9

تیرویں رمضان کی دعا اور اس کی تشریح

  • News cod : 16204
  • 26 آوریل 2021 - 0:16
تیرویں رمضان کی دعا اور اس کی تشریح

تحریر : حجت الاسلام سید احمد رضوی اَللّهُمَّ طَہرْني فيہ مِنَ الدَّنسِ وَالْأقْذارِ وَصَبِّرْني فيہ عَلى كائِناتِ الْأَقدارِ وَوَفِّقْني فيہ لِلتُّقى وَصُحْبَة الْأبرارِ بِعَوْنِكَي […]

تحریر : حجت الاسلام سید احمد رضوی

اَللّهُمَّ طَہرْني فيہ مِنَ الدَّنسِ وَالْأقْذارِ وَصَبِّرْني فيہ عَلى كائِناتِ الْأَقدارِ وَوَفِّقْني فيہ لِلتُّقى وَصُحْبَة الْأبرارِ بِعَوْنِكَي اقُرَّة عَيْن الْمَساكينِ

اے معبود اس مہینے مجھے آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کر دے اور مجھے صبر دے ان چیزوں پر جو میرے لئے مقدر ہوئی ہیں، اور مجھے پرہیزگاری اور نیک لوگوں کی ہم نشینی کی توفیق دے، تیری مدد کے واسطے اے بےچاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک

اسلام میں تقوائے الٰہی کی الگ حیثیت اور جداگانہ  مقام  ہے۔ مقام  ہے۔جو شخص اس صفت کا حامل یعنی متقی ہو ، اس کی ایک ممتاز حیثیت ہوتی ہے۔ دین کی نظر میں تقویٰ کو انسان کی شرافت کا معیارقرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی کتب خصوصا نہج البلاغہ میں مختلف موضوعات کے ساتھ تقوی کا تذکرہ ملتا ہے۔ إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقاكُم

تقویٰ کی تعریف

تقوی کو عام طور پر ایک منفی عمل یا “امر عدمی” کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، جس میں پرہیز، اجتناب اور کنارہ کشی وغیرہ ہو ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تقوی کے ساتھ اجتماعی اور سماجی فعالیت نہیں کی جا سکتی، اور متقی انسان اپنے سماج کے کسی کام میں دخل نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس جو متقی نہ ہو اس کو سماجی اور معاشرتی کاموں میں کامیاب جانا جاتا ہے۔

لیکن یہ نظریہ اور طرز فکر سو فیصد غلط ہے۔ آیات و روایات کی روشنی میں تقوی نہ صرف یہ کہ منفی نہیں ہے ، بلکہ ایک مثبت اور ایجابی عمل ہے ۔ یہ نہ صرف نگہداری، پرہیز اور اجتناب کا نام نہیں، بلکہ ایک نفسانی قدرت اور قوت کا نام ہے جس کے بل بوتے پر انسان اپنی نفسانی خواہشات اور غیر شرعی کاموں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ثابت قدم رہتا ہے۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

اعْلَمُوا عِبَادَ اللَّهِ أَنَّ التَّقْوَى دَارُ حِصْنٍ عَزِيزٍ، وَ الْفُجُورَ دَارُ حِصْنٍ ذَلِيلٍ، لَا يَمْنَعُ أَهْلَهُ وَ لَا يُحْرِزُ مَنْ لَجَأَ إِلَيْهِ؛

اے اللہ کے بندو !جان لوکہ تقوی ایک ناقابل شکست قلعہ ہے اور گناہ قابل شکست حصار ہےجو اپنے اہل کونہیں بچاتا اور ان کی حفاظت نہیں کرتا ۔

تقوی قرآن کی نظر میں

قرآن مجید نے تقوی کو انسانی زندگی سنوارنے کے اصول سمیت مختلف عناوین سے یاد کیا ہے:

1۔ تقوی بہترین توشہ اور ذخیرہ آخرت ہے۔

قرآن: وَ تَزَوَّدوا فَاِنَّ خَیرَ الزّادِ التَّقوی‌

2۔تقوی اجر عظیم ہے۔

 لِلَّذينَ أَحسَنوا مِنهُم وَاتَّقَوا أَجرٌ عَظيمٌ

۳۔ متقی خائف اور ڈرپوک نہیں ہوتا۔

فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

۴۔ تقوی مغفرت الٰہی کا سبب بنتا ہے۔

وَ سارِعُوا إِلى‌ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّماواتُ وَ الْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ‌

۵۔ تقوی بہشت اور نعمت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَعِيمٍ

تقوی کے آثار و فوائد

تقوی کے بے شمار آثار و فوائد ہیں،جن میں سے کچھ ذکرکرتے ہیں:

1۔ تقوی تمام خیرات کا مجموعہ ہے۔

امام علی : علَيكُم بتَقوى اللّه ِ فإنّها تَجمَعُ الخيرَ و لا خيرَ غَيرُها

تقوی اختیار کرو کیونکہ تقوی میں تمام نیکیاں جمع ہیں اور کوئی نیکی اس کی برابری نہیں کرسکتی۔

۲۔ تقوی عبادتوں اور احکام الٰہی کا ہدف اور مقصد ہے۔

يا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ‌.

یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقُون

۳۔ تقوی دوسرے اعمال کی شرط قبولیت ہے

قرآن: قالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ المُتَّقينَ

۴۔ تقوی انسان کو صاحب بصیرت اور دانش بناتا ہے۔

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجعَل لَكُم فُرقانًا

وانتقوا اللہ و یعلمکم اللہ واللہ بکل شئی علیم

۵۔ تقوی دشمن پر غلبہ پانے کا باعث ہے۔

وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَه مَخرَجا وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا.

اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں متقی بننے اور تقوی کے آثار و فوائد سے بہرہ مند ہونے کی توفیق دے۔ آمین!

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=16204