ملک بھر میں آج یوم پاکستان ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے گا
انسان کامل کے لیے مذہبی دنیا میں مختلف نام ہیں ۔کبھی متقی، کبھی محسن کبھی عبادالرحمٰن اور کبھی ابرار کہا جاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں انسان کامل کے درجنوں اوصاف و خصوصیات متقی کے عنوان سے بیان فرمائی ہیں۔
حقیقت میں ایک طرف غرور وتکبرکی کمزوری سے آگاہ کر کے بچنے کی تاکید فرمائی اور ساتھ ہی اچھائیوں کی فہرست مہیا کر کے مقابلے کا میدان کھول دیا۔
انسان کو خلق کر کے اللہ سبحانہ نے اسے کمال تک پہنچنے کی راہیں بتائیں اور انہی انسانوں میں سے نبیوں اور رسولوں کی صورت میں کامل انسان نمونے کے طور پر اور ہدایت و راہنمائی کے لیے منتخب فرمائے۔
انسان جب خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے تو اللہ اسے بلند کرتا ہے اور انسان جب دوسروں کے لیے اپنے کندھے جھکا کر انھیں بلند کرتا ہے اورکندھوں پر بٹھاتا ہے
انسان کے لیے جہاں اچھائی کے کام انجام دینا ضروری ہے وہیں دوسروں کے اچھائی کے کاموں میں مدد کرنا بھی ایک فریضہ ہے۔ دوسروں کی مدد کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔
انسان اگر زندگی میں عزت کروانا چاہتا ہے تو دوسروں کی عزت کرنے سے اس کی یہ خواہش پوری ہوگی۔ اگر خود سکون سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو دوسروں کو سکون کی راہیں میسر کرنا پڑیں گی۔
انسان جسم و اعضاء کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں۔ یہ جسم کسی انسان کو بلند یا پست نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں انسان کی فکر اور اس کا عمل ہے جو اسے دوسرے انسانوں سے بڑھاتا یا گھٹاتا ہے۔
اللہ سے اس کے بندوں اور اس کے شہروں کے بارے میں ڈرتے رہو۔اس لیے کہ تم سے زمینوں اور چوپایوں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔
اس خطبے میں امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہدایت کرنے والی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں اچھائیوں اور برائیوں کو کھول کر بیان کیا ہے
امیرالمؤمنینؑ نے ان دو جملوں میں دو مشہور مثالوں کا حوالہ دیا ہے۔ یہ مثالیں قرآن میں بھی دوسرے الفاظ میں بیان ہوئی ہیں اور انبیاء و حکماء نے بھی مختلف الفاظ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔