6

حکیم الامت کے محضر میں

  • News cod : 3044
  • 28 اکتبر 2020 - 17:21
حکیم الامت کے محضر میں
حوزه ٹائمز | مردِ حق کے لئے توحید سے خالی دنیا اس بت کدے کی مانند ہے، جس میں مختلف انواع و اقسام کے بے جان پتھر رکھ دیے گئے ہوں

صنم کدہ ہے جہاں، اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے — کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے
صنم کدہ: بت خانہ

خلیل: حضرت ابراہیم (علیہ السلام)۔
تاریخِ انبیاء (علیہم السلام) میں رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے بعد، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، جب آپ اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے، تو آپ نے عقل ومنطق، دلیل و برہان، اور نظر و استدلال سے اپنی قوم کو سمجھانے کی ہر کوشش کی، لیکن جب وحیِّ ربانی کی شرینی، آپ کے حُسنِ اسلوب، لہجے کی مٹھاس، اور استدلال کی قوت سے بھرے بیان نے، ان عقل کے اندھوں پر کوئی اثر نہ کیا، تو اپنے انتہائی جرأت سے اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہا: 《اور اللہ کی قسم، جب تم (یہاں سے) پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے، تو میں تمہارے (ان) بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا》[سورہ الانبیاء: آیت 57]، گھمنڈ، تکبر، غرور، نخوت، اور طاقت کے نشے میں مست آپ کی قوم نے اس دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دی۔
لہذا خلیل اللہ کو شہر میں چھوڑ کر وہ اپنا دینی تہوار منانے شہر سے باہر چلے گئے، ان کے جانے کے بعد، آپ نے کلہاڑی اٹھائی، بت خانے کا رخ کیا، اور ربِ قہار کا نام لیکر ایک کے سوا سارے بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا، جس کے بعد بت خانہ ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا، ہر طرف پتھر اور لکھڑی سے تراشے ہوئے بتوں کے ٹکڑے، ان بے جان خداؤوں کی ناتوانی، بیکسی، عاجزی، اور بیچارگی کا ماتم کر رہے تھے، آپ سوچیں، کہ اس گمراہ قوم نے جب بت خانے کا یہ منظر دیکھا ہوگا، تو ان پر کیا گزری ہوگی، اپنے بے جان خداؤوں کی بیچارگی دیکھ کر، انہوں نے کس قدر رسوائی، ذلت اور خواری کا سامنا کیا ہوگا، ان میں سے کسی کے دل میں یہ تو ضرور آیا ہوگا، کہ یہ کیسے کمزور خدا ہیں، جو اپنا دفاع بھی نہ کرسکے؟! یہ ہماری خاک حفاظت کریں گے!! یہ جب اپنے سروں سے بلا نہ ٹال سکے، تو ہماری بلائیں کیا خاک ٹالیں گے۔
خلیل اللہ نے اپنے اس دانشمندی سے ان کے ضمیروں کو خوب جھنجھوڑا، انہیں سوچ و بچار کا ایک بہترین موقع دیا، اور وہ دل جن پر غرور و تکبر، اور گمراہی و ضلالت کے تالے لگے ہوئے تھے، انہیں حکمت و دانشمندی کی کنجیوں سے کھولنے کی خوب کوشش کی۔
لیکن یہ سچ ہے، کہ جب انسان ضد اور عناد پر اتر آئے، تو پھر اسے معجزہ جادو، نجات دینے والا گمراہ اور جادو گر، اور حق مذاق لگتا ہے، اور اسی طرح سے، خسر الدنیا و الآخرة کا مصداق بن جاتا ہے۔ بہر حال اس جرأت مندانہ اقدام کی بدولت جناب ابراہیم (علیہ السلام) تاریخ کے پہلے بت شکن کہلائے، اور یہ سعادت بھی صرف آپ ہی کو نصیب ہوئی، کہ آپ ہی کی نسلِ مبارک میں دنیا والوں نے فاتحِ خیبر (علیہ السلام) جیسے بت شکن بھی دیکھے، جنہوں نے دوش نبی( صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) پر سوار ہو کے، کعبے میں سارے بت توڑ کر آپ کی یاد تازہ کردی۔
چونکہ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرتِ مبارکہ ہر دور میں امتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ ہے، آپ کی اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، شاعرِ مشرق نے آپ کو اپنے کلام میں خصوصی جگہ دی، اور آپ کی سیرتِ مقدسہ کے بارے وہ لا زوال شعر کہے، کہ جن کی مثال تاریخِ ادب میں نہیں ملتی، ان میں سے ہر شعر دلوں میں عجیب ولولہ، سینوں میں نئے سرے سے اولو العزمی، اور ہر مسلمان کو میدانِ عمل میں کھڑے ہو کر خدا کی راہ میں خلوص نیت کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اسی شعر کو ملاحظہ کریں، اسلوبِ بیاں کی دلآویزی، جاذبیت، اور کشش کو دیکھیے، کس لطیف پیرائے میں علامہ صاحب نے دنیا کو بت کدے، اور مردِ حق کو خلیل اللہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے، البتہ یہ ہرگز نہ سمجھیے گا، کہ وہ کسی بھی مردِ مومن کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا رہے ہیں، ہرگز نہیں، بلکہ اس تشبیہ کا مقصد یہ ہے، کہ جو بھی اپنی زندگی کے لئے خلیل اللہ کی سیرت سے روشنی لے گا، وہ اس دنیا، اس کے مقام و مرتبے، جاہ و جلال، شان و شوکت اور مال و دولت کو کوئی اہمیت نہیں دے گا، مگر یہ کے ان چیزوں کا ہدف دینِ حنیف، اور بندگانِ خدا کی خدمت ہو۔
مردِ حق کے لئے توحید سے خالی دنیا اس بت کدے کی مانند ہے، جس میں مختلف انواع و اقسام کے بے جان پتھر رکھ دیے گئے ہوں، لہذا وہ ایسی دنیا اسی نظر سے دیکھے گا، جس نظر سے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے شہر کے بت خانے کو دیکھا تھا۔ علامہ صاحب کہتے ہیں کہ یہی وہ راز ہے، جو لا الہ الا اللہ میں پوشیدہ ہے، یعنی کلمہءِ توحید کا مطلب ہر خدا کی نفی، اور ہر بت کو توڑنا ہے، چاہے وہ شہرت کا بت ہو، فانی دنیا کے حصول کا بت ہو، غرور و تکبر کا بت ہو، یا دنیاوی جاہ و منصب کا بت ہو۔ گویا دوسرے لفظوں میں علامہ صاحب یوں کہنا چاہتے ہیں، کہ اپنے دل سے ان سارے بتوں کو نکال دو، تاکہ تیرا دل لا الہ الا اللہ  کے نور کو حقیقی معنوں میں محسوس کر سکے۔

تحریر: محمد اشفاق

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=3044