ گہرائیوں تک اتر گئی تھیں؛ نیز رسول اللہ(ص) نہایت اخلاق حسنہ اور نہایت شائستہ طرز سلوک کے مالک تھے؛ کہا جاتا تھا کہ آپ کی اخلاقی خصوصیات کسی بھی حکمران  یا صاحب اقتدار سے شباہت نہیں رکھتی ہیں؛ اور دوست اور دشمن سب آپ کے اخلاق حسنہ کے معترف تھے۔
انھوں نے عصر رسالت میں رسول اکرم(ص) کی حمایت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: کفار قریش کی غوغاؤں کے بیچ – جو آپ(ص) کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے، اور آپ کی طفولت سے ہی آپ کی شناخت کرنے اور آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے کوشاں تھے – رسول اللہ(ص) کو حامی اور محافظ کی ضرورت تھی۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد (سلام اللہ علیہا) کی شان و منزلت پر اپنی جگہ بحث و تمحیص کا اہتمام ہونا چاہئے، لیکن حضرت ابو طالب(ع) ایک مدافع، حامی، غمخوار اور رسول اللہ(ص) کے ساتھ جذباتی پیوند رکھنے والے تھے اور طفولت سے لے کر بعثت کے بعد کے کئی سالوں تک رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہے، اور آپ کو لمحہ بھر بھی تنہا نہيں چھوڑا۔
انھوں نے مزید کہا: ابو طالب(ع) نے بعثت سے قبل بھی اور بعثت کے بعد بھی رسول اللہ(ص) کی حمایت اور پشت پناہی کا فریضہ بطور احسن نبھایا، اور رسول اللہ(ص) کی حمایت اسلام کی حمایت سے جدائی ناپذیر ہے۔ رسول اللہ(ص) اسلامِ مجسّم ہیں اور اگر کوئی اسلام کے مظہر اور تجسّم کی حمایت کرے، اس نے یقینا اسلام کو پورے وجود کے ساتھ محسوس کرلیا ہے اور ایمان کامل کا مالک ہے۔
آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا: “حضرت ابو طالب(ع) حامی پیغمبر اعظم(ص) بین الاقوامی سیمینار” کا انعقاد ایک تاریخی واقعہ ہے اور ضروری ہے کہ یہ سیمینار ہمارے آج کے لئے پیغام کا حامل ہو۔
انھوں نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کی محبت و حمایت اس لمحے عروج تک پہنچی جب حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) نے وفات پائی اور اپنے فرزند [اور رسول اللہ(ص) کے چچا] حضرت ابو طالب(ع) سے وصیت کرتے ہوئے کہا: “میں محمد(ص) کو آپ کے سپرد کرکے جارہا ہوں”۔ یہیں سے رسول اللہ(ص) کے لئے ابو طالب(ع) کی حمایت اپنے عروج کو پہنچی۔ فردی حمایت کے حوالے سے ابو طالب(ع) رسول خدا(ص) کے کفیل اور سرپرست ہوئے اور خاندانی حمایت کے حوالے سے، ابو طالب(ع) کے پورے خاندان نے رسول اللہ(ص) کی حمایت میں پورا پورا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ جب حضرت ابو طالب(ع) کی زوجۂ مکرمہ اور امیرالمؤمنین(ع) کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) دنیا سے رخصت ہوئیں تو آپ(ص) نے انہیں اپنے لباس کا کفن دیا؛ کیونکہ جس طرح کہ ابو طالب(ع) نے رسول اللہ(ص) کے لئے والد کا کردار ادا کیا اسی طرح سیدہ فاطمہ بنت اسد(س) نے بھی آپ کے لئے ماں کا کردار ادا کیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا: ابوطالب کا پورا خاندان پیغمبر اکرم(ص) کی حمایت کے لئے مجتمع ہوچکا تھا، اور یہ حمایت رسول اللہ(ص) کی پچاس سال کی عمر تک جاری و ساری رہی؛ یوں ابو طالب(ع) نے 42 سال تک رسول اللہ(ص) کی سرپرستی، مدد اور حمایت کی۔ حمایت کا یہ سفر بڑا کٹھن تھا، کئی مرتبہ ابو طالب(ع) کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا تھا اور جو بھی خطرہ رسول اللہ(ص) کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا، حضرت ابو طالب(ع) تلوار سونت کر آپ(ص) کے دشمنوں کے مد مقابل سینہ سپر ہوجاتے تھے اور قریشی کفار و مشرکین کے تمام خطروں سے نمٹ لیتے تھے۔
آیت اللہ بوشہری نے کہا: ابو طالب(ع) تاجر تھے لیکن رسول اللہ(ص) کی پیہم حمایت و حفاظت کی خاطر انھوں نے کاروبار تجارت کو ترک کردیا؛ اور غربت کو قبول کیا یہاں تک کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا: “میرے والد نادار ہوچکے تھے لیکن ناداری کے باوجود سید و سرور تھے اور وہ قریش کے زعیم اور سرور تھے”۔ کئی بار قریشیوں نے آکر ابو طالب(ع) سے کہا کہ “محمد(ص) کو نصیحت کیجئے کہ ہمارے بتوں کو اپنے حال پر چھوڑیں، اور وہ جو بھی چاہیں ہم انہیں دے دیں گے”۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: “خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں، کہ میں دین کی تبلیغ اور اپنے مقصد سے دستبردار ہوجاؤں، میں پھر بھی دستبردار نہيں ہونگا”، چنانچہ ابو طالب(ع) نے فرمایا: جاؤ، جیسے چاہو بات کرو، میں تمہاری حمایت کروں گا اور آپ کو کسی کے سپرد نہیں کروں گا اور تنہا نہيں چھوڑوں گا”۔
انھوں نے کہا: ابن ابی الحدید معتزلی اہل سنت کے علماء میں سے ہیں جو رسول اللہ(ص) کی حمایت میں ابو طالب(ع) کے عظیم کردار کے حوالے سے اپنے منظوم کلام میں کہا ہے کہ اگر ابو طالب(ع) اور ان کے فرزند علی ابن ابی طالب(ع) نہ ہوتے تو اسلام بلا نتیجہ رہ جاتا، باپ نے مکہ میں کردار ادا کیا اور بیٹے نے مدینہ میں اپنی جان نچھاور کی۔
انھوں نے مزید کہا: جبرائیل(ع) نے ابو طالب(ع) کی وفات کے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا: “اب آپ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں، کیونکہ آپ اپنے ناصر و مددگار کو کھو چکے ہیں۔ اور رسول اللہ(ص) نے فرمایا: جب تک ابوطالب بقید حیات تھے، کوئی بھی مجھے کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔
آیت اللہ حسینی بوشہری نے شعب ابی طالب میں ابو طالب(ع) کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ابو طالب(ع) حتی کہ شعب ابی طالب میں بھی قریش کے زعیم تھے لیکن تین سال تک دروں میں زندگی بسر کی۔ دروں اور پہاڑیوں میں رسول اللہ(ص) کے ساتھ تھے، تاکہ آپ(ص) کبھی بھی تنہائی محسوس نہ کریں۔ ابوطالب(ع) ہر شب رسول اللہ(ص) کے آرام کرنے کے مقام کو تبدیل کرتے رہتے تھے، تاکہ آپ(ص) قریشی مشرکین کے ممکنہ قاتلانہ حملوں سے محفوظ رہیں۔ ابو طالب(ع) نے بوقت وفات اپنے بیٹوں سے مخاطب ہوکر وصیت کرتے ہوئے فرمایا: “میں رسول اللہ(ص) کو آپ کے سپرد کررہا ہوں، کیونکہ وہ امین قریشن، عرب کے صادق اور تمام کمالات کے مالک ہیں؛ اور ایسا دین بنی نوع انسان کے لئے ایسا دین لے کر آئے ہیں، جس پر لوگوں کے دل ایمان لا چکے ہیں اور یہ [رسول اللہ(ص)] دعوتِ خیر کے سوا کسی بھی اور چیز کی طرف کسی کو نہیں بلاتے۔
حوزہ علمیہ کے اس استاد محترم نے رسول اللہ(ص) کو حاصل ابو طالب(ع) کی حمایت کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: علمی و ثقافتی پہلو میں، ابو طالب(ع) نے پیغمبر اکرم(ص) کی حمایت میں بہت اعلی پائے کے اشعار کہے ہیں؛ کیونکہ علمی و ثقافتی حمایت کی زبان اس زمانے میں شاعری کی زبان تھی۔ نیز آپ نے رسول اللہ(ص) کی حمایت کی خاطر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لئے منظوم کلام بھجوایا۔ آپ نے پیغمبر اکرم(ص) اور اسلام کی حمایت میں 3000 اشعار کہے ہیں۔ سیاسی حمایت کے پہلو میں، ابو طالب(ع) تن تنہا مشرکین اور اس وقت کے استعماری محاذ کے مد مقابل کھڑے ہوگئے اور آج ہمارے عوام عالمی استکبار کے سامنے جمے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا: محاذ مقاومت دنیا بھر میں بنی نوع انسان کے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹا ہؤا ہے اور محاذ مزاحمت کے لئے قابل تقلید اور مثالی نمونہ حضرت ابو طالب(ع) کی شخصیت ہے، اور رسول اللہ(ص) کی طویل المدت حمایت کا سرچشمہ ابوطالب(ع) کا قلبی ایمان و اعتقاد ہے نہ کہ نسبی رشتہ؛ ورنہ تو امیرالمؤمنین(ع) آپ کے حقیقی فرزند ہونے کے ناطے آپ سے قریب تر تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ شعب ابی طالب میں آپ اپنے فرزند کو رات کے وقت رسول اللہ(ص) کے بستر پر لٹا دیتے تھے تاکہ اگر کہیں سے کوئی خطرہ ہو تو بیٹا قربان ہوجائے مگر رسول اللہ(ص) کو کوئی گزند نہ پہنچے؛ تو کیا ایمان و اعتقاد کا اس سے بھی کوئی بڑا اظہار ہوسکتا ہے؟ چنانچہ رسول اللہ(ص) کی حمایت ابو طالب(ع) کے باطن یعنی قلبی ایمان و اعتقاد، کو نمایاں کرتی ہے۔ رسول اللہ(ص) کی اس سے بڑھ کر کیا حمایت ہوسکتی ہے کہ آپ(ص) کی تعلیمات کو عام کیا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ آپ سے محبت اور آپ کی راہ میں ایثار اور حتی کہ آبرو کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور حضرت ابوطالب (علیہ السلام) نے یہ سب کچھ کرکے دکھایا ہے۔
آیت اللہ سید ہاشم حسینی بوشہری نے کہا: علامہ طباطبائی نے ابو طالب (علیہ السلام) کی حمایت کے بارے میں کہا ہے کہ “مکہ میں رسول اللہ(ص) کے 10 سالہ دور رسالت کے دوران ابو طالب(ع) کی جدوجہد مہاجرین و انصار کی تمام کوششوں اور محنتوں کے ساتھ برابری کرتی ہے”۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13107