8

امام علیؑ کی سیرت تمام عالم انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے، علامہ سید ظفر شاہ نقوی کی وفاق ٹائمز سے گفتگو

  • News cod : 29748
  • 18 فوریه 2022 - 12:37
امام علیؑ کی سیرت تمام عالم انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے، علامہ سید ظفر شاہ نقوی کی وفاق ٹائمز سے گفتگو
علامہ سید ظفر علی شاہ نے وفاق ٹائمز سے گفتگو میں کہاکہ مولا علی ؑ کی ایک خصوصیت جو نہ کسی نبی میں تھی اور نہ کسی ائمہ میں، وہ ہے حضرت علی ؑ کا خانۂ کعبہ میں پیدا ہونا، یہ صفت موضوعیت رکھتی ہے اور یہ بہت ہی اہم خصوصیت ہے جو اللہ نے آپ علیہ السلام کو عطا کیا۔

علامہ سید ظفر علی شاہ کا تعلق پشاور سے ہے آپ نے دینی تعلیم کی ابتداء جامعہ العسکریہ ہنگو سے کی اور اب حوزہ علمیہ قم ایران میں مشغول ہیں اور اس وقت جامعۃ المصطفی میں طلباء کے نمائندے اور قم میں دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان کے سربراہ اور جامعۃ المصطفی سمیت حوزہ علمیہ میں تدریس کر رہے ہیں اور آپ کئی کتابوں کے مترجم بھی ہیں۔

وفاق ٹائمز نے ان سے گفتگو کی ہے جسے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

ائمہ ؑ دو قسم کی خصوصیات کے حامل ہیں

حضرت علی علیہ السلام کو ممتاز بنانے والی خصوصیت اور امتیازات کی جانب اشارہ کرنے سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کروں کہ ائمہ ؑ دو قسم کی خصوصیات کے حامل ہیں یا کسبی یا وہبی، مثال کے طور پر خوبصورتی کو دیکھ لیں ایک بندہ خوبصورت ہے تو اس میں کسی کا دخل نہیں، لیکن ایک بندہ ڈاکٹر بن جاتا ہے تو اس میں اس کی ہمت اور کوشش شامل ہوتی ہے۔ مولا امیر المومنین ؑ کے حوالے سے اتنا عرض کروں گا جس طرح پیغمبر اکرم ؐ کی خصوصیات تھیں جیسے آپ کا سایہ نہیں ہوتا اور پسینے سے خوشبو آتی تھی مولا علی ؑ کی ایک خصوصیت جو نہ کسی نبی میں تھی اور نہ کسی ائمہ میں، وہ ہے حضرت علی ؑ کا خانۂ کعبہ میں پیدا ہونا، یہ صفت موضوعیت رکھتی ہے اور یہ بہت ہی اہم خصوصیت ہے جو اللہ نے آپ علیہ السلام کو عطا کیا، کچھ لوگوں کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے، اولا یہ روایت مولا علی علیہ السلام کی فضیلت کو کم کرنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ ثانیاً یہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو وہ حرم کے اِردگرد پیدا ہوئے ہوں گے لیکن خانۂ خدا کے اندر پیدا نہیں ہوئے، ثالثا، جس طرح مولا علی ؑ کی ولادت ہوئی مثلاً دیوار کعبہ شق ہوئی ہو، ماں اندر گئی ہو اس طرح کسی کی ولادت نہیں ہوئی ہے، چوتھی بات یہ ہے کہ چلو یہ بھی تسلیم کر لیں تو کیا وہ خانۂ خدا کے اندر مر گئے تھے؟یہ امتیاز کہ بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت؛ آج تک کسی کو نہیں ملا ہے۔

واحد علی ؑ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ میں وحی کی آواز سنتا ہوں

مولا امیر ؑ کی دیگر کسبی خصوصیات کہ پیغمبر اپنی گود میں لیتے ہیں اور یہیں سے تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے یعنی، قطع نظر ساری چیزوں سے علی ؑ ابتدا سے ہی پیغمبر اکرم ؐ سے سیکھنا شروع کرتے ہیں، حتی جس وقت وحی نازل ہوتی ہے تو واحد علی ؑ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ میں وحی کی آواز سنتا ہوں، میں فرشتہ کی آواز سنتا ہوں اور شیطان کے رونے کی آواز سنتا ہوں یعنی جو پیغمبر سن رہے ہوتے وہی علی ؑ بھی سنتے۔ حضرت علی ؑ نے اپنے آپ کو اتنا کمال تک پہنچایا۔ ایک کتاب ہے “ولایت علی در قرآن و سنت” ہم نے اس کا ترجمہ بھی کیا ہے اس کے اندر ایک الگ سا موضوع ہے کہ کیسے تعلیم و تعلم کا سلسلہ تھا، حتی روایتوں میں آیا ہے کہ جب بھی وحی نازل ہوتی تو آنحضرت حضرت علی ؑ کو بلاکر پوری تفصیل لکھواتے تھے اور مکمل تفسیر و تشریح کے ساتھ لکھواتے تھے پھر یہاں پر حضرت زید سے روایت ہے کہ جب بھی حضرت علی علیہ السلام کی غیر موجودگی میں وحی نازل ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پہلی فرصت میں حضرت علی کو بلا کر سب لکھواتے تھے۔تو مطلب یہ ہے کہ حضرت علی ؑ نے اپنے آپ کو اس درجے پر پہنچایا کہ پیغمبر اکرم ؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اگر شہر کا علم ہوں تو علی اس کا دروازہ ہے۔

وہ امام ہو ہی نہیں سکتا جس میں عدالت نہ ہو

مولا منصب الٰہی پر فائز ہیں اور عدالت کا معنی، کسی چیز کو اس کے مقام پر رکھنا، یا جس کا حق ہے اس کو عطا کرنا، مولا علی ؑ بصیرت بھی رکھتے ہیں، حقوق کا خیال رکھتے ہیں، حق کو حقدار تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ امام ہو ہی نہیں سکتا جس میں عدالت نہ ہو۔یہاں تک کہ علی ؑ کی عدالت کے بارے میں ملتا ہے کہ اگر وہ کسی پر وار بھی کرتے تھے تو اس میں بھی عدالت ملحوظ نظر ہوتی تھی، مثلاً کسی جنگ میں کیسے پتہ چلتا تھا کہ مولا نے کتنے بندوں کو مارا؟ اصل میں مولا ؑ کی ہر وار ہر جنگ میں منفرد ہوتی تھی ، “ضربت علی ابکارا” مولا علی ؑ کی ایک خصوصیت عدالت تھی اور ان کی وار عدالت پر ہوتی تھی، اگر کسی بندے کو مکمل طور پر مساوی ٹکڑے کردیا ہے تو سمجھ جاتے تھے کہ اس سے علی ؑ نے مارا ہے، اس کے علاوہ مشہور واقعہ ہے کہ آپ علیہ السلام کے بھائی عقیل آتے ہیں، عقیل کون؟ جس پر علی ؑ کو سب سے زیادہ اعتماد ہے۔ جناب زہرا ؑ کے بعد شادی کے لئے عقیل سے مشورہ کرتے ہیں، جب وہی بااعتماد بھائی آکر گزارش کرتے ہیں تو اس وقت علی ؑ لوگوں کو عدالت کا معیار بتاتے ہیں، یہ عدالت ہے۔اس کے علاوہ طلحہ و زبیر کا مشہور واقعہ ، زبیر کوئی معمولی شخصیت تھوڑی ہے ؟زبیر وہ تنہا شخص ہے جب سیدہ کے گھر پر حملہ ہوا تو واحد زبیر تھے جنہوں نے دفاع کیا اور حضرت علی ؑ سے بی بی ؑ نے عرض کیا تھا کہ مولا اگر آپ میری وصیتوں پر عمل نہیں کرسکتے تو میں زبیر کو حکم دیتی ہوں۔ وہ بندہ جب علی کو خلافت ملتی ہے تو یہ توقع لیکر آتا ہے کہ ہم نے مشکلات میں ان کے ساتھ دیا ہے شاید اب ہمیں کچھ ملے۔اس وقت علی ؑ چراغ گل کرکے بتاتے ہیں کہ یہ مال امام ؑ ہے، امام علی ؑ پرانا لباس زیب تن کرتے ہیں کیوں؟ تاکہ امت محسوس نہ کرے اور کسی کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے۔

رسول اللہ نے مجھے ایسے علم سیکھا جیسے پرندہ بچے کو دانہ کھلاتا ہے

پیغمبر اکرم ؐ ایک عظیم شخصیت ہیں، ایک بہترین مدیر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تبارک نے قیامت تک اس مکتب کو باقی و ساری رکھنا ہے لہذا پیغمبر اکرم ؐ نے شروع سے ہی اپنے بعد کی پلاننگ تیار کی، اسی لئے حضرت علی ؑ کی تربیت فرمائیں۔ معاشرہ، مکتب اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور دوسرے کاموں میں حضرت علی ؑ کی ایسی تربیت کی اور نہ فقط تربیت کی بلکہ مقام عمل میں بھی ان کی تربیت کی، جیسے اپنے بعد ایک بہترین شخص تیار ہو، مثلاً نبی اکرم نے زبان چوسایا، یہ سب تربیت کے لئے تھا، ابھی مقام عمل میں نہیں ہیں، جیسے کہ نہج البلاغۃ میں مولا امیر المومنین ؑ کا فرمان ہے: رسول اللہ نے مجھے ایسے علم سیکھا جیسے پرندہ بچے کو دانہ کھلاتا ہے۔
دعوت ذوالعشیرہ میں حضرت علی ؑ کی عمر دس یا بارہ سال ہے ، نوجوان ہیں اس وقت بھی انتظامات حضرت علی کے حوالے کرتے ہیں، یہ کیوں؟ کیونکہ علی نے رسول کے بعد دین کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ہے، اسی طرح یمن بھیجا، علم کے میدان میں بھیجا ، سورہ توبہ کا واقعہ، سورہ ممتحنہ کا واقعہ اور خبیر کا واقعہ، ان سب میدانوں میں علی ؑ کو آزمایا اور جب ہر حوالے سے تجربہ کار ہوئے تو غدیر خم میں اعلان کیا، کیونکہ لوگ دیکھ چکے تھے کہ علی علیہ السلام اسلام ، نظام اور امور کو بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں۔

ہمیں علی ؑ کا شیعہ بنتا چاہئے اور حضرت علی ؑ کی اقتداء کرنی چاہئے

ہم حضرت علی ؑ کے شیعہ ہیں یا نہیں؟ شیعہ ہونے اور محب ہونے میں بہت فرق ہے، اگر ہم امام مانتے ہیں تو امام وہ ہوتا ہے جس کی اقتدا کی جائے، اگر ہم کہتے ہیں کہ علی ؑ کے شیعہ ہیں تو ہماری انفرادی، اجتماعی، ازدواجی، سماجی اور سیاسی زندگیوں میں حضرت علی ؑ ہوں اور ہر اس چیز کو لے لیں جو امیر المومنین ؑ نے دی ہے، تب ہم علی ؑ کے شیعہ کہلوائیں گے۔میری تمام شیعیان سے گزارش یہ ہے کہ ہمیں علی ؑ کا شیعہ بنتا چاہئے اور حضرت علی ؑ کی اقتداء کرنی چاہئے۔

آخر میں، وفاق ٹائمز کا شکریہ ادا کروں گا کہ یہ ادارہ علماء کی زیرنگرانی بہت اچھا کام کررہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وفاق ٹائمز اور اس کی ٹیم کو دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے اور دنیا اور آخرت میں سرفرازی عطا فرمائے۔ آمین

انٹرویو: احمد علی جواہری

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=29748