8

ائمہؑ علیہم السلام اور اولیاء خدا کی قبور کی زیارت ہدایت کا ذریعہ ہے، علامہ علی اصغر سیفی

  • News cod : 33955
  • 11 می 2022 - 15:08
ائمہؑ علیہم السلام اور اولیاء خدا کی قبور کی زیارت ہدایت کا ذریعہ ہے، علامہ علی اصغر سیفی
احتجاجی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی نے کہا کہ مسلمان جب ائمہ معصومن یا اولیاء کی قبور پر حاضری دیتے ہیں تو عبادت، ھدایت اور درس کے لیے ہے نہ کہ انکی پرستش کے لیے۔ کیونکہ ان ہستیوں نے اپنی جان، مال، اولاد اور سب کچھ راہ خدا میں انفاق کیا تو ہم ان کے راستے پر چلنے کے لیے، ان سے ہدایت لینے کی غرض سے انکے پاس حاضری دیتے ہیں۔

وفاق ٹائمز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق قم میں موجود معروف پاکستانی دینی درسگاہ مدرسہ الامام المنتظر کے شعبۂ ثقافت کے زیر اہتمام آج انہدام جنت البقیع کی مناسبت سے ایک پروگرام منعقد ہوا۔

احتجاجی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی نے کہا کہ مسلمان جب ائمہ معصومن یا اولیاء کی قبور پر حاضری دیتے ہیں تو عبادت، ھدایت اور درس کے لیے ہے نہ کہ انکی پرستش کے لیے۔ کیونکہ ان ہستیوں نے اپنی جان، مال، اولاد اور سب کچھ راہ خدا میں انفاق کیا تو ہم ان کے راستے پر چلنے کے لیے، ان سے ہدایت لینے کی غرض سے انکے پاس حاضری دیتے ہیں۔
پیغمبر ص نے فرمایا ہے: یا علیؑ میری اور آپ آل محمد کی قبریں جنت کے ٹکڑے ہیں اور جو انکی زیارت کریں گے روز قیامت میں انکی شفاعت کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ عمر بن خطاب کے زمانے میں قحط اور خشک سالی ہوئی تو لوگوں نے قبر رسول ص سے توسل کیا تھا اور خود حضرت عائشہ نے بھی لوگوں سے کہا تھا کہ جائیں اور رسول ص کی قبر سے توسل کریں۔ اسکے علاوہ یہ بھی جان لیں کہ رسول اللہ ص کی قبر کی بارگاہ کے لیے بھی خلیفہ ثانی نے پہلا قدم اٹھایا اور قبر کے پاس دیوار بنائی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ قبور اور حرم ائمہ اطھارؑ ، خدا کو یاد کرنے کی جگہیں ہیں؛ ان جگہوں پر اگر دیکھا جائے تو اکثر مساجد سے زیادہ ان جگہوں پر خدا کی یاد اور عبادت کی جاتی ہے۔

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان شعبہ قم کے مدیر نے خوارج کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ خوارج کی تین خصوصیات تھیں :
1: بظاہر نہایت عبادت گذار تھے
2: متکبر تھے کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتے تھے
3: جو انکے مزاج کا نہ ہو اسکی تکفیر کیا کرتے تھے
ان کی طرح ایک شخص ابن تیمیہ تھا جس نے انبیاء ، آئمہ اور اولیاء کی قبور کی زیارت و توسل پر کفر کا فتویٰ لگایا اور ان قبروں کے انہدام ک فتوی دیا جس پر تمام مکاتب اسلام کے علماء نےاسکی تکفیر کی اسے جیل میں ڈالا اور وہیں فی النار ہوا۔ اس کے بعد 11ویں صدی میں محمد ابن عبدالوہاب نے لوگوں کو اس چیز پر ابھارا اور کربلا و نجف کے حرمیں کو مسمار اور تخریب کرنا چاہا، تیرھویں صدی کے آغاز میں ان تکفیریوں کے لشکر نے کربلا میں بہت زیادہ محبین ائمہ۔ع کو قتل کیا جس میں 7 ہزار عالم دین تھے۔
اسکے بعد نجف کی طرف آیا تو اہل نجف نے انکا استقامت سے مقابلہ کیا اور کچھ کرنے نہیں دیا۔ اسکے بعد یہ لوگ 99 سال پہلے مکہ اور مدینہ پر قابض ہوئے اور 8 شوال کو بقیع کے تمام مزارات کو شہید کردیا۔ اس تخریب کے وقت بھی شیعہ سنی بہت زیادہ قتل ہوئے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=33955