8

انقلاب ایران عوام کا انقلاب

  • News cod : 44187
  • 17 فوریه 2023 - 17:38
انقلاب ایران عوام کا انقلاب
جب امام خمینی حکم دیتے کہ اب مظاہرہ کرنا ہے تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہوتے

انقلاب ایران عوام کا انقلاب
فرحان علی فاروقی
دنیا میں کوئی بھی تحریک عوام کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ہر تحریک کے پیچھے ایک عوامی جدو جہد ہوتی ہے جو اسے زندہ رکھتی ہے۔جب عوام کے نزدیک اس نظریامطالبہ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی جس کی بنیاد پر تحریک چل رہی ہوتی ہے تو وہ اس کی حمایت سے دستبردار ہو جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ تحریک قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ایک بات طے شدہ ہے جو تحریک جتنے بڑے مقصد کے لیے چلائی جائے گی اور وہ جتنی بڑی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہو گی اس کے لیے عوام کی شمولیت بھی اسی قدر ضروری ہو گی۔ایسی تحریک جو صدیوں سے قائم نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ نیا نظام لانا چاہتی ہے جس سے معاشرے کے طاقتور ترین گروہوں کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو اس کے لیے بہت زیادہ قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔ایران میں صدیوں سے پہلوی خاندان برسراقتدار تھا اور لوگ نسلوں سے ان کے وفادار تھے۔تیل کی دولت نے تمام سرمایہ داروں کو شاہ کا وفادار بنا دیا تھا اور وہ اپنی بقا صرف بادشاہت کی صورت میں ہی دیکھتے تھے۔اس لیے سرمایہ دار بھی بادشاہت اور آمریت کے حمایتی تھے یوں سمجھ لیجئے ایران کا اس وقت کا نظام طاقتوروں کے مفادات کے گرد گھومتا تھا اور یہ ہر صورت میں اس نظام کو بچانا چاہتے تھے اس کے لیے جو بھی قیمت دینی پڑے وہ ادا کرنے کے لیے تیار تھے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ نے امریکہ سے وہ ذلت آمیز معاہدہ بھی کر لیا جس میں اگر کوئی امریکی فوجی ایرانی کو قتل بھی کر دے تو بھی اس پر ایران قانون لاگو نہیں ہو سکتا تھا۔
امام خمینی غیرت و حمیت کی علامت تھے جب یہ قانون پاس کیا گیا تو آپ نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسے عظیم ایرانی قوم کی توہین قرار دیا کہ ایک امریکی کا کتا بھی مارا جائے تو ایرانی کو جواب دینا پڑے گا اور کوئی امریکی دس ایرانیوں کو قتل کر دے تو بھی اس پر مقدمہ نہ ہو سکے گا۔شاہ کی پوری ریاستی مشینری حرکت میں آئی اور انہوں نے امام خمینی کو خاموش کرانے کی کوشش کی۔ساواک نے پورا زور لگا دیا کہ امام خمینی امریکہ اور شاہ کی پالیسیوں کے خلاف بات نہ کریں۔ کہا گیا کہ آپ آغا ہیں درس پڑھائیں آپ کا ان معاملات سے کیا لینا دینا؟یہ واقعہ مشہور ہے کہ ساواک کے ایک نمائندے نے آپ سے ملاقات کی اور کہا آپ شاہ کے خلاف نہ بولیں آپ کو ایک بڑی رقم دی جائے گی، آپ نے جواب دیا میں شاہ کو اس سے کئی گنا زیادہ رقم دینے کو تیار ہوں بس شاہ ایرانی قوم کی جان چھوڑ دے۔اس نے کہا آپ اتنی رقم کہاں سے لیں گے؟امام خمینی نے فرمایا میں ایرانی قوم سے کہوں گا تمہاری اس آمرانہ اور وطن فروش حکومت سے جان چھوٹ سکتی ہے اور اس کے لیے اتنی رقم درکار ہے مجھے یقین ہے کہ شام سے پہلے پہلے ایرانی قوم اس سے زیادہ رقم دے دے گی۔اس نے کہا شاہ کے پاس تو فوج ہے وہ لے آئے گا آپ کیا کریں گے؟ امام خمینی نے فرمایا میری بھی فوج ہے؟ اس نے پوچھا آپ کی فوج کہا ں ہے؟ ہمیں تو آپ کی کوئی فوج نظر نہیں آ رہی۔آپ نےفرمایا دیکھو میری فوج ماوں کی گود میں ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ ۱۹۶۳ کا واقعہ ہے اگر ہم دیکھیں تو اس کے ٹھیک سترہ سال بعد یہی نسل جوان ہو چکی تھی جس نے اس وقت کے استعماری نظام کا خاتمہ کر دیا ۔
امام خمینی کے شاگردوں اور آپ سے متعلقین نے عوامی رابطہ کو اہم مشن کے طور پر لیا۔بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ساواک معمولی شک کی بنیاد پر جوانوں کو غائب کر دیتی تھی۔امام خمینی کی تصویر رکھنا تک جرم بن گیا تھا ۔ اس سب کے باوجود امام خمینی کے پیغامات نجف اشرف سے جاری ہوتے اور آپ کی تقاریر کی کیسٹس بارڈر کراس کرتیں اور راتوں رات ایران میں پھیل جاتیں۔آپ کے رابطہ کے نظام نے عوام کو امام خمینی سے جوڑے رکھا اور یہ رابطہ دن بدن مضبوط ہو رہا تھا۔ایرانی زائرین نجف پہنچنے تو سیدھے آپ کی خدمت میں پہنچ جاتے ہر کوئی ایک پیغام لے کر جاتا اور ایران کے شہر شہر گاوں گاوں آپ کا سفیر بن جاتا۔شاہ نے حکومت عراق پر پریشر ڈالا اور امام خمینی کو فرانس جلاوطن کر دیا گیا۔
شاہ کا خیال یہ تھا کہ اس طرح امام خمینی کا ایرانی عوام سے رابطہ ختم ہو جائے گا مگر اس کے برعکس ہوا کیونکہ امام خمینی کو مغربی میڈیا تک رسائی میسر آ گئی ۔امام خمینی دنیا بھر کے میڈیا کو انٹرویو دینے لگے اور آپ کے شاگرد بھی پورے یورپ اور دیگر ممالک سے پیرس آ گئے یوں بہترین ٹیم بھی بن گئی۔پیرس سے تہران آنے والی پروازیں امام خمینی کا پیغام ایرانی عوام تک پہنچانے لگیں اور ٹیلی فون کے ذریعے بھی موثر رابطے قائم ہو گئے۔
جب امام خمینی حکم دیتے کہ اب مظاہرہ کرنا ہے تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہوتے۔ آپ کے پیغام کو لوگوں نے اس حد تک قبول کیا کہ تہران میں گولیاں ماری جاتیں مگر لوگ پھر بھی مظاہرے کرتے ،لوگوں پر ٹینک چڑھائے گئے مگر پھر بھی وہ امام خمینی کی حمایت میں نکلنے سے نہیں رکے۔جب تہران کی سڑکوں پر فوج آ چکی تھی اور وہ گولیاں چلا رہی تھی امام خمینی نے حکم دیا کہ ان کو پھول پیش کرو اس حکمت عملی کے حیران کن نتائج سامنے آئے اور بہت سے مقامات پر فوج نے شاہ کے ظالمانہ اقدامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔یہ عوام میں آپ کی مقبولیت اور آپ کے نظریہ سے لوگوں کی قلبی وابستگی ہی تھی کہ لوگ گولیاں کھا کر بھی دیوانہ وار آپ سے وابستگی کا اظہار کرتے رہے۔جب امام خمینی تہران کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو بقول مختار مسعود انسانوں کا ایک سمندر آپ کا منتظر تھا اور تہران کے ہوئی اڈے سے لے کر شہدائے انقلاب کے قبرستان بہشت زہراء تک انسان ہی انسان تھے۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ ایران کے عوام نے فیصلہ سنا دیا ہے اور عوام کا انقلاب آ چکا تھا ایک اسلامی انقلاب جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=44187