8

علم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے، علامہ علی اصغر سیفی

  • News cod : 46667
  • 27 آوریل 2023 - 21:18
علم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے، علامہ علی اصغر سیفی
حجۃ الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی نے کہاکہ مولانا و طالب علم ایسے لوگوں سے معاشرت کرے کہ جو ظاہرا تدین رکھتے ہوں ہر ایک کے پاس جانا درست نہیں ہے جیسے امیر المومنین علیہ السلام کے پاس سب آتے تھے لیکن امیر المومنین علیہ السلام خاص لوگوں کے پاس جایا کرتے تھے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر ع قم میں درس اخلاق دیتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی نے کہاکہ اخلاق کے درس کے لئے انسان کا خود با اخلاق ہونا ضروری ہے تاکہ یہ چیزیں سننے والے پر اثر انداز ہوں تو اس لئے ہم یہاں پر آیت اللہ مجتہدی تہرانی کے دروس سے استفادہ کرتے ہیں کہ جو بہت بڑے معلم اخلاق تھے۔

انہوں نے کہاکہ انسان کے لئے جتنا علم ضروری ہے اتنا ہی اخلاق بھی ضروری ہے ورنہ انسان کا نفس اسے ذلیل و رسوا کردے گا انسان کی رسوائی کا سبب اس کا نفس ہے انسان میں فقط علم معیار انسانیت نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مولا علی علیہ السلام کے بقول شیطان میں علم سب سے زیادہ موجود تھا پس علم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔

شیخ عبد الکریم حائری فرماتے تھے کہ طالب علم کی مثال انگور جیسی ہے کہ جس طرح انگور کو آگ کی تپش نجس کردیتی ہے مگر یہ کہ اس کا دو تہائی جل جائے اور سرکہ بن جائے تو پاک ہوجاتا ہے اسی طرح انسان علم آجانے کے بعد فورا متکبر ہوجاتا ہے علم اس کی روح کو نجس کردیتی ہے اس وجہ سے علم کو حجاب الاکبر کہا جاتا ہے خدا سے دور کردیتی ہے مگر یہ کہ اس میں تربیت اور اخلاق پیدا ہوجائے کہ جس میں ٹائم لگتا ہے انسان میں جب تک تکبر ہو تو اس کا علم نہ اسے فائدہ دیتا ہے نہ کسی اور مگر یہ کہ تربیت اور اخلاق ہو تو پھر اس کا علم مفید ہوتا ہے اور ایسا شخص ہمیشہ لوگوں کے درمیان زندہ رہتا ہے تواضع انسان کو بلند مرتبہ بنا دیتا ہے اس کی مثالیں موجود ہیں تواضع سخت ہے لیکن اس کا دورازہ موت تک کھلا ہوا ہے انسان جتنا اوپر جانا چاہے جا سکتا ہے پس استاد اخلاق کی ضرورت ہے تاکہ تکبر بھاپ بن کر اڑ جائے با ثمر درخت اور سایہ دار درخت کی نشانی تواضع اور جھکنا ہے لیکن جو متکبر ہوتا ہے اسے کاٹ کر جلا دیا جاتا ہے۔لہذا ہمیں حوزہ میں دو کام کرنے ہیں ایک علم کا استاد انتخاب کرنا ہے دوسرا روزانہ کی بنیاد پر اخلاق کا استاد انتخاب کرنا ہے آج یہ سب مواد نیٹ پر موجود ہے لیکن اگر حضوری ہوجائے تو اس کا فائدہ زیادہ ہے کیونکہ ہمنشینی بھی اثر انداز ہوتی ہے جیسے ہم آئمہ علیہم السلام کے حرم یا اولیاء کے مزاروں پر جاتے ہیں تو وہاں پر ہماری کیفیت کچھ اور ہوتی ہے جیسے امام خمینیؒ اور آیت اللہ رضا گلپائیگانی آپس میں ملتے تھے تو کوئی بات نہیں کرتے تھے فقط سکوت کی حالت میں چند لحظہ بیٹھتے تھے ہمیں بھی حرم میں مسجد بالاسر میں موجود اولیاء کی قبروں پر حاضر ہونا چاہیے اور خصوصا قبرستان شیخین میں میرزا قمی کی قبر پر جانا چاہیے کہ جن کا مقام غازی عباس کی مانند ہے کہ جس طرح کوئی شخص کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو جائے اور غازی عباس کی زیارت نہ کرے ایسا نہیں ہوسکتا ہے اسی طرح قم میں کوئی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کو جائے لیکن میرزا قمی کی زیارت کو نہ جائے تو ایسا نہیں ہوسکتا ہے اور ان جگہوں پر حاضر ہو کر یہ دعا مانگیں کہ خدا ہمیں آپ کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک علماء کا ہمنشین قرار دے اور ایسا استاد مہیا فرمائے کہ ہمارے اندر اخلاقی عالی ہمارے اندر پیدا کرے۔

انہوں نے کہا کہ آیت اللہ مجتہدی تہرانی فرماتے ہیں کہ جب میں حوزہ قم میں آیا تو میں نے علمی استاد کے ساتھ ساتھ اخلاقی استاد کو بھی معین کیا اور دو طرح کے استاد اخلاق معین کئے ایک وہ کہ جو اخلاق کا درس دے اور وہ حاج شیخ حسین فاطمی تھے اور دوسرا وہ استاد کہ جو عرفیات کا ہمیں درس دے کہ جو حاج شیخ علی اکبر برھان تھے۔

اخلاق کے ساتھ ساتھ عرفیات بھی بہت ضروری ہے یعنی وہ چیزیں کہ جن کو معاشرہ کے اندر ایک طالب علم اور مولانا کو رعایت کرنا ضروری ہیں اس حوالے سے چند نکات بیان کرتے ہیں۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ مولانا و طالب علم ایسے لوگوں سے معاشرت کرے کہ جو ظاہرا تدین رکھتے ہوں ہر ایک کے پاس جانا درست نہیں ہے جیسے امیر المومنین علیہ السلام کے پاس سب آتے تھے لیکن امیر المومنین علیہ السلام خاص لوگوں کے پاس جایا کرتے تھے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر بیٹا یا بیٹی کا رشتہ کرنا ہے تو ایسے لوگوں سے کرے کہ جو ظاہر دیندار ہوں متدین ہوں جیسے امام صادق علیہ السلام کے پاس ایک شخص نے حاضر ہو کر رشتہ کے متعلق سوال کیا تو فرمایا جس میں تقوی ہو اس سے کردو کیونکہ باقی چیزیں حسن و مال جلد ختم ہوجائیں گے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مولانا بازار میں ایک دکان سے زیادہ خریداری نہ کرے بلکہ دکان کو تبدیل کرتا رہے تاکہ کوئی مولانا کا دوست بن کر اس کے رازوں کو نہ جان لے اور چوتھا نکتہ یہ ہے کہ مولانا بازار سے چیز لے کر وہیں کھانا شروع نہ کردے اول تو کوشش کرے کہ ایسی کوئی چیز نہ خریدے کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ وہ چیز کس مواد سے بنی ہے مشکوک ہے اور دوسرا اس کا پکانے والا متدین و متقی بھی ہے یا نہیں ہے اور سوم یہ کہ اس سے خود مولانا کا تقوی ختم ہوجانے کا باعث ہے بلکہ چیزوں کو خرید کر گھر میں پکا کر کھائے تاکہ اس کی روحانی حالت باقی رہے اور تقوی باقی رہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=46667