7

انسانوں سے پیار کیجئے۔۔۔ قصاص لیجئے!

  • News cod : 47151
  • 11 می 2023 - 11:45
انسانوں سے پیار کیجئے۔۔۔ قصاص لیجئے!
قصاص تو مولوی نگار عالم کے ورثاء بھی نہیں لے پائیں گے۔ وجہ سوچنے اور سمجھنے والوں سے مخفی نہیں۔ مولوی نگار عالم کی بات کچھ دیر بعد پہلے پارہ چنار کی بات ہو جائے۔ جہاں آٹھ بے گناہ افراد قتل ہوگئے۔ ریاستی اداروں نے ورثاء کی ایک نہیں مانی۔ قتل کی وجہ زمین کا تنازعہ قرار دے دیا۔

تحریر: نذر حافی

قصاص تو مولوی نگار عالم کے ورثاء بھی نہیں لے پائیں گے۔ وجہ سوچنے اور سمجھنے والوں سے مخفی نہیں۔ مولوی نگار عالم کی بات کچھ دیر بعد پہلے پارہ چنار کی بات ہو جائے۔ جہاں آٹھ بے گناہ افراد قتل ہوگئے۔ ریاستی اداروں نے ورثاء کی ایک نہیں مانی۔ قتل کی وجہ زمین کا تنازعہ قرار دے دیا۔ مقدمہ بھی نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوا۔ ورثاء کا واویلا ہے کہ قاتل معلوم ہیں، نامعلوم نہیں۔ وہ قصاص کے طالب ہیں۔ اُن کے اس مطالبے کو قانونی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر آسانی سے رد بھی نہیں کیا جا سکتا، جبکہ دوسری طرف مقتدر طاقتیں اپنے ایسٹس سے قصاص لینے کے حق میں نہیں۔ اربابِ اقتدار کی کوشش ہے کہ قصاص کی بات نہ کی جائے۔ حکومت نہ صرف یہ کہ اپنے ایسٹس پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتی بلکہ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کے خلاف ریاستی مشینری بھی حرکت میں ہے۔ حتی کہ اگر اسلام آباد میں بھی کسی نے سانحہ پارہ چنار کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے کیلئے آواز اٹھائی ہے تو اُس پر بھی فوراً پرچہ کاٹ دیا گیا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے ہاں صاف و شفاف انداز میں قصاص کا اجرا کیوں نہیں کیا جاتا۔؟

آئیے کچھ دیر ماضی قریب میں جھانکتے ہیں۔ مشال خان کا قتل تو آپ کو یاد ہوگا۔ توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا۔ قتل کے بعد عوامی بلوہ ذمہ دار ٹھہرا۔ پھر مشال خان کا قصاص۔۔۔ کیسا قصاص اور کس سے قصاص۔؟ سانحہ ماڈل ٹاون بھی زیادہ پرانا نہیں۔ طاہر القادری صاحب نے قومی سطح پر بہت اچھے انداز میں اپنے شہداء کا مقدمہ لڑا، لیکن اب گلو بٹ جیسوں سے قصاص۔۔۔ کیسا قصاص۔؟ سانحہ ساہیوال کو تو کوئی پاکستانی بھول ہی نہیں سکتا۔ کیا قاتلوں سے قصاص لینا ضروری تھا یا نہیں۔؟ اب یہاں باوردی قاتلوں سے قصاص۔۔۔ کیسا قصاص۔؟ ذہنی معذور شخص صلاح الدین کا قتل ہوا تو پھر کیا ہوا۔؟ ایک پاگل شخص کا قصاص۔۔۔ مگر کیسا قصاص۔؟ احمد پور شرقیہ میں ایک ذہنی مریض شخص کو پولیس اسٹیشن پر لوگوں نے بلوہ کرکے مار دیا۔ قصاص۔۔۔ مگر کیسا قصاص۔؟

پچھلے دنوں انجینئر مرزا محمد علی کے سر کی قیمت مقرر کی گئی اور اسی طرح ان کے ایک چاہنے والے کو مجمع عام میں وحشتناک بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ قصاص۔۔۔ مگر کیسا قصاص۔؟ حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے ایک جلسے میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ مردان کے علاقے ساولڈھیر میں نگار عالم نامی عالم دین کو حالتِ دعا میں ہی توہینِ مذہب کا الزام لگا کر لوگوں نے لاتیں اور ڈنڈے مار کر قتل کر دیا۔ سب جانتے ہیں کہ مولوی نگار عالم نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی۔ پسِ پردہ مسئلہ کچھ اور تھا۔ مولوی نگار عالم کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے انجینئر مرزا محمد علی کی مانند ایک خطرناک فرقے کو للکارا تھا۔ مولوی نگار عالم پہلے دیوبندیوں کے حیاتی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد اپنی تحقیق کی بنا پر مماتی فرقے کی طرف راغب ہوئے۔ اس دوران مماتی فرقے کے کٹر اور شدت پسند دھڑے جمعیت اشاعت التوحید والسنہ کے سرگرم اور فعال افراد میں انہوں نے اپنی جگہ بنائی۔

جمعیت اشاعت التوحید والسنہ کے گروہ کو پنج پیری بھی کہا جاتا ہے۔ پنج پیری کہنے کی وجہ ضلع صوابی کا ایک گاؤں ہے۔ وہاں طاہر پنج پیری نامی ایک شخص نے اپنے گاؤں میں قرآن مجید کے درس سے تبلیغ کے کام کا آغاز کیا تھا، جو بعد ازاں ایک بڑے دیوبندی مدرسے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ دیوبندی مدرسہ خود دیوبندیوں میں سب سے زیادہ متشدد، شدت پسندانہ اور بالکل غیر لچکدار نظریات کے باعث معروف ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ کالعدم سپاہِ صحابہ و لشکرِ جھنگوی، طالبان و القاعدہ کے دھڑوں، تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ، باجوڑ ایجنسی کے مولوی فقیر محمد، خیبر ایجنسی کے امیر منگل باغ اور جامعہ تعلیم القرآن واقع راجہ بازار راولپنڈی کا تعلق دیوبندیوں کے اسی مکتبِ فکر سے ہے۔ پختونخواہ کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں یہ لوگ پنج پیری کے بجائے جمعیت اشاعت التوحيد والسنت کے نام سے معروف اور فعال ہیں۔

اب مولوی نگار عالم نے کچھ عرصہ پہلے اس دیوبندی پنج پیری فرقے کو بھی خیرباد کہہ دیا تھا۔ انہوں نے صرف خیرباد نہیں کہا تھا بلکہ اس فرقے کے برعکس روحانیت کی تبلیغ بھی شروع کر دی تھی۔ بس یہ جُرم تھا، جس کی سزا کے طور پر ایک بلوے کی شکل میں مولوی صاحب کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ مولوی صاحب کو منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے ٹھکانے لگایا گیا کہ کسی کی توجہ اصل کرداروں کی طرف ہے ہی نہیں۔ ہر طرف عوامی بلوئے، عمران خان، پی ٹی آئی اور توہینِ مذہب کے چرچے ہیں۔۔ آپ لیجئے قصاص۔۔۔ کیسا قصاص؟ کس سے قصاص۔؟ ان سارے واقعات میں ایک قدر مشترک ہے کہ قاتل انتہائی تربیّت یافتہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی سنگین واردات کو کس طرح عوامی مظاہرین اور بلوئے کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ ایک طرف واردات ہوتی ہے اور دوسری طرف ہماری سرکار قاتلوں پر پردے ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ سرکار کیلئے قاتلوں پر پردے ڈالنا ضروری بھی ہے، چونکہ قاتل بھی تو ہمارے قیمتی و سرکاری ایسٹس ہیں۔ ظاہر ہے کہ سرکار کی اوّلین ذمہ داری عوام اور ملک کے بجائے ان ایسٹس کی حفاظت ہے۔

اب آپ دیکھئے! عدالت سے پُرتشدد انداز میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔ یہ انداز اختیار کرنے کا اصل مقصد اشتعال انگیز ماحول بنانا تھا۔ ورنہ عدالت، قانون اور اہم شخصیات کی گرفتاری کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد قومی و سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سارے نقصان کا ذمہ دار بھی مظاہرین کو قرار دیا گیا۔ اس پر کسی نے بات نہیں کی کہ عوامی مظاہروں میں یہ گلو بٹ کہاں سے آتے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ جی ایچ کیو سمیت اعلیٰ فوجی مراکز، گورنر ہاوس، کور کمانڈر ہاوسز میں حملہ آوروں کو ایک چھوٹی سی پولیس چوکی جتنی مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔ یہ سب ایسے ہی ہوا، جیسے سانحہ راجہ بازار ہوا تھا۔

2013ء میں راولپنڈی کے راجہ بازار میں اسی طرح بلوہ ہوا اور مذکورہ بالا دیوبندی مدرسے کے لوگ مارے گئے۔ بلوہ ماہرین نے فوراً کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے کارندوں کو جوابی حملے کی کلین چٹ دی۔ انتقامی کارروائی کہہ کر راولپنڈی کی پانچ امام بارگاہیں جلوائی گئیں اور قرآن مجید کے نسخے تک نذر آتش کر دیئے گئے۔ کسی نے اسے توہینِ مذہب قرار نہیں دیا۔ تین سال بعد تحقیقات سے ثابت ہوا کہ خود اسی مدرسے کے مولویوں نے شیعہ فرقے کے جلوس کو رکوانے کیلئے اپنے افراد کو قتل کرا دیا، تاکہ یہ الزام اہلِ تشیع پر ڈالا جائے۔ یعنی یہ انتہائی خطرناک لوگ جیسے دوسروں کو مارنے کیلئے خودکُش حملے کرتے ہیں، اسی طرح اپنوں کو مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

بہرحال پولیس نے پُھرتی دکھائی اور جلوس کی ویڈیو دیکھ کر شناخت پریڈ سے 110 شیعہ افراد کو گرفتار کیا، گرفتار ہونے والے افراد میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا، جس کا کسی دہشت گرد تنظیم، شدت پسند ٹولے یا کسی جرائم پیشہ حلقے سے کوئی تعلق ہو یا اُس کا کوئی کریمنیل ریکارڈ ہو۔ حراست میں لئے جانے والے لوگوں میں سکول و کالج کے طالب علم، عام دکاندار، بینکوں کے ملازمین اور سکول ٹیچرز وغیرہ شامل تھے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ راجہ بازار کے مدرسے میں قتل و غارت کی منصوبہ بندی کرنے والے مولویوں سے قصاص لیا جاتا، لیکن کیسا قصاص اور کس سے قصاص۔؟ عمران خان کی گرفتاری کے بعد حالیہ جاری فسادات میں نجانے اب تک کتنا قومی و ملکی نقصان ہوا اور مزید ہوگا؟ کتنی جانیں تلف ہوئیں اور مزید ہونگی؟ خدا جانے کتنے لوگ زخمی، مجروح اور معذور ہونگے؟ سانحہ راجہ بازار کی طرح ان فسادات کے بعد بھی بے چارے عام لوگوں کو ہی پکڑا جائے گا، انہی پر مقدمات قائم ہونگے اور بات پھر وہیں پر چلی جائے گی کہ کیسا قصاص اور کس سے قصاص۔؟

اب یہاں پر یہ عرض کر دوں کہ یہ انتہائی مشکل دور ہے۔ بلاشبہ ایسے حالات سے گزرنا انتہائی سخت ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ قومیں ان مشکل مراحل سے گزر کر ہی کندن بنتی ہیں۔ تاہم بالاخر اگر یہ ملک بچانا ہے تو مُلکی سلامتی کے اداروں کو اب اپنی پالیسی بدلنی ہوگی۔ انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قیمتی ایسٹس دہشت گرد اور گلو بٹ نہیں ہیں بلکہ اس قوم کے عوام ہیں۔ سانحہ پارہ چنار سے لے کر اسلام آباد و کراچی سمیت پورے ملک میں عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جہاں بھی کوئی قتل ہو، اُس کے قاتلوں سے قصاص لیا جائے۔ مقتول چاہے ارشد شریف ہو، عمران ستی ہو، صلاح الدین ہو یا پارہ چنار کے اساتذہ۔ ہر مقتول کے قاتل کو سولی پر لٹکایا جائے۔ قاتل بے شک وردی میں ہو یا بغیر وردی کے۔ قصاص ہی قرآن کا حکم ہے۔ اسی میں ملک و قوم کی بقا اور سلامتی ہے۔ انسانوں سے پیار کیجئے۔۔۔ قصاص لیجئے!

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=47151