8

کیا پانچ سال کا بچہ امام بن سکتا ہے؟/دوسری قسط

  • News cod : 17826
  • 25 می 2021 - 17:12
کیا پانچ سال کا بچہ امام بن سکتا ہے؟/دوسری قسط
کبھی کبھی بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ استعداد کے اعتبار اپنے زمانے کے نابغہ ہوتے ہیں جن کا فہم وادراک پچاس ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھا ہوتا ہے. ان ہی میں سے ایک ” بو علی سینا“ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بارہ سال کی عمر میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اورسولہ (۱۶) سال کی عمر میں طب کے موضوع پر ” القانون“ جیسی شہرہ آفاق کتاب کی تصنیف کی اور چوبیس (۲۴) سال کی عمر میں تمام علوم کے ماہر ہوگئے.

دروس مهدویت
کیا پانچ سال کا بچہ امام بن سکتا ہے؟

تحریر:حجت الاسلام ڈاکٹر محمود حسین حیدری مرحوم

دوسری قسط

ذیل میں چند بزرگ اہل سنت جید علماءکے بیان ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ابو العباس احمد بن یوسف دمشقی ، متوفی ۹۱۰۱ ھ لکھتے ہیں :الفصل الحادی عشر، فی ذکر خلف الصالح الامام ابی القاسم محمدبن حسن العسکری (ع) وکان عمرہ عند وفات ابیہ خمس سنین آتاہ اللّہ فیہا الحکمة کما اوتیہا یحی¸ٰ علیہ السلام۔
گیارہواں باب ، خلف صالح امام ابوالقاسم محمد ابن حسن عسکری (ع) کے بارے میں ہے آپ کی عمر والد کی وفات کے وقت پانچ سال تھی، لیکن خدا وند متعال نے اس کم عمری میں آپ کو حکمت [امامت] عطا کی جس طرح حضرت یحیٰؑ کو [نبوت] عطا کی تھی(۔اخبار الدول والآثارالاول، فصل الحادی عشر، ص ۱۴۱۔)
۲۔ جناب عبداللہ بسمل ” ارحج المطالب “ میں حضرت امام مہدی(ع) کے بارے میں لکھتے ہیں :
الامام المہدی ، اسمہ محمد، کنیتہ ابوالقاسم بقیة اللہ ، الحجة ، والمہدی ، والخلف الصالح وعمرہ عند وفات ابیہ خمس سنین آتاہ اللّہ فیہا الحکمة۔
امام مہدی(عج) کا نام محمد ، کنیت ابوالقاسم ، بقیة اللہ ، حجت خدا خلف صالح، قائم منتظر وصاحب الزمان یعنی زمانے کے امام ہیں اپنے والد کی وفات کے وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی لیکن اس کم سنی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت عطا کی ۔
ان علماءنے صریحاً آپ کو فرزند بلا فصل امام حسن عسکری (ع) اور پانچ سال کی عمر میں آپ کے منصب امامت پر فائز ہونے کا اقرار کیا ہے.
ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ کہیں ” آتاہ اللّہ فیہا الحکمة کما اوتیہا یحیٰ علیہ السلام۔“ کیا اس سے صریح اورواضح بیان ہوسکتا ہے ۔
نابغہ بچے :
کبھی کبھی بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ استعداد کے اعتبار اپنے زمانے کے نابغہ ہوتے ہیں جن کا فہم وادراک پچاس ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھا ہوتا ہے. ان ہی میں سے ایک ” بو علی سینا“ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بارہ سال کی عمر میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اورسولہ (۱۶) سال کی عمر میں طب کے موضوع پر ” القانون“ جیسی شہرہ آفاق کتاب کی تصنیف کی اور چوبیس (۲۴) سال کی عمر میں تمام علوم کے ماہر ہوگئے.
فاضل ہندی کے بارے میں بھی منقول ہے کہ تیرہ (۱۳) سال کی عمر سے پہلے انہوں نے تمام علوم منقول ومعقول کو مکمل کرلیا تھا اوربارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کتاب کی تصنیف میں مشغول ہوگئے تھے.
” ٹوماس سنیگ“ برطانیہ کے عظیم دانشور بچپنے ہی سے ایک عجوبہ تھے دو سال کی عمر میں پڑھنا جانتے تھے آٹھ سال کی عمر میں خود ہی سے ریاضیات کا مطالعہ شروع کیا۔ چودہ ۱۴ سال کی عمر تک وہ فرانس ، اطالوی ، عربی اورفارسی زبان کو اچھی طرح سیکھ گئے. بیس سال کی عمر میں نظریہ رویت پر ایک مقالہ لکھ کر دربار شاہی میں پیش کیا.
دور کیوں جائیں آپ ایران میں دیکھ لیں آپ کو درجنوں بچے ایسے ملیں گے جو پانچ سے چھے سال کی عمر میں قرآن مجید اورنہج البلاغہ کے نہ فقط حافظ کل ہیں بلکہ ترجمہ وتفسیر پر بھی عبور حاصل ہے. جن میں محمد حسین طباطبائی کا نام سرفہرست ہے جو پانچ سال کی عمر میں تمام قرآن اور پورے نہج البلاغہ کے حافظ ہوگئے تھے . اسی کمسنی میں وہ سوال کا جواب قرآن مجید سے دیتے تھے. وہ آیات قرآن صفحہ نمبر آیت نمبر اورترجمہ وتوضیح کے ساتھ سناتے تھے اورجس موضوع کے بارے میں قرآن مجیدسے سوال کریں وہ بیان کرتے تھے. انہوں نے ۵ سال کے سن میں دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں سے جن میں امریکہ ، فرانس ، برطانیہ ، مصر وغیرہ شامل ہیں ( پی ایچ ڈی) کی متعدداعزازی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں ۔
المختصر اگر آپ مشرق ومغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں ، یا مشرق ومغرب کی سیر کریں تو ایسے بہت سے نابغہ بچے ملیں گے .
قارئین محترم نابغہ بچے ایسے دماغ کے حامل ہوتے ہیں کہ کم عمر میں ہزاروں قسم کی چیزیں یاد کرلیتے ہیں اور علوم کی مشکلوں کو حل کرتے ہیں اوران کی محیّر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بہ دندان کردیتی ہے ۔
تو اگر خدا وند متعال حضرت حجت ، قائم آل محمد امام زمانہ حضرت مہدی(عج) جو ان انسانوں کی بقاءکے ضامن ہیں پانچ سال کی عمر میں منصب امامت وخلافت پر فائز کردے اور احکام الہیٰ کی حفاظت بقاءکی ذمہ داری انہیں سونپ دے تواس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ جب کہ پیغمبر اکرم وپیغمبران الہیٰ اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے بھی آپ کی کمسنی کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے ۔
لہذا نوعمری میں امامت کوئی فرضی چیز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی تائید خود قرآن کریم ، سنت رسول اور تاریخ وعقل نے کی ہے ۔ لہذا امام مہدی(ع) پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ آپ بچپنے میں اپنے والد کی جانشینی اور مسلمانوں کے امام وخلیفہ کیسے بن گئے ؟
جاری ہے.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=17826

ٹیگز