6

امام زمان عج کے لیے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا اسوہ حسنہ قسط 3

  • News cod : 41810
  • 24 دسامبر 2022 - 21:37
امام زمان عج کے لیے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا اسوہ حسنہ قسط 3
آج ہم ایک ایمانی اسلامی معاشرے کے اندر بی بی ؑ کا جو کردار تھا اور بے پناہ درس ہمارے لیے سب اہل ایمان کے لیے یعنی اجتماعی اور معاشرتی جو تعلقات ہیں۔اس حوالے سے بی بی ؑ کا کردار جو ہے اس کو موضوع ِسخن قرار دیں گے۔

امام زمان عج کے لیے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا اسوہ حسنہ
درس 3

استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی

موضوع : حضرت زھرا سلام اللہ علیہا کا معاشرتی و اجتماعی کردار

ایامِ فاطمیہ کے حوالے سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا مشہور فرمان
فرماتے ہیں فی ابنۃ رسول اللہ (ص)لی اسوۃ حسنۃ
ترجمہ:میرے لیے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرتِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اسوہ حسنہ رکھتی ہیں۔
یعنی میں امام ؑ بھی بی بی ؑ کو اپنے لیے مشعلِ راہ قرار دیتا ہوں۔تو بی بی دو عالم فقط مولا امام زمان ؑ کے لیے نہیں بلکہ ان کی ساری امت سب اہل ایمان اور اہل انتظار کے لیے اسوہ حسنہ رکھتی ہیں۔اب وہ بی بی ؑ کی کونسی صفات ہیں کہ جو ہم سب کے لیے نمونہ عمل بن سکتی ہیں، اور ہم بھی اپنے امام کی ہمراہی میں اپنے اندر فاطمی صفات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے دو درس بیان ہوچکے ہیں.پہلے درس میں عرض کیا تھا کہ بی بی ؑ کی خدا شناسی، اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت، خدا کی عبودیت یہ ہمارے لیے ایک بہترین درس ہیں۔دوسرے درس کے اندر بی بی ؑ کا گھر کے اندر مولا علی ؑ کے ساتھ بعنوانِ ایک ہمسر بعنوانِ ایک زوجہ جو زندگی ہے وہ ہماری تمام مومنات کے لیے اہم ترین نمونہ عمل ہے۔ اور اس کے اندر اہم ترین درسی نکات تھےجو بیان ہوئے۔
آج ہم ایک ایمانی اسلامی معاشرے کے اندر بی بی ؑ کا جو کردار تھا اور بے پناہ درس ہمارے لیے سب اہل ایمان کے لیے یعنی اجتماعی اور معاشرتی جو تعلقات ہیں۔اس حوالے سے
بی بی ؑ کا کردار جو ہے اس کو موضوع ِسخن قرار دیں گے۔

محرم اور نامحرم کی تاکید
ہم سب سے پہلی جو چیز دیکھ رہے ہیں کہ بی بی معاشرتی روابط کے اندر محرم اور نامحرم کی طرف بہت تاکید فرماتی تھیں۔ ایک بڑا مشہور واقعہ جسے امام موسیٰ ابن جعفر ؑ نے اپنے آباؤ اجداد کی روایت سے نقل کیا ان کی سند سے۔۔۔۔کہ امیر المومنین علی ؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص جو کہ نابینا تھا وہ بی بی ؑ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہتا تھا، تو بی بی نے اپنے آپ کو ایک چادر میں چھپایا اپنے بدن کو ۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ بھی وہاں موجود تھے انہوں نے فرمایا کہ بیٹی زہرا ؑ آپ اپنے آپ کو کیوں چھپا رہی ہیں حالانکہ وہ تو نابینا ہے وہ آپ کو نہیں دیکھ رہا، تو بی بی نے فرمایا کہ اگرچہ وہ مجھے نہیں دیکھ رہا لیکن میں تو اسے دیکھ رہی ہوں اور یہ شخص نابینا ہے۔لیکن اس کے سونگھنے کی طاقت تو موجود ہے وہ خوشبو اور بو کو تو سونگھ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو میرے تن کا ٹکڑا ہے۔
اب آپ دیکھیں کہ کتنے اہم درس ہیں اس چھوٹے سے واقعے کے اندر کہ پردے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف خاتون کو نہ دیکھا جائے پردے کا مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی خاتون کسی مرد کو بھی نہ دیکھے۔ایک تو یہ بات ہے دوسری بات جو ہے وہ یہ ہے کہ محرم اور نامحرم اور حجاب اس کی رعایت کرنا یہ فاطمی صفت ہے یہ ایک ایمانی معاشرے کی صفات میں سے ہے۔ آج بہت بڑا المیہ ہے ہمارے معاشرے کے اندر حتیٰ دین دار گھروں میں محرم اور نامحرم کی تمیز ختم ہورہی ہے۔یہ کزن ہے، یہ بھابھی دیور ہیں،یہ میری سالی ہے یہ میرا فلاں ہے کوئی پردہ نہیں رہ گیا اور بالخصوص جب پارٹیاں ہوتی ہیں تو اس وقت تو بےپناہ میک اپ اور اس کے درمیان عجیب وغریب لباس جس میں جسم کے حصے نظر آرہے ہیں اور بال نظر آرہے ہیں اور پھر لوگوں کی نگاہیں اور دیگر مسائل بیشک وہ اپنے رشتے دار ہیں لیکن نامحرم ہیں اور پھر ظاہر ہے ان کی نگاہوں کا بدلنا اور پھر آگے مسائل بننا اور پھر آہستہ آہستہ یہ چیزیں شرم و حیا کو ختم کرنے ، بہت ساری حرمتوں کو پامال کرنے اور فحش و فساد کی موجب بن رہی ہیں۔اور ہمارے بعض لوگ کہتے ہیں جی بچے ہیں جوان ہیں تو بالآخر نتیجہ کیا نکلے گا۔یہ فاطمی معاشرہ نہیں رہے گا۔
بی بی ؑ نے کیا درس دیا۔پھر خوشبوئیں لگا کے خواتین جب نامحرموں کے محفلوں میں پارٹیوں میں موجود ہوتی ہیں جہاں نامحرم مرد ہوتے ہیں چاہے وہ اپنے رشتےدار ہوں یا غیر ہوں اس وقت کیا عالم ہوتا ہے۔اوربی بی ؑ نے کیا درس دیا تھا حتیٰ کہ نابینا شخص سے بھی اپنے بدن کو حجاب میں لپیٹا جائے کہ آپ کے بدن کی اپنی خوشبو بھی اس کی ناک تک نہ جائے۔۔۔کجا کہ کوئی انسان باقاعدہ پرفیوم لگائے اور لوگوں کے درمیان چلے پھرے اس پر تو باقاعدہ روایات ہیں کہ جو خاتون اپنے شوہر کے علاؤہ اپنے محرم افراد کے علاؤہ دیگران کے لیے کسی پارٹی کے لیے کسی محفل کے لیے عطر لگاتی ہے خوشبو لگاتی ہے اس پر کتنے ملائکہ لعن کرتے ہیں۔ اور بی بی ہمیں کتنا بڑا درس دے رہی ہیں۔
روایات میں ہے کہ بی بی زہرا سلام اللہ علیہا اپنے آخری ایام میں شہادت سے پہلے بھی اسی بات پر پریشان تھیں کہ میری وفات کے بعد شہادت کے بعد میرے بدن کو نامحرم نہ دیکھے۔ حالانکہ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ بی بی ہیں معاشرے کے اندر ان کا کردار بھی ہے پیغمبرِ اسلام ص کے زمانے میں جتنی غزوات ہوئی ہیں بی بی ؑ اپنے والد کی غمخوار ہیں اپنے شوہر کی غم خوار ہیں اور اگر والد زخمی ہوئے ہیں یا مولا علی ؑ کے بدن پر زخم لگے ہیں تو بی بی ؑ نے وہاں مدد کی ہے اپنے والد اپنے شوہر اپنے عزیزوں کی۔ اور بعنوانِ ایک نرس کردار بھی بی بی ؑ نے ادا کیا۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اہل قبور جانا اور بالخصوص اپنے والد کے چچا حمزہ ؑ کی قبر پر جانا، اسی طرح ان کے گھر کا خیال رکھنا اور ان کی شہادت کے وقت تین دن تک اپنے چچا کے البتہ یہ پیغمبرص کے چچا تھے ان کے گھر کھانا پہنچانا، اور جب خندق کھودی گئی اور اس وقت سب بھوکے تھے۔وہ جو کام ہورہا تھا جنگ خندق میں تو بی بی ؑ کھانا پکا پکا کر مجاہدین اسلام تک پہنچا رہی ہیں۔ اسی طرح نجران کے جو مسیحی و عیسائی ان کے ساتھ مباہلہ میں پیغمبر کے ہمراہ بی بی ؑ باہر آئیں اور قرآن میں بھی اس موضوع پر اشارہ ہے۔ بہت سارے اور بھی مسائل ہیں جہاں بی بی ع کا معاشرے میں ایک اجتماعی اور معاشرتی کردار تمام تر حجاب اور عفت و پاکیزگی کے ساتھ۔
اور اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد امیر المومنین ع وقت کے امام ع کی حمایت کے لیے بھی بی بی ؑ کا نکلنا،انصار کے گھروں تک جانا اور ان کو مولا علی ؑ کے نصرت کے لیے آمادہ کرنا اور وہ فدک کے مسئلے میں بی بی ؑ کا احتجاج اور وہ خطبہ جو فدکیہ ہے اور دربار حکومت اس میں بی بی ؑ کا آنا اور تمام اہل اسلام اور اصحابِ رسول ص کے لیے وہ ایک عظیم الشان خطبہ
بی بی س کا کہ جس نے اصحاب کو گریہ پر واردار کیا۔کہ سب رو رہے تھے جب بی بی زہرا ؑ خطبہ دے رہی تھی تو اس خطبے کے اندر بی بی نے اہم ترین توحیدی مطالب اور دینِ اسلام کا فلسفہ اور اسلامی حکومت کا فلسفہ اور ایک امام ؑکی حکومت اور دینی حاکم کی حکومت کیسی ہونی چاہیئے یعنی کتنی چیزیں تھیں اس خطبے کے اندر کہ ہم پہلے کیا تھے اور اسلام آنے کے بعد ہمیں کیا ثمرات حاصل ہوئے ہیں، یہ ساری چیزیں جو ہیں وہ بی بی کے اجتماعی کردار کو بیان کررہی ہیں۔بی بی ؑ یہ بتا رہی ہیں کہ مسلمان صرف خلوت کا یا انفرادی سطح کا یا صرف محرابِ عبادت کی حد کا یا ذکر و اذکار کی حد کا مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان وہ ہے جو معاشرے میں اجتماع میں اپنا ایک نقش ادا کرے۔ گھر میں باپ، بیٹی بھائی، ماں ، بہن،
بیوی سب رشتوں کے ساتھ ایک نقش ادا کرے۔ ہمسائے کے ساتھ ہمسائیوں والا نقش ادا کرے۔معاشرے میں جدوجہد جو ہے جو ایک دینی جدوجہد ہے ایک سیاسی جدوجہد ہے اس کا بھی حصہ بنیں ۔ اپنے وطن مٹی اپنے ملت دین کا دفاع بھی کرے اور لوگوں کے ساتھ روابط میں تمام احترام کے تقاضے ہیں ان کا خیال رکھے لیکن دینی تقاضوں کو اولیت دے، اپنے حجاب کو اولیت دے، اپنی عفت اور پاکیزگی کو ۔۔۔۔۔
میں پھر یہ کہونگا کہ یہ ایامِ فاطمیہ ہر سال منائے جاتے ہیں لیکن امام زمانہ ؑ ہمیں کس چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں،کیا توجہ دلا رہے ہیں کہ بی بی ؑ میرے لیے نمونہ عمل ہیں اور میں ان کے لیے ظہور کرونگا میں ان کا امام ہوں کہ جن کے لیے فاطمہ ؑ نمونہ عمل ہیں۔جو اپنی صفات میں فاطمی ہے۔ ہر سال ایام عزاء منائے جاتے ہیں۔ بی بی ؑ کی شہادت بی بی ؑ کے فضائل بیان ہوتے ہیں۔مجالس ہوتی ہیں اور یہ ہونی چاہئیں لیکن کبھی غور تو کریں کہ ہم کس صفت میں کس کام میں فاطمی بنے ہیں۔آیا بی بی ؑ اور بی بی ؑ کا بیٹا یوسف زہرا سلام اللہ علیہا ہم سے شکوہ تو نہیں کررہے۔

پرودگار ہم سب کو ان ایامِ فاطمیہ کا واسطہ، بی بی دو عالم کا واسطہ اور امام زمان ع کا واسطہ ہم سب کو اپنے کاموں میں اپنی صفات میں اپنے افعال میں فاطمی شیعہ بننے کی توفیق عطا فرما۔

 

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=41810