16

عقائد توحید درس13

  • News cod : 50952
  • 07 اکتبر 2023 - 12:54
عقائد توحید درس13
کائنات میں ایک ہی فاعل ہے ایک ہی خدا ہے۔ اگر کوئی پتا بھی ٹوٹ کر درخت سے گر رہا ہے۔ اگر کوئی حیوان یا انسان حرکت کرتا ہے۔ سمندر کی گہرائی میں موجود مخلوق، زمین کی تہوں میں موجود مخلوق جن کو ہم دیکھ نہیں سکتے ان سب کو رزق اللہ دیتا ہے۔

توحید افعالی، کچھ اہم سوالات کے جوابات
حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

خلاصہ:
پروردگار کے افعال میں توحید:
کائنات میں جو فعل جو حرکت جو اثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ سب اللہ کا کام ہے۔

سورہ انبیاء کی آیت نمبر 22 میں ارشاد پروردگار عالم ہے:
لَوْ كَانَ فِيْـهِمَآ اٰلِـهَةٌ اِلَّا اللّـٰهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللّـٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ (22)
اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو دونوں خراب ہو جاتے، سو اللہ عرش کا مالک ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

کائنات میں ایک ہی فاعل ہے ایک ہی خدا ہے۔ اگر کوئی پتا بھی ٹوٹ کر درخت سے گر رہا ہے۔ اگر کوئی حیوان یا انسان حرکت کرتا ہے۔ سمندر کی گہرائی میں موجود مخلوق، زمین کی تہوں میں موجود مخلوق جن کو ہم دیکھ نہیں سکتے ان سب کو رزق اللہ دیتا ہے۔

یہ زمین و آسمان ، یہ چاند ستارے، کہکشائیں جو حرکت کرتے ہیں۔ یہ رات و دن کا آنا ۔ یہ موسموں کا بدلنا۔ ان سب کا فاعل اللہ ہے۔

توحید کی بحث میں سب سے اہم موضوع توحید افعالی ہے ۔ یعنی افعال کے اندر توحید افعالی ہے۔ جتنے بھی شرک و اختلافات ہوئے وہ توحید افعالی میں ہوئے ہیں۔

اگر ہم توحید افعال کو سمجھیں گے تو ہماری اپنی زندگی شرک سے پاک ہو جائے گی۔
ہم کہتے ہیں کہ تمام افعال کا مالک اللہ ہے تو یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

توحید افعالی پر اہم سوالات و جوابات:

سوالنمبر1:
آپ کیسے کہتے ہیں کہ خدا فاعل ہے جبکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چیزیں خود کام کر رہی ہیں اور فعل ان سے انجام پا رہا ہے ؟ مثلاً آگ حرارت پیدا کر رہی ہے۔
درخت اور پودے خود زمین کی خاک سے غذا لے رہے ہیں۔
حیوان خود بھاگ رہا ہے۔ انسان خود صبح سے شام تک کام کر رہا ہے؟

جواب:
فاعل کا کسی کام کو انجام دینا دو طرح سے ہوتا ہے۔ عرض یعنی ایک دوسرے کے برابر ہونا۔ اور طول یعنی آگے پیچھے ہونا۔
طول:
جیسے انسان جب پڑھتا ہے تو طول میں پڑھتا ہے۔ قدم بہ قدم بڑھتا ہے۔ اسی طرح اداروں میں چھوٹا بڑے افسر کے حکم پر کام کرتا ہے۔ ہمارے اپنے افعال طول میں ہیں جیسے ہمارا ہاتھ لکھتا ہے لیکن اسے لکھنے کا حکم ہماری روح دیتی ہے۔

عرض:
یعنی سب برابر میں کام کرتے ہیں ۔ اگر کسی سے وزن نہیں اٹھایا جا رہا تو سب مل کر اٹھاتے ہیں۔

کائنات کے اندر پروردگار عالم عرض میں کام انجام نہیں دیتا یہ شرک ہے۔
اگر ہم طول میں کام کر رہے ہیں تو بظاہر ہم کام کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کام کے لیے ارادہ اور طاقت اور عقل فکر پروردگار عالم دیتا ہے۔
ہمارا کام ایک عضو کرتا ہے لیکن فائدہ اور سزا پورے بدن کو ملتی ہے۔
اسی طرح کائنات کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے ۔ اس میں اللہ کی منشاء ہے۔

یعنی اللہ کی فاعلیت مخلوقات کی فاعلیت کے طول میں ہے۔
ایک ادارے میں ایک افسر کے ماتحت اس کے منتخب شدہ لوگ کام کرتے ہیں۔ اور اس کا حکم مانتے ہیں ۔
اگر کوئی غلطی کریں گے تو وہ سزا دے گا اور اگر کوئی اچھا کام کریں گے تو فائدہ ہوگا۔
جب کسی ادارے کی کارکردگی کو سراہا جاتا ہے تو تب بڑے کا نام لیا جاتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہے کہ کائنات خدا کا بنایا نظام ہے یہاں اللہ کی دی ہوئی طاقت سے لوگ کام کرتے ہیں اللہ ایک دستور العمل دیتا ہے جب ہم اس پر اپنی زندگی کو نہیں گذارتے تو سزا دیتا ہے اور اگر ہم اس دستور العمل کے مطابق زندگی گذارتے ہیں تو فائدہ دیتا ہے۔

اگر ہم اس توحید کو سمجھیں گے تو بہت سارے شرک سے محفوظ رہیں گے۔

سوالنمبر 2:
اللہ تو بے نیاز ہے اور کائنات میں جتنے افعال انجام دیے جا رہے ہیں وہ تو مخلوقات کام کررہی ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اللہ پیچھےہے اللہ مدد کر رہا ہے۔ ہے۔ مثلاً اولاد پیدا ہو رہی ہے تو مدد تو والدین کرتے ہیں ۔ اور جو پودے کی مدد زمین کر رہی ہے نیز ہوا اور پانی کرتے ہیں اور اگر اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے تو یہاں تو اتنی ساری چیزیں اللہ کی مدد کر رہی ہیں تو کیا یہاں اللہ کی توحید متاثر نہیں ہوگی۔

جواب:
یہ تمام نظام اللہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ اللہ کا حکم ہے کہ والدین مددگار ہوں تو اولاد ہوگی ۔ یا درخت کو غذا دینے کے لیے ہوا، سورج زمین پانی ہو۔
اور اگر وہ چاہے تو وہ پروردگار آدم و حوا کو بغیر ماں باپ کے خلق کر سکتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو بنا باپ کے خلق کر سکتا ہے۔ اگر خدا چاہے تو بارش کو بغیر بادل کے برسا سکتا ہے۔ لیکن یہ سارے نظام اللہ کے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ غنی ہے اور یہ تمام کام اس کی منشاء سے ہوتا ہے۔

سوالنمبر 3:
اگر ہمارے تمام افعال اللہ کے افعال ہیں توپھر ہم کیا ہیں یعنی ہم اگر کوئی گناہ کرتے ہیں تو پھر خدا کہاں ہے اور ہمیں کیوں سزا ملتی ہے۔ جب کہ کائنات کے تمام افعال اللہ انجام دے رہا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس سے مسلمانوں میں اختلاف ہو گئے۔

مکتب اشعری اہلسنت:
کہتے ہیں کہ جو کچھ انسان کر رہا ہے وہ اللہ کا فعل ہے۔ اور اگر کوئی گناہ کرے تو وہ اسے جہنم میں ڈال سکتا ہے کیونکہ وہ مالک و خالق ہے۔

معتزلی: (کم تعداد میں ہیں)
کہتے ہیں کہ نہیں جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں خود اپنے اختیار سے کر رہے ہیں یہ کام اللہ نہیں کر رہا۔ اسلئے اگر ہم جہنم میں ڈالے گا تو ہم خود قصور وار ہیں۔

مکتب اہلبیتؑ:
کہتے ہیں کہ خدا بھی کر رہا ہے اور ہم اللہ کی دی ہوئی طاقت اور ارادے سے کر رہے ہیں۔ اللہ نے ہمیں زندگی گذارنے کے لیے ایک دستور العمل دیا ہے۔ ہم کاملاً مجبور بھی نہیں اور بااختیار بھی نہیں۔ ہمارا اختیار خدا کی وجہ سے ہے۔ ہم اللہ سے طاقت لے رہے ہیں اور وہ کسی وقت بھی طاقت سلب کر سکتا ہے۔ اور جو افعال بھی ہم انجام دے رہے ہیں وہ اگرچہ اپنے ارادے سے دے رہے ہیں تو سزا پائے گے۔ اس نے ہمیں ایک مقررہ وقت تک چھوڑا ہے اور ہمیں ارادہ، طاقت اور دستور عمل بھی دیا ہےکہ اس کے مطابق چلو۔

توحید افعالی اہم ترین نقطہ ہے ہماری زندگی میں تاکہ ہم موحد و منتظر بنیں۔ جتنی توحید مضبوط ہوگی اتنی ہی ولایت مضبوط ہو گی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=50952