کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) – درس11
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
نکات :جناب ابو نصر فارابی کا جملہ اپنے حجاب اٹھائیں،جناب بوعلی سینا اور محقق خوئی کی تشریح کہ کیسے انسان پر تکلیف شرعی نہیں رہتی ،حالت بیخودی کیا ہے ، جناب فہری کی تشریح، مولا علی علیہ السلام کا کمیل کو خطاب، سیر و سلوک ہماری اس اجتماعی زندگی سے ہٹ کر نہیں ہے
موضوع سخن: کتاب لقاء اللہ جو کہ آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رحمتہ علیہ نے لکھی ہے۔ اور ہمارا موضوع عارف کا سیر و سلوک ہے۔
پچھلے درس میں خواجہ نصیر الدین طوسیؒ جو کہ ایک بہت بڑی شخصیت ایک بہت بڑے معلم، فقیہ اور دانشور ہیں اور عالم اسلام کی ان عظیم شیعہ شخصیات میں سے ہیں کہ جنہیں تمام فرقہ و مذاہب کے علماء نے سراہا اور ان کی کتابوں پر حاشیہ اور شروحات لکھیں۔
ان سے ایک جملہ نقل ہوا تھا:
“عارف صاحب معارف ہے ۔ جب وہ اپنے نفس سے جدا ہوتا ہے اور دنیا کے حوالے سے تمام وابستگیوں سے جدا ہوتا ہے اور حق کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور اس وقت جو وہ دیکھتا ہے اور اسے مکاشفہ ہوتا ہے تو وہ یہ چیزیں درک کرتا ہے۔ ”
“وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں اس کی طاقت کے اندر غرق ہو چکی ہیں اور دنیا کے سارے علوم اس کے علم میں داخل ہو چکے ہیں۔ دنیا کے تمام مخلوقات اور موجودات کے جو ارادے ہیں وہ اس کے ارادے کے اندر ہیں۔ اور وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خود منبہ فیض بن چکا ہے۔”
کیوں !
اس لیے کہ وہ اس مقام پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ اس کی آنکھ اللہ کی آنکھ اس کے کان اللہ کے کان یا ہم اگر یوں کہیں کہ وہ جو آنکھ رکھتا ہے اس سے خدا دیکھتا ہے اور وہ جو کان رکھتا ہے اس سے خدا سنتا ہے۔ اور وہ جو کام انجام دے رہا ہے درواقع خدا انجام دے رہا ہے۔ اور اس وقت عارف وہ پروردگار کے اخلاق سے بالحقیقہ متخلق ہو جاتا ہے۔”
اللہ اکبر!
یہ مطلب خود اصل کتاب لقاءاللہ کا ہے۔ اور اس کتاب کے حوالے سے ایک شخصیت جناب سید احمد فہری کہ جنہوں نے اس کتاب کا مقدمہ اور اس کتاب پر مختلف حاشیے لکھے ہیں اور مختلف جگہ پر اس کی وضاحتیں لکھیں۔
انہوں نے ایک مقام پر اس کتاب پر حاشیہ لکھا ہے جو کہ اصل کتاب سے ہٹ کر ہے۔
حاشیہ کافی طولانی ہے لیکن ہم مختصر بیان کریں گے۔
جناب سید احمد فہری لکھتے ہیں کہ:
یہ جو بات خواجہ نے فرمائی یہ وہی چیز ہے کہ جو جناب ابو نصر فارابیؒ کہ جن کو معلم ثانی کہا جاتا ہے کہ جو تیسری صدی کے بہت بڑی شخصیت ہیں اور عالم اسلام کی وہ شخصیت کہ جنہیں تمام مسلمان نے جہان انسانیت کے معلم یعنی ارسطو معلم اول کے بعد معلم ثانی مانتے ہیں۔ یہ بہت بڑے حکیم، فلسفی، ریاضی دان اور بڑے بڑے علوم کے اندر ماہر اور سکالر تھے۔
ان کا ایک جملہ جو جناب فہری نقل کرتے ہیں۔
ترجمہ :
فرماتے ہیں کہ:
یہ جو آپ کے بدن پر کپڑے کا لباس ہے اس لباس سے ہٹ کر بھی ایک لباس ہے جس نے تجھ سے تجھے چھپایا ہوا ہے۔( اورجناب فہری حافظ شیرازی کے ایک مصرے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
تو خود حجابِ خودی حافظ از میان برخیز
یعنی حافظ تو خود اپنے لیے حجاب ہے اب یہاں سے اٹھ
تو جناب فارابی ؒ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے آپ کو خود چھپایا ہوا ہے لہذا کوشش کریں کہ جو ہمارے گناہوں ، آرزوؤں اور دنیاوی مسائل کا حجاب ہے کہ جس نے ہماری روح اور حقیقیت کو چھپایا ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم اپنے رشد و کمال کی جانب نہیں آرہے۔ تو کہتے ہیں کہ اپنے اس حجاب کو اٹھائیں کہ اس کو اٹھانے کے بعد آپ اس مقام تک پہنچیں گے کہ گویا پھر آپ کے لیے کوئی شرعی تکلیف ، تکلیف نہیں رہے گی۔
جب انسان یہ حجاب اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو دو چیزیں ہوتی ہیں۔
1۔ یا تم شکست کھاؤ گے تو پھر تم پر ہلاکت ہے۔
کیونکہ انسان کو شیطانی طاقتیں اور نفس امارہ آسانی سے یہ کام نہیں کرنے دیتے۔ اور کچھ لوگ سیر و سلوک کی راہوں میں غلط لوگوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں جو ان کو شیطانی راہوں میں لے جاتے ہیں۔
2۔ اگر تم سلامتی کے ساتھ اپنا حجاب اٹھا لو تو پھر تمھارے لیے بشارت ہو۔ کہتے ہیں پھر یہ وہ مقام ہے کہ اگرچہ تمھاری جان ںظاہر تمھارے بدن میں ہے لیکن لگے گا یہ جان تمھارے بدن میں نہیں ہے۔
پھر تم اس کائنات کے باطن میں داخل ہو چکے ہو۔ اور پھر تم ایسی چیزوں کو دیکھو گے کہ جسے آج تک کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور ایسی چیزوں کو سنو گے کہ جسےآج تک کسی کان نے نہیں سنا۔ اور ان چیزوں کو درک کرو گے کہ جن کا خیال آج تک کسی بشر کے دل میں نہیں آیا۔
سبحان اللہ!۔۔۔
اس کے بعد جناب فہری ؒ جناب حبیب اللہ خوئیؒ شارح نہج البلاغہ کی بات کو یہاں نقل کرتے ہیں۔
کہ جناب حبیب اللہ خوئیؒ نے جناب معلم ثانی کی بات کو نقل کرتے ہوئے کہا:
اس جملے کو شیخ الرئیس بو علی سینا بہت عظیم شخصیت انہوں نے اپنی کتاب نویں نمت میں جو کہ عرفا کے مقامات کے حوالے سے ہے۔ وہاں جناب بو علی سیناؒ فرماتے ہیں کہ:
بسا اوقات ایک عارف کو سیر و سلوک کے اندر ایک ایسی حالت حاصل ہوتی ہے کہ جسےہم بظاہر کہتے ہیں کہ ایک غفلت ہے ۔ یعنی وہ حال سے غافل ہے۔ یعنی اس کی آنکھیں کھلی ہیں لیکن وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ پھر وہ ایسے شخص کے حکم میں ہے کہ جس پر تکلیف شرعی نہیں ہے۔ تکلیف شرعی اس کے لیے ہوتی ہے جو تکلیف کو سمجھے اور تکلیف کی جانب متوجہ ہو۔
یہ جو ایک بےخودی والی حالت طاری ہوتی ہے یہ اس کی جانب اشارہ ہے۔
اسی بو علی سینا کےکلام کی شرح میں خواجہ نصیر الدین طوسیؒ فرماتے ہیں کہ۔
بو علی سینا کی مراد یہ ہے کہ ایک عارف جب کثرت عبادت اور بلآخر ریاضت اور ان تمام چیزوں کے ساتھ عالم قدس سے متصل ہوتا ہے تو ان تمام موجود چیزوں سے غافل ہو جاتا ہے۔ اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ ہمیں لگے کہ وہ اپنی تکلیف شرعی سے کچھ سستی کر رہا ہے حالانکہ اس کا اس پر کچھ گمان نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر یہ تکلیف شرعی نہ ہو کیونکہ تکلیف شرعی اس کے لیے ہے جو اس دنیا کی ظرف متوجہ ہے۔
جو اس حالت سے بے خود ہے تو پھر اس کے لیے نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس وقت پروردگار سے کاملاً متصل ہے اور دنیا سےاور اس کے امور سے غافل ہے۔
جیسے عرفاء میں سے ایک بہت بڑے شاعر خواجہ عبداللہ انصاری وہ کہتے ہیں کہ:
صاحب غلبہ عشق از خود آگاہ نیست
آنچہ مست میکند او را گناہ نیست
کہ جب عشق الہیٰ کا انسان پر غلبہ ہو جاتا ہے اور پھر جب وہ بے خود ہو جاتا ہےتو پھر وہ کسی چیز کو نہیں سمجھتا اور پھر وہ اس عالم میں جو کچھ کر رہا ہے وہ گناہ نہیں ہے۔
اب اس کے بارے میں سید احمد فہری تشریح کرتے ہیں کہ یہ جو چند ایک علماء اور بزرگان کی کلام نقل کی اس کا پھر ایک سادہ اور لطیف سا مطلب یہ ہے کہ :
انسان جب اپنے واجبات، مستحبات ، نوافل اور دعاوؤں کو انجام دیتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے تو پھر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کی آنکھ کان اور ہاتھ اللہ کی منشاء کے مطابق چلتے ہیں اور پھر وہ گویا خدا کے کان ، آنکھ اور ہاتھ ہیں۔ پھر اس کے اندر جو جوہر عبودیت ہے کہ جس میں اللہ کی ربوبیت باقی تھی وہ ظاہر ہو جاتی ہے۔
یعنی وہ اسوقت اللہ کے ارادہ سے حرکت میں ہوتا ہے اور کاملاً مشیت الہی اس کے وجود سے ظاہر ہوتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس وقت وہ جو کام کر رہا ہوتا ہے ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی نگاہ میں وہ کام گناہ ہو۔
لیکن وہ اس کام میں ایسی ہی معذور ہے جیسے جناب خضر تھے۔ حضرت خضرؑ نے جو بھی کام کئے جناب موسیٰ ؑ اس پر معترض رہے لیکن جناب خضرؑ کے سارے کام منشاء خدا کے مطابق تھے۔ بچے کو مارا وہ حکم خدا تھا۔ کشتی میں سوراخ کیا وہ حکم خدا تھا۔ اب یہاں جناب موسیٰ شریعت کے اعتبار سے اعتراض کر رہے تھے لیکن جناب خضرؑ نے جو کچھ بھی کیا وہ پروردگار فرماتا ہے کہ میرے حکم سے کیا۔
جناب خضر کا وجود دنیا میں تھا لیکن وہ پروردگار سے متصل تھے۔ اور خدا اس کے ذریعے وہ سارے کام کر رہا تھا۔
اسی لیے جناب فارابی کہتے ہیں کہ بظاہر تو اپنے بدن میں ہیں لیکن تو اپنے بدن میں نہیں ہے۔ ہم اسے موتِ اختیاری کہتے ہیں کہ بظاہر لگتا ہے کہ بدن روح سے خالی ہو اور روح پروردگار سے وصل ہو گئی ہے۔
امیر المومنینؑ کا ایک فرمان جو جناب کمیل ابن زیادؒ کو بیان کیا کہ جس میں خلفاء پروردگار اور حجت الہیٰ کا ایک مقام بیان کیا۔
فرماتے ہیں کہ :
جب حقائق پر مشتمل علم جب وسعت کے ساتھ ان الہیٰ حجتوں پر آتا ہے تو ان کی روح روحِ یقین میں بدل جاتی ہے۔ وہ مقام معرفت کے ساتھ اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ جسموں کے ساتھ اس دنیا میں جی رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی روح اعلی ترین مقامات پر پہنچ جاتی ہے یعنی روحی اعتبار سے وہ عرش پر رہتے ہیں۔
روایت :
روایت ہے کہ ابو دردہ نے امیر المومنیؑن کے ساتھ ایک رات گزاری اور اس میں ایک منظر دیکھا کہ موؑلا اپنے حال سے بے خود ہورہے ہیں مولا پر جو ایک غشی طاری ہوئی تو انہوں نے یہ سمجھا کہ امامؑ دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن سیدہ زہراؑ نے یہاں کچھ حقائق کی خبر دی
جاری ہے۔۔۔۔
کبھی بھی ان چیزوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ سارے مراحل ہماری زندگی سے ہٹ کر ہیں اسی زندگی کے اندر ہمارے آئمہؑ بھی یہی زندگی گزارتے تھے لوگوں کے درمیان، اسی معاشرے میں، اسی اجتماع میں زندگی گزارتے تھے۔
انسان اسی اپنی زندگی میں جس میں بیوی بچے بھی ہیں جس میں انسان اپنا کاروبار بھی کرتا ہے اور گھر کے امور کو بھی چلا رہا ہے یہی میں انسان ﷲ کی معرفت میں بلند ترین مقامات تک پہنچ سکتا ہے جیسے ہمارے آئمؑہ پہنچے اور ان کے شاگرد بھی پہنچے البتہ امام بہت بلند ہیں جیسے جناب کمیل ہیں اور بھی بہت ساری معتبر ہستیاں ہیں جن کے بارے میں ذکر ہوگا تو یہ ساری چیزیں ممکن ہیں کہ انسان بظاہر اس دنیا میں رہے لیکن اس کی روح پروردگار سے متصل ہو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس طرح کے منتظرین اور امام زمانہؑ کے اس طرح کے اولیاء بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
الہیٰ آمین۔
والسلام۔