20

علامہ سید صفدر نجفیؒ طالبعلوں کے ساتھ ایک شفیق باپ کی طرح پیش آتے تھے،محسن ملت کی بیٹی کی وفاق ٹائمز سے گفتگو

  • News cod : 26077
  • 04 دسامبر 2021 - 11:33
علامہ سید صفدر نجفیؒ طالبعلوں کے ساتھ ایک شفیق باپ کی طرح پیش آتے تھے،محسن ملت کی بیٹی کی وفاق ٹائمز سے گفتگو
عالمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی نے وفاق ٹائمز سے گفتگو میں کہاکہ محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی طلاب کی مشکلات کو حل کرنےکی کوشش کرتے تھے اور اس کے علاوہ بھی دیگر فیملیز اور دیگر مستحقین کی حتی المقدور مالی معاونت اس انداز میں کرتے تھے کہ حتی فیلمی کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کئی افراد کی شادیاں کروائیں اور کئی بچیوں کو اپنے گھر سے مختصر سامان دے کر ان کو رخصت کیا اور اسی طرح سے آپ کی رحلت کے بعد بہت سارے لوگوں نے آکر بتایا کہ ہماری ماہانہ بنیاد پر مدد کرتے تھے اور آج ہم ایسے محسوس کرتے ہے کہ جیسے ہمارے سر سے سایہ اٹھ گیا ہے۔

عالمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی، علامہ سید صفدر حسین نجفی کی بڑی بیٹی ہیں۔انہوں نے 1981 میں حوزہ علمیہ قم سے اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ انہوں نے مکتب زہراء دفتر تبلیغات اسلامی اورپھر 1985 میں جب جامعۃ الزہراء (سلام اللہ علیہا) تشکیل پایا تو ان مدارس کے ساتھ منسلک رہی اور اپنی تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور اخلاق و تربیت اسلامی میں ماسٹرز کیا اور 1986 سے لیکر ابھی تک 35 سال سے اپنے حصول علم کے ساتھ ساتھ تبلیغی اور تدریسی خدمات انجام دینے کی پروردگار عالم نے توفیق دی اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور ان کو دنیا کے بہت سارے ممالک میں دینی سرگرمیوں کو انجام دینے کی سعادت حاصل ہے۔ اور اس وقت ”وفاق ٹائمز” نے محسن ملت کی بڑی بیٹی سے محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی اعلیٰ اللہ مقامہ کی 32 ویں برسی کی مناسبت سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی نذر ہے۔

عالمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی نے کہاکہ محسن ملت سادگی اور خلوص کا پیکر تھے اور ساری زندگی ان اصولوں پر زندگی بسر کی جہاں دسیوں دینی تعلیم کا سنگ بنیاد رکھا۔ دسیوں کتابوں کو تحریر، تالیف اور ترجمہ کیا؛ لیکن ان کے مالی حقوق کے حوالے سے کھبی بھی یہ نہیں کہا کہ یہ میری میراث ہے اسکی مالی منفعت ان کو یا ان کی اولاد کو ملے اور وہ اس چیز سے بہت زیادہ دور تھے اور یقیناً جتنی بھی خدمات تھیں وہ قربۃً الی اللہ اللہ کے تقرب کی خاطر انجام دی اور ایسا نہیں ہے کہ اگر یہ مدارس میں نے بنائے ہیں، تو میرے بعد میری اولاد ان کی وارث ہوگی، نہیں؛ بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر بنایا اور مدنظر صرف خدمت دین رہی۔ الحمد للہ رب العالمین۔عبادات، دعائیں و غیرہ پڑھنے کا معمول تو ہمیشہ دیکھا لیکن میری یادداشت کے مطابق رمضان میں سحری کے وقت دعائے ابو حمزہ ثمالی کی تلاوت ضرور کرتے تھے۔جتنا بھی ان سے ہو پاتا طلاب کی مشکلات کو حل کرنےکی کوشش کرتے تھے اور اس کے علاوہ بھی دیگر فیملیز اور دیگر مستحقین کی حتی المقدور مالی معاونت اس انداز میں کرتے تھے کہ حتی فیلمی کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کئی افراد کی شادیاں کروائیں اور کئی بچیوں کو اپنے گھر سے مختصر سامان دے کر ان کو رخصت کیا اور اسی طرح سے آپ کی رحلت کے بعد بہت سارے لوگوں نے آکر بتایا کہ ہماری ماہانہ بنیاد پر مدد کرتے تھے اور آج ہم ایسے محسوس کرتے ہے کہ جیسے ہمارے سر سے سایہ اٹھ گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کے حوالے سے تو ظاہر ہے جتنی خدمات انہوں نے انجام دی ہمیشہ ہم نے انہیں لکھتے ہوئے پایا اگر کوئی مہمان آجاتا تھا، تو قلم روک دیتے تھے اور جیسے ہی وہ اٹھ کر جاتے تھے تو دوبارہ لکھنا شروع کر دیتے تھے۔ لہذا ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا عرصہ حتی سفر میں سادہ ترین سامان سفر جس میں 2 جوڑے کپڑوں کے اور قلم کاغذ اور کتاب ان کی بیگ میں ہوتی تھی۔ جب قم میں ہم لوگ شفٹ ہوئے تو چند مہینے ایک مکان کرائے پر لے کر رہے اور اس دوران میں ظاہر ہے ہمارا لاہور کا مکان فروخت کر دیا گیا طے پایا یہاں پر گھر خریدا جائے تو گھر خریدنے کے مرحلے میں کئی مکانات دیکھے لیکن والد گرامی کی خواہش تھی کہ ایسا گھر ہو جہاں مجالس کا سلسلہ ہوسکے اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا ذکر ممکن ہو، تو لہذا ان کی خواہش کے مطابق یہ گھر جو کہ آج بھی موجود ہے تقریبا 40 سال ہو گئے ہیں ان کی خواہش کے مطابق آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور ہر سال امام حسن مجتبیٰ ع کی ولادت با سعادت پر ایک بہت بڑی دعوتِ افطار کا اہتمام کرتے تھے جس میں دعوت عام ہوتی تھی یعنی تمام طلاب اس میں آسکتے تھے۔

عالمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی کہاکہ قبلہ کی نجف اشرف کی زندگی کے بارے میں جو سوال کیا گیا ہے ظاہر ہے کہ اس وقت میری پیدائش نہیں ہوئی تھی اور اس حوالے سے براہ راست تو معلومات نہیں ہیں، لیکن جو والد گرامی بیان فرماتے تھے یا دوسرے لوگوں سے جو ہم تک پہنچی وہ یہی ہے کہ نہایت سادگی کا دور تھا۔ بہت کم سہولیات کے ساتھ حصول علم کے لئے کوشاں رہے اور کم ترین وقت میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش تھی؛ کیونکہ مقصد صرف صرف وہاں پر حصول علم اور اپنا تربیت اور تزکیہ نفس تھا اور اس کے اثرات ہم نے ساری زندگی آپ کی زندگی میں دیکھے۔ بعض اوقات اگر کھبی کوئی شکوہ یا شکایت لب پر آتا تھا تو جب آپ اپنے واقعات سناتے تھے کہ نجف میں حصول علم کے درمیان مشکلات جو پیش آتی تھیں، تو ان واقعات کو سن کے بہت زیادہ ہمت بنتی تھی اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ ہم تو بے پناہ آسائشوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور حقیقی علمائے کرام جنہوں نے بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں انہوں نے کتنی مشکل حالات میں اور کتنی کٹھن حالات میں ان علوم کو حاصل کیا ہے؛ تو انشاءاللہ مشعل راہ رہیں گی یہ تمام تر باتیں ہم سب کیلئے۔

انہوں نے کہاکہ چونکہ والد محترم یہ چاہتے تھے ان کے بچے ایک دینی ماحول میں پرورش پائیں اور ان کی خواہش تھی کہ تمام بچے تعلیمات محمد و آل محمد علیھم السلام کے حصول کے لئے آگے بڑھیں لہذا 1981 میں ہم بہن بھائیوں کو والدہ کے ہمراہ حوزہ علمیہ قم میں شفٹ کر دیا گیا اور ہم لوگ اپنے والدہ کے ساتھ وہاں پر (قم میں) رہتے تھے جبکہ خود والد صاحب پاکستان میں رہتے تھے دینی خدمات انجام دینے کے لئے اور البتہ قم میں سال کا کچھ حصہ معمولا ماہ مبارک رمضان یا ایام تعطیلات میں تشریف لاتے تھے تو ہمیشہ ان کا معمول تھا، روٹین تھی کہ ہر روز مغربین سے کچھ گھنٹے قبل حرم بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا میں حاضری دیتے، دعائیں، مناجات، زیارت کرنے کے بعد نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد گھر تشریف لاتے اور ہمیشہ جب بھی وہ قم میں آتے تھے، یہی معمول دیکھا۔ البتہ آخری سفر جو ان کی رحلت سے قبل تھا جو کہ خرابی صحت کی بنا پر شام میں حرم نہیں جا پاتے، پھر بھی ہر روز فجر کے بعد سہارے کے ساتھ حرم میں ضرور حاضری دینے کی کوشش کرتے تھے۔ گھر کا یہ ماحول تھا کہ ہمیشہ مہمانوں کی آمدورفت اور طالبعلموں کا آنا جانا معمول کی بات تھی اور اس کے لئے کوئی وقت معین نہیں تھا کوئی آنا چاہے تو آج کی بہت سی شخصیات کی طرح کوئی پروٹوکول نہیں تھا بلکہ جو بھی آنا چاہے، آنا چاہتا تھا ہمیشہ گھر کا دروازہ کھلا ہوتا تھا اور خاص اہتمام تھا طلاب خاص طور پہ ان کی خاطر تواضع کرنے کاہمیشہ ہم نے اپنے گھر میں دیکھا تاکید تھی کہ جو بھی آئے، ان کے سامنے بہترین کھانا یا پھل فروٹ پیش کیئے جائیں تاکہ اس بہانے اکثر وہ طلاب جو افورڈ نہیں کر سکتے تھے جن کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا اور ان کی کئی ضروریات کو ہم نے دیکھا کہ خاموشی سے یا خود پورا کرتے یا پورا کروانے کی کوشش کرتے اور ہمیشہ تاکید یہی تھی کہ طالبعلموں کو اچھا پڑھنے، بہتر انداز میں اپنا وقت صرف کرنے کی تاکید کرتے تھے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے اور یہ کہ یہاں پر محنت کرو اور علم حاصل کرو۔ بے پناہ شفقت کے ساتھ نیکی کی سادگی کی تعلیم دیتے تھے اور یقینامیں کہوں گی کہ یہ نیکی کی ہدایت، تعلیم زبان کے ساتھ نہیں بلکہ انہوں نے اپنے عمل کے ساتھ دی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=26077