7

غیبت امام مہدی ع قسط (40)

  • News cod : 32194
  • 28 مارس 2022 - 11:42
غیبت امام مہدی ع قسط (40)
ہر سال ایک نیا فتنہ اور نئی بدعت پیدا ہوجائے، (توجب تم یہ دیکھ لو کہ لوگوں کے حالات اس طرح کے ہوگئے ہیں تو) خود کو محفوظ رکھنا اور اس خطرناک ماحول سے نجات کے لئے خدا کی پناہ طلب کرنا( کیونکہ ایسے حالات میں ظہور کا زمانہ نزدیک ہوگا۔)'' کافی،ج٧،ص٢٨.

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

دنیا ظہور کے وقت:
ہم نے گزشتہ بحثوں میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت اور اس کے فلسفہ کے بارے میں گفتگو کی ہے کہ اللہ تعالی کی آخری حجت غائب ہوئی تاکہ ان کے ظہور کا راستہ ہموارہو تو وہ ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو براہ راست اپنی ہدایت کے نور سے فیضیاب فرمائیں گے ۔
اگرچہ غیبت کے زمانہ میں بشریت اس طرح عمل کرسکتی تھی کہ جس سے امام عليہ السلام کے ظہور کا راستہ جلد از جلد ہموارہوجائے۔ لیکن شیطان اور ہوائے نفس کی پیروی اور قرآن کی صحیح تربیت سے دور رہنے، نیز معصومین عليھم السلام کی ولایت اور رہبری قبول نہ کرنے کی وجہ سے انسانیت غلط راستہ پر چل پڑی ہے اور ہر روز دنیا میں ظلم و ستم کی نئی بنیاد رکھی اور دنیا بھر میں ظلم و ستم کے سائے پھیلا دئیے۔
بشریت اس راستہ کے انتخاب کی وجہ سے سے ایک بہت بْرے انجام کو جاپہنچی ہے۔
آج کی دنیا ظلم و جور اور فساد و تباہی سے پرہے.
آج کا دور اخلاقی اور نفسیاتی امن و امان سے اور زندگی معنویت اور پاکیزگی سے خالی ہے اور معاشرہ ظلم و ستم سے لبریزہے کہ جس میں ماتحت لوگوں کے حقوق پامال ہیں.
یہ سب کچھ چیزیں غیبت کے زمانہ میں انسان کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں صدیوں پہلے معصومین عليھم السلام نے پیشین گوئی فرمائی تھی اور اس زمانہ کی سیاہ تصویر پیش کی تھی۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
”جب تم دیکھو کہ ظلم و ستم عام ہورہا ہے، قرآن کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور اس کی تفسیرہوا و ہوس کی بنا پرکی جارہی ہے، اہل باطل ، حق پرستوں پر سبقت لے گئے ہیں.
ایماندار افراد خاموش ہیں، رشتہ داریاں ختم ہوگئی ہیں، چاپلوسی بڑھ گئی ہے، نیکیوں کا راستہ راہروں سے خالی ہے اور برائیوں کے راستہ پر بھیڑ دکھائی دے رہی ہے.
حلال کو حرام قرار دیا گیا ہے اور حرام کو حلال شمار کیا جا رہا ہے، بہت سا مال و دولت خدا کے غیظ و غضب (گناہوں اور برائیوں) کے راستے میں خرچ کیا جارہا ہے.
حکومتی اہلکاروں میں رشوت کا بازار گرم ہے، بیہودہ کھیل اس قدر رائج ہوچکے ہوں کہ کوئی ان کی روک تھام کی جرائت نہیں رکھتا .
قرآنی حقائق سننا لوگوں پرگراں گزرتا ہے لیکن باطل اور فضول باتیں سننا ان کے لئے آسان ہے .
وہ غیر خدا کے لئے خانہ خدا کا حج کرتے ہیں، جب لوگ سنگدل ہوجائیں اور احساسات و عواطف کا جنازہ اٹھ جائے، اگر کوئی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرے تو لوگ اس کویہ نصیحت کریں کہ یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ہے.
ہر سال ایک نیا فتنہ اور نئی بدعت پیدا ہوجائے، (توجب تم یہ دیکھ لو کہ لوگوں کے حالات اس طرح کے ہوگئے ہیں تو) خود کو محفوظ رکھنا اور اس خطرناک ماحول سے نجات کے لئے خدا کی پناہ طلب کرنا( کیونکہ ایسے حالات میں ظہور کا زمانہ نزدیک ہوگا۔)” کافی،ج٧،ص٢٨.
البتہ ظہور سے پہلے کی یہ سیاہ تصویر لوگوں کی اکثریت کے چہروں کی عکاسی کرتی ہے .
وگرنہ خود اس زمانہ میں بھی بعض مومنین ایسے ہوں گے جو خدا سے کئے ہوئے اپنے عہد و پیمان پر باقی رہیں گے اور اپنے دینی عقائد کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔
وہ فاسد ماحول کے رنگ میں نہیں رنگے جائیں گے اور اپنی زندگی کا انجام دوسرے لوگوں کے برے انجام سے متصل نہیں کریں گے.
یہ افراد اللہ تعالی کے بہترین بندے اور آئمہ عليھم السلام کے سچے شیعہ ہوں گے جن کے بارے میں روایات میں مدح و تعریف واردہوئی ہے، یہ لوگ خود بھی نیک و پاکیزہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی نیکی و پاکیزگی کی دعوت دیتے ہوں گے، کیونکہ وہ اس بات میں بہتری سمجھتے ہیں کہ نیکیوں اور خوبیوں کو رائج کرنے اور ایمان کے عطر سے ماحول کو خوشگوار بنانے سے نیکیوں کے امام کا ظہور جلد ہوسکتا ہے اور ان کی حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ برائیوں کا مقابلہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب مصلح موعود کے ناصر و مددگار موجود ہوں۔
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا:
پيغمبراکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ايک لمبي حديث جوکہ ان کي وصيت بھي ہے٬ ميں فرمايا:
“ياعلي واعلم ان اعجب الناس ايمانا٬ اعظمھم يقيناً قوماً يکون في آخر الزمان لم يلحقوا النبي وحجب عنھم الحجۃ فآمنوا بسواد علي بياض”
کمال الدين ج۱/ب۲۵/ح۸.
اے علي جان لو کہ ايمان کے لحاظ سے عجيب ترين اور يقين کے لحاظ سے عظيم ترين وہ لوگ ہيں جو آخري زمانے ميں ہوں گے انہوں نے پيغمبر کو نہيں ديکھا اور امام بھي ان کي نظروں سے اوجھل ہيں ليکن وہ ايسي سياہي پر جس نے روشني کو گھيرا ہوا ہے ايمان رکھتے ہيں۔
ہمارا پیش کردہ یہ نظریہ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے جس میں برائیوں کا پھیلانا جلدی ظہور کا سبب قرار دیا گیا ہے، کیا واقعاً یہ بات قابل قبول ہے کہ مومنین برائیوں کے مقابلہ میں خاموشی اختیار کریں تاکہ معاشرے میں برائیاں پھلتی رہیں اور اس طرح امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور کا راستہ فراہم کیا جائے؟
کیا نیکیوں اور فضائل کا رائج کرنا امام عليہ السلام کے ظہور میں تعجیل(جلدی) کا سبب نہیں قرار پائے گا؟
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا فرض ہے جو ہر مسلمان پر یقینی طور پر واجب ہے جس کو کسی بھی زمانہ میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور میں تعجیل کیلئے برائیوں اور ظلم و ستم کی ترویج کس طرح کی جا سکتی ہے؟
جیسا کہ پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اس (مسلمان) امت کے آخری زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی جن کا اجر و ثواب صدر اسلام کے مسلمانوں کے برابر ہوگا، وہ لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دیں گے اور فتنہ و فساد اور برائیوں کا مقابلہ کریں گے”۔
معجم احادیث الامام المہدی،ج١،ص٤٩.
اس کے علاوہ متعدد روایات میں جس بات کی تصریح کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا ظلم و ستم سے بھرجائے گی اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان ظالم بن جائیں گے بلکہ خداکے راستہ پر چلنے والے بھی موجود ہوں گے اورہر ماحول میں اخلاقی فضائل کی خوشبوبھی دلوں کو معطر کرتی نظر آئے گی۔
بناء بر ایں، ظہور سے قبل کا زمانہ اگرچہ ایک تلخ زمانہ ہوگا لیکن ظہور کے شیریں زمانہ پر ختم ہوگااور اگرچہ یہ زمانہ ظلم و ستم اور برائیوں کا زمانہ ہوگا، لیکن اس زمانہ میں بھی پاک رہنا اور دوسروں کو نیکیوں کی دعوت دینا منتظرین کا لازمی فریضہ ہوگا اوران کا یہ کردار قائم آل محمد عليہ السلام کے ظہور پر براہ راست اثرانداز ہوگا۔
اس حصہ کو حضرت امام مہدی عج کے کلام پر ختم کرتے ہیں،کہ آپ نے فرمایا:
”ہمیں اپنے شیعوں سے کوئی چیز دور نہیں کرتی مگر ان کے (وہ برے)اعمال جو ہم تک پہنچتے ہیں اورہمیں پسند نہیں آتے اورہم ان سے ایسے اعمال کے ارتکاب کو جائز نہیں سمجھتے”۔
احتجاج،ج٢،ش٣٦٠،ص٦٠٢.
(جاری ہے….. )

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=32194