1

ماہ رمضان کے دوسرے دن کی دعا اور مختصر تشریح

  • News cod : 54648
  • 13 مارس 2024 - 18:08
ماہ رمضان کے دوسرے دن کی دعا اور مختصر تشریح
اللهمّ قَرّبْنی فیهِ الی مَرْضاتِکَ و جَنّبْنی فیهِ مِن سَخَطِکَ و نَقماتِکَ و وفّقْنی فیهِ لقراءةِ آیاتِکَ برحْمَتِکَ یا أرْحَمَ الرّاحِمین۔

اے پرورگار! آج کے دن مجھے اپنی رضاؤں کے قریب کردے۔ آج کے دن مجھے اپنی ناراضی اور سزاؤں سے بچائے رکھ اور آج کے دن مجھے اپنی آیات پڑھنے کی توفیق دے اپنی رحمت سے اے زیادہ رحم کرنے والے

دوسرے دن کی دعا کے مخصوص نکات

1۔ مجھے اپنی رضایت اور خوشنودی کے قریب کرے
2۔ مجھے اپنی ناراضی سے دور رکھ
3۔ اپنی آیات کی تلاوت کی توفیق دے

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَ مَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ وَ رِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَکْبَرُ ذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ

اللہ نے مومن مرد اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کی نیچے نہریں جاری ہوں گی -یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں -ان جنااُ عدن میں پاکیزہ مکانات ہیں اور اللہ کی مرضی تو سب سے بڑی چیز ہے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے
اللہ کی رضایت اور خوشنودی بڑی نعمت ہے پس کیسے حاصل کریں؟

حضرت موسی نے اللہ سے دعا کی کہ کوئی عمل سکھادے جس سے اللہ کی رضایت حاصل ہوجائے۔

اللہ نے حضرت موسی پر وحی نازل کی اور فرمایا اگر میری خوشنودی چاہتے ہوتو میری قضا و قدر پر راضی رہو۔ تیری زندگی میں جو کچھ تیرے لئے مقرر کیا گیا ہے شاید تیری چاہت کے مطابق نہ ہو پھر تو اسی پر راضی اور شاکر رہو میں تم سے راضی رہوں گا۔

«وَجَنِّبْنِی فِیهِ مِنْ سَخَطِکَ وَ نَقِمَاتِکَ»
دعایے افتتاح میں ہے: «اَشَدُّ المُعاقِبینَ فی موضِعِ النَّکالِ و النَّقَمَةِ» تو عذاب اور سزا دینے میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔

دعائے کمیل میں ارشاد ہوتا ہے: یَا رَبّ وَٲَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِیْ عَنْ قَلِیْلٍ مِنْ بَلَاءِ الدُّنْیَا وَعُقُوْبَاتِہَا وَمَا یَجْرِیْ فِیْہَا مِنَ الْمَكَارِھِ عَلٰی ٲَھْلِہَا فَكَیْفَ احْتِمَالِیْ لِبَلَاءِ الْاٰخِرَۃِ وَجَلِیْلِ وُقُوْعِ الْمَكَارِھِ فِیْہَا وَھُوَ بَلَاءٌ تَطُوْلُ مُدَّتُہٗ وَیَدُوْمُ مَقَامُہٗ وَلَا یُخَفَّفُ عَنْ ٲَھْلِہٖ لِأَنَّہٗ لَا یَكُوْنُ اِلَّا عَنْ غَضَبِكَ وَانْتِقَامِكَ وَسَخَطِكَ وَہٰذَا مَا لَا تَقُوْمُ لَہُ السَّمَاوَاتُ وَالْاَرْضُ یَا سَیِّدِیْ فَكَیْفَ بِیْ وَٲَنَا عَبْدُكَ الضَّعِیْفُ الذَّلِیْلُ الْحَقِیْرُ الْمِسْكِیْنُ الْمُسْتَكِیْنُ یَا اِلٰھِیْ وَرَبِّیْ وَسَیِّدِیْ وَمَوْلَایَ لِاَیِّ الْأُمُوْرِ اِلَیْكَ ٲَشْكُوْ وَلِمَا مِنْہَا ٲَضِجُّ وَٲَبْكِیْ لِاَلِیْمِ الْعَذَابِ وَشِدَّتِہٖ ٲَمْ لِطُوْلِ الْبَلَاءِ وَمُدَّتِہٖ

نہ یہ تیرے فضل کے مناسب ہے اے کریم اے پروردگار دنیا کی مختصر تکلیفوں اور مصیبتوں کے مقابل تو میری ناتوانی کو جانتا ہے اور اہل دنیا پر جو تنگیاں آتی ہیں ﴿میں انہیں برداشت نہیں کر سکتا﴾ عَلٰی ٲَنَّ ذٰلِكَ بَلَاءٌ وَمَكْرُوْہٌ قَلِیْلٌ مَكْثُہٗ اگرچہ اس تنگی و سختی کا ٹھہراؤ کم ہے یَسِیْرٌ بَقَاؤُھٗ، قَصِیْرٌ مُدَّتُہٗ اور بقاء کا وقت تھوڑا اور مدت کوتاہ ہے تو پھر کیونکر میں آخرت کی مشکلوں کو جھیل سکوں گا جو بڑی سخت ہیں۔ اور وہ ایسی تکلیفیں ہیں جنکی مدت طولانی ،اقامت دائمی ہے۔ اور ان میں سے کسی میں کمی نہیں ہو گی۔ اس لیے کہ وہ تیرے غضب تیرے انتقام اور تیری ناراضگی سے آتی ہیں۔ اور یہ وہ سختیاں ہیں جنکے سامنے زمین وآسمان بھی کھڑے نہیں رہ سکتے۔ تو اے آقا مجھ پر کیا گزرے گی جبکہ میں تیرا کمزور، پست، بے حیثیت، بے مایہ اور بے بس بندہ ہوں۔ اے میرے آقا اور میرے مولا! میں کن کن باتوں کی تجھ سے شکایت کروں اور کس کس کے لیے نالہ و شیون کروں؟ دردناک عذاب اور اس کی سختی کے لیے، یا طولانی مصیبت اور اس کی مدت کی زیادتی کیلئے۔
یقینا اللہ کا عذاب اس کی خوشنودی کے برابر نہیں ہے۔ سورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَنَ اللَّهِ کَمَن بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَیهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ کیا رضائے الٰہی کا اتباع کرنے والا اس کے جیسا ہوگا جو غضب الٰہی میں گرفتار ہو کہ اس کا انجام جہّنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے۔

عذاب الہی میں کیسے مبتلا ہوتے ہیں؟

سورہ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے: لَبِئْسَ ما قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذابِ هُمْ خالِدُونَ

انہوں نے جو کچھ اپنے لیے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ان پر ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔

ہمارے گناہ اور برے اعمال اللہ کے غیض و غضب کا باعث بنتے ہیں پس اللہ کے غیض و غضب کا باعث بننے والے اعمال سے بچنا چاہئے۔

«وَوَفِّقْنِی فِیهِ لِقِراءَةِ آیاتِکَ»

توفیق کے معنی اچھے مطلوب کی طرف پلٹانے کے ہیں یعنی اسباب اور عوامل اس طرح فراہم ہوجائیں کہ ہماری خواہش کے مطابق ہوجائین۔ یعنی خدایا اسباب کو اس طرح ہمارے لئے فراہم کرے کہ ہم تیرے کلام کی تلاوت کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

اللہ کی مدد کے بغیر ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ نہ خدا کی اطاعت کرسکتے ہیں اور نہ گناہوں کو ترک کرسکتے ہیں۔

خداوند عالم سورہ مزمل میں ارشاد فرماتا ہے: فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ یعنی تم جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو

حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن اللہ اور بندوں کے درمیان رابطے کی رسی ہے۔ جنت کی طرف لے جانے اور جہنم سے نجات دینے والا ہے۔ زمانہ گزرنے کے باوجود قرآن تازہ رہتا ہے۔ زبانوں پر اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی ہے کیونکہ کسی مخصوص زمانے سے متعلق نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کے لئے حجت اور روشن دلیل ہے۔ کسی بھی طریقے سے باطل اس میں داخل نہیں ہوسکتا ہے اور اس کو اس ذات ہے نازل کیا ہے جو لائق تعریف ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=54648

ٹیگز