7

اشرف سراج گلتری کی کتاب اور دعوتِ عام

  • News cod : 38824
  • 22 اکتبر 2022 - 8:21
اشرف سراج گلتری کی کتاب اور دعوتِ عام
ہمیں حقائق چھپانے کے بجائے حقائق جاننے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہیئے۔ ہمیں سوچ پر پہرے بٹھانے کے بجائے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے چاہیئے کہ کیا اللہ کے رسولﷺ نے اپنے وصال کے بعد مسلمانوں کو سقیفہ میں جمع ہونے کا حکم دیا تھا۔؟

تحریر: نذر حافی

کسی بھی قوم کو رُسوا کرنے کیلئے یہ دو عیب کافی ہیں۔ ایک اپنے مفادات کیلئے اصولوں کی قربانی اور دوسرے اپنی مصلحتوں کی خاطر سچائی کا انکار۔ جب کوئی قوم اپنی بھاری اکثریت کے ساتھ اہلِ حق و سچ یعنی سچّوں کے خلاف اِکٹھ اور اِجماع کر لیتی ہے، تو پھر اُس قوم کے شہروں میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتیں اور اُس کی کوکھ سے عادل حکمران جنم نہیں لیتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے، سرزمینِ مدینہ پر حضرت محمد رسول اللہﷺ نامی ایک عادل حکمران نے اپنی سلطنت قائم کی۔ آپ کی سلطنت عدل و انصاف، مساوات، بھائی چارے ،اخوّت، معاشرتی و سیاسی روابط، عسکری، رفاہی اور اقتصادی منصوبہ جات کے لحاظ سے اپنی مثال آپ اور “مدینۃ الفاضلہ” تھی۔ اسی صادق و امین نبیﷺ اور عادل حکمران کے بعد اُس ریاست نے وہ سارے اوصافِ حسنہ کھو دیئے۔ جہاں حکمران بد سے بد تر آتے گئے، وہیں رعایا نے بھی صِدق و مواخات، صُلح و مساوات، عدل و انصاف اور سچائی و حق گوئی کا راستہ ترک کر دیا۔

یہ کیسی تلخ سچائی ہے کہ ایک بنی بنائی اور کامیاب، مثالی و فلاحی اسلامی ریاست تاراج ہوگئی اور کسی کے دامن پر کوئی دھبّہ بھی نہیں۔! محاکمے سے بچنے کیلئے چودہ سو سال پہلے ہی سچائی کا گلا گھونٹ دیا گیا، سارے ثبوت مٹا دیئے گئے اور عینی شاہدین کی آنکھیں نکال دی گئیں۔ نہ نوکِ خنجر پر خون کا قطرہ ہے، نہ دستِ قاتل پر کوئی نشان۔ ایک طرف اسلامی و نبویؐ ریاست کا حُلیہ بگاڑ کر سب کچھ اُلٹ پُلٹ کرکے رکھ دیا گیا اور دوسری طرف سارا ملبہ بادشاہت اور ملوکیّت پر ڈال دیا گیا۔ مسلمانوں کے ہاں حقائق کو چھپانے کیلئے دو کام بڑی تیزی سے انجام پائے۔ ایک یزید کو بُرا بھلا کہنا اور دوسرے بادشاہت کو ہر برائی کی جڑ قرار دینا۔ یزید کی مانند بادشاہت اور ملوکّیت کو بھی اتنا بُرا بھلا کہا گیا اور اتنا کوسا گیا کہ بادشاہت اور ملوکیّت کا لفظ گالی بن گیا۔ حالانکہ اسلام سے پہلے تو زیادہ تر بادشاہت ہی رائج تھی اور آج بھی دنیا میں متعدد بادشاہتیں موجود ہیں۔

اللہ نے اپنی کتاب میں بھی بعض بادشاہوں کو سراہا ہے۔ بطورِ مثال حضرت ذوالقرنین ؑ بادشاہ تھے، حضرت یوسف ؑ اللہ کے نبی ؐ ہونے کے باوجود مِصر کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے، حضرت سلمانؑ اور داودؑ کو اللہ نے بادشاہت عطا کی۔ المختصر یہ کہ شاہِ حبشہ “نجّاشی” کی مانند اگر کوئی بادشاہ بھی سچّوں کے ساتھ جنگ نہ کرے تو اسلام اُس کے احترام کا قائل ہے۔ مورّخ یہ بتانے پر اور لکیر کا فقیر مسلمان یہ سوچنے پر راضی ہی نہیں کہ کیا یزید سمیت بنو امیّہ اور بنو عباس کے ظالم بادشاہ ایک شب میں آسمان سے اُتر کر ریاستِ اسلام کے تخت پر بیٹھ گئے تھے یا کسی نے اُنگلی سے پکڑ کر انہیں اسلامی ریاست کے تخت پر قبضہ کرنا سکھایا تھا۔؟ بغیر تحقیق کے خواہ مخواہ یزید ابن معاویہ یا معاویہ ابنِ سفیان کو اِس خرابی اور فساد کا بانی کہہ دینا قرینِ انصاف نہیں۔ یزید اور اُس کے اجداد سے بھی اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ کسی قسم کے تعصب، ضِد اور ہٹ دھرمی پر مبنی نہیں ہونا چاہیئے۔ بے بنیاد اختلافات اور اندھے الزامات کسی قوم کو صراطِ مستقیم تک نہیں لے جا سکتے۔

ہم مسلمان اگر صراطِ مستقیم، منہج نبوی ؐ، ختمِ نبوّت اور عشقِ رسول ؐکے قائل ہیں تو پھر ہمارے پاس جھوٹ بولنے، جھوٹے الزامات لگانے اور حقیقت کو چھپانے کا کوئی جواز نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تاریخی حقائق کو سمجھنے کے بعد سچ کی گردن زنی کو ہم نے اپنا پیشہ بنا رکھا ہے؟ ہمیں یہ سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ جھوٹ کی آکاس بیل میں جکڑی ہوئی ملّت کبھی بھی بہترین اُمّت نہیں بن سکتی۔ ان دِنوں فاضل محقق اشرف سراج گلتری کی کتاب “حقیقت کی تلاش” پڑھنے کی توفیق ہوئی۔ یہ کتاب لکیر کے فقیر لوگوں کی عقلوں کے بند کواڑوں پر دستک دینے کی ایک سعی ہے۔ چند دِن پہلے اس کتاب کی تقریبِ رونمائی میں بھی مجھے شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ مجھے اِس کتاب کے معائب اور محاسن پر کچھ زیادہ بات نہیں کرنی۔ تاہم راقم الحروف کے نزدیک یہ کتاب “سقیفہ سے کوفہ تک” کی مستند روداد بھی ہے اور پیغمبرِ اسلام کے بعد کے حالات کا واضح نقشہ بھی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ ضمیر کی عدالت سجا سکتے ہیں تو پھر آپ سچ کی وکالت بھی کرسکتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ سچ کی وکالت نہ سہی سچ کو جاننے کی غرض سے ہی اس کتاب کی ورق گردانی کر لیجئے۔ حقیقت کی تلاش اور کھوج ایک منہ زور جذبہ ہے۔ سچ جاننے کے بعد سچی بات ہر کوئی نہیں کرتا۔ اس کی ایک وجہ یہ خوف بھی ہے کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی سچی بات پرانے سے پرانے عقائد پر پانی پھیر سکتی ہے۔ اپنے عقائد کو سچ کے ترازو پر تولنا، یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ سچائی کو تسلیم کرنے کے بجائے مسلمانوں نے تاریخِ اسلام کو سچائی کا قبرستان بنا دیا ہے۔ بعض لوگ خواہ مخواہ مسلمان ہونے سے ڈرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہو کر ہمیں بانی اسلام ؐ کی مانند ہمیشہ سچ کی پیروی کرنی پڑے گی۔ میں اُنہیں بھی یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ جھوٹ کے خریدار ہیں تو پھر بھی مسلمان ہونے سے نہ ڈریں۔ مسلمانوں کو بھی مدّتیں ہوگئی ہیں کہ انہوں نے اپنے سچّے نبی ؐ کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ دیگر ادیان و مذاہب کی مانند جھوٹی روایات، اندھے عقائد، من گھڑت داستانیں، فرضی قصّے اور جعلی کہانیاں یہ سب کچھ آپ کو مسلمانوں کے ہاں بھی وافر مقدار میں مِل جائے گا۔

آج ہمیں سینے پر پتھر رکھ کر یہ اقرار کرنا پڑ رہا ہے کہ ایک صادقؐ و امین ؐنبی کی امّت، اپنے نبی ؐ کی تعلیمات سے روگردانی کرکے نسل در نسل مسلمان کہلوا رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صادق نبی ؐ نے اپنے بعد اُمّت کیلئے دو گرانقدر چیزیں چھوڑی تھیں۔ ایک قرآن مجید اور دوسرے اپنے اہلِ بیتؑ، کسی نے قرآن اور اہلِ بیت ؑ کے بجائے قرآن اور سنّت بھی لکھا ہے۔ اگر نبی ؐ کے بعد مسلمانوں کو مسئلہ خلافت درپیش تھا تو کیا انہیں نبی ؐ کی تاکید کے مطابق قرآن اور نبی ؐ کے اہلِ بیت کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیئے تھا؟ اِسی طرح اگر وہ اہلِ بیت ؑکی جگہ سُنّت رسول کو بھی لیں تو کیا دعوتِ ذوالعشیر میں ہی نبی ؐ نے یہ اعلان نہیں کر دیا تھا کہ آج کے دن جو میری تصدیق کرے گا، وہ میرا وزیر اور جانشین و خلیفہ ہوگا؟ خیر مسلمان نبی ؐ کے بعد جس راستے پر نکلے، اُس پر چلنے کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، چونکہ جب غلطیوں کو مقدّس شمار کیا جانے لگے تو پھر غلطیاں بھی سُنّت، ثواب اور خطائے اجتہادی کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔

تاریخی واقعات کو چوم چوم کر تعویز بنا کر پینے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدا را تجزیہ و تحلیل سے کام لیں۔ اب لمحہ فکریہ یہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی نیا دین یا نیا نبی نہیں آئے گا اور کوئی نئی کتاب بھی نازل نہیں ہوگی! اب دین مکمل ہوچکا ہے، نبوت اختتام کو پہنچ چکی ہے تو پھر اِس اُمّت کی اصلاح کیسے ممکن ہے۔؟؟؟ کیا اسی طرح نسل در نسل گمراہی مسلمانوں کا نصیب ہے؟ کیا نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے اس لئے قربانیاں دی تھیں کہ پیغمبرِ اسلامﷺ کے بعد مسلمان یونہی نسل در نسل فاسق و فاجر، راشی و مرتشی، گمراہ و بدکار اور کرپٹ اور جاہل رہیں۔؟ اگر یونہی رہنا مسلمانوں کی قسمت اور مقدّر ہے تو پھر تو یہ مقصدِ ختمِ نبوّت کے خلاف ہے۔ ختمِ نبوّت کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ اب انسان اتنا باشعور ہوگیا ہے کہ اُسے مزید کسی نبی اور پیغمبر کی ضرورت نہیں رہی۔

پس ماننا پڑے گا کہ ہمارے آج کے اسلامی معاشرے میں یہ خرابیاں اور فسادات اس لئے ہیں، چونکہ ہم نے اللہ کے آخری نبیﷺ کی اطاعت اور اتباع کو ترک کر دیا ہے۔ یہ ترک کرنا کسی سے مخفی نہیں۔ ہر ذی شعور کو یہ نظر آرہا ہے کہ آج کا نام نہاد اسلامی معاشرہ پیغمبرِ اسلام کے نقشِ قدم پر نہیں چل رہا۔ ہماری مثال کراچی جانے والی اُس ٹرین کی سی ہے، جس کے ڈبّے کراچی جانے والے انجن کے بجائے کوئٹہ جانے والے انجن کے پیچھے لگا دیئے گئے ہیں۔ اب یہ ٹرین جتنی چلتی جا رہی ہے، اپنی منزل سے اُتنی دور ہوتی جا رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس ٹرین کے ڈبوں کو روک کر مطلوبہ انجن کے پیچھے لگایا جائے۔ قرآن مجید نے مسلمانوں سے صرف اور صرف نبی اکرمﷺکی اتّباع اور اطاعت طلب کی ہے۔ نبیﷺ کی اتّباع کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے نبی ؐ کی تاکید کے مطابق نبی ؐکے بعد قرآن اور اہلِ بیت ؐ با عبارتِ دیگر قرآن و سُنّت کی پیروی کریں۔

ہمیں حقائق چھپانے کے بجائے حقائق جاننے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہیئے۔ ہمیں سوچ پر پہرے بٹھانے کے بجائے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے چاہیئے کہ کیا اللہ کے رسولﷺ نے اپنے وصال کے بعد مسلمانوں کو سقیفہ میں جمع ہونے کا حکم دیا تھا۔؟ اگر وہاں صرف تیرہ آدمی جمع ہوئے تھے اور ان کا بھی کسی ایک شخص پر اتفاق نہیں تھا تو پھر یہ کیسے مشہور کیا گیا کہ یہ اکثریت امّت کا فیصلہ تھا۔؟ اُمّت تو بانی اسلامﷺ کی اُمّت ہے، پھر دیگر اربابِ سقیفہ کی اتباع اور اطاعت کا جواز کس نے تراشا؟ کیا سقیفہ بنی ساعدہ کی خلیج کو پاٹ کر آج بھی پیغمبرِ اسلامﷺ کی سُنّت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔؟ کیا قرآن مجید اور پیغمبرِ اسلامﷺ کی تعلیمات آج بھی عالمِ بشریت کیلئے فلاح و بہبود اور نجات کا باعث ہیں۔؟ اگر نجات کا باعث ہیں تو پھر بیچ میں سقیفہ بنی ساعدہ کو کیوں حائل کیا جاتا ہے۔؟

ان سارے سوالوں اور ان جیسے بہت سارے دیگر اہم سوالات کے جوابات آپ کو اشرف سراج گلتری کی کتاب حقیقت کی تلاش میں مل جائیں گے۔ صرف جواب ڈھونڈنا ہی کمال نہیں بلکہ فن تو یہ ہے کہ بال کی کھال اتارنے کیلئے مزید سوالات اٹھائے جائیں۔ سوالات مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی۔ صاحبانِ قرطاس و قلم کی خاطر، تحقیق کے دروازے پر ایک فن پارہ برادر ِمکرّم “اشرف سراج گلتری” نے بھی لا کر رکھ دیا ہے۔ آپ اس پر علمی نقد کریں، اس کا خلاصہ لکھیں، اس پر حاشیہ لگائیں، اس کا ردّ لکھیں، یہ سب آپ کا علمی، عقلی اور منطقی حق ہے۔ لہذا آپ کو اس کتاب کے صرف مطالعے کی دعوت نہیں دی جاتی بلکہ جرح و تعدیل، ردّ و نقد، اختلافِ نظر، بہتری اور معائب کی نشاندہی کیلئے بھی دعوتِ عام ہے۔ اس دعوتِ عام کے ساتھ ساتھ یہ دعوتِ فکر بھی ہے کہ جب کوئی قوم اپنی بھاری اکثریت کے ساتھ سچّوں کے خلاف اکٹھ اور اجماع کر لیتی ہے، تو پھر اُس قوم کے شہروں میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتیں اور اُس کی کوکھ سے عادل حکمران جنم نہیں لیتے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=38824