کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) درس12
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
نکات :عرفاء کا جملہ، اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو دنیا میں ایسی لذت وسرور عطا کرتا ہے جسکی کوئی نظیر نہیں،امام علی ع کی عرفانی کیفیت اور مقام وجد ،ابودرداء کی حضرت فاطمہ زہراء س سے گفتگو، امام سجاد کی کیفیات اور بارگاہ الٰہی میں گریہ و غش ،شیعہ و اہل سنت ماخذات میں ہمارے آئمہ علیہم السلام کی کیفیات عبادت نقل ہونا، ابی نوح انصاری کی روایت، سفیان بن عینیہ کی روایت، طاؤوس یمانی کی حکایت ، امام سجاد ع بارگاہ الٰہی میں تضرع و مناجات ،خدا نسب نہیں عمل دیکھ رہا ہے
خلاصہ:
موضوع سخن کتابِ شریف لقاءﷲ ہے اور ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ ﷲ کی راہ میں اہل سیر و سلوک کا اشتیاق اور قرب کی جو منزلیں طے کرتے ہیں ان کا عالم کیا ہے۔
اس حوالے سے جناب سید احمد فہریؒ نے ایک حاشیہ لکھا تھا اس سے آج بھی کچھ نکات بیان ہوں گے۔
سید احمد فہری : بہت بڑے ہمارے عرفاء، علماء گزرے ہیں جیسے مرزا علی قاضی، اور مرحوم انصاری ہمدانی ان سے کچھ مطالب نقل کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ:
ﷲ کی راہ میں جو لوگ ریاضت اور سیر و سلوک کرتے ہیں خدا انہیں ایسی نعمتیں، لذتیں اور ایسا سرور عطا فرماتا ہے کہ جو خاص بندوں کے لیے ﷲ نے اسی دنیا میں رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ عالم آخرت کی نعمتیں کہاں ان کو تو ہم درک ہی نہیں کرسکتے کہ ان میں کتنی لذت و سرور ہے اور وہ نعمات کتنی عظمتوں کی مالک ہیں۔ ہم یہاں جو دنیا میں اللہ جو اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے وہ نقل کرتے ہیں کہ:
جناب فارابی کی یہ بات درست ہے کہ وہ ایسی چیزیں ہیں جو آنکھ نے نہ دیکھا ہے (عام آدمی کی آنکھ) نہ کان نے سنا ہے اور نہ عام انسانوں کے دلوں پر اس چیز نے خطور کیا ہے ﷲ تعالیٰ اپنے قرب و معرفت کی ایسی لذتیں اپنے خاص بندوں پر کرتا ہے (جو کہ انبیاء، آئمہ، اوصیاء و اولیاء ہیں)۔
بقول حافظ شیرازی کے
من امروزم بهشت نقد حاصل میشود …
وعده ی فردای زاهد را چرا باور کنم
مجھے آج نقد بہشت حاصل ہو رہی ہے یعنی دنیا میں جو سرور و لذت مجھے ﷲ کے قرب میں مل رہی ہے وہ بہشت کی مانند ہے۔ تو میں ایک خشک زاہد (جو جنگلوں صحراؤں میں پھرنے والا ہے) کے کل کے وعدے کا کیا کروں۔
اسی حوالے سے جناب احمد فہرؒی اولیا کے خاص حالات اور ان پر جو ﷲ کی عبادت میں خاص کیفیتیں طاری ہوتی تھیں اسے نقل کرتے ہیں اور جناب ابودرداء رض کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں اور یہ واقعہ علامہ مجلسی رح نے اپنی کتاب امالی میں لکھا۔
ابودرداء کہتے ہیں کہ:
میں ایک رات امیر المومنینؑ کے پاس تھا اور امیر المومنینؑ مناجات، نماز اور دعاؤں میں مشغول تھے اور یہ مدینہ سے باہر ایک جگہ تھی جہاں میں مولا ع کے ہمراہ تھا میں نے دیکھا کہ مولاؑ کی آواز آنا بند ہوگئی اور مولا ع کے وجود میں کوئی حرکت نہ تھی میں نے یہ سوچا چونکہ مولا شبِ بیداری میں تھے تو شب بیداری زیادہ ہونے کی وجہ سے نیند کا غلبہ ہوگیا ہے میں جاؤں کہ مولاؐ کو نماز صبح کے لیے بیدار کروں۔
کہتے ہیں جب میں نزدیک آیا تو دیکھا امیرالمومنینؑ ایک خشک لکڑی کی طرح زمین پر پڑے ہوئے ہیں میں نے ان کو ہلایا لیکن ان کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہوئی میں نے ان کے ہاتھ پاؤں اکٹھے کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں ہوئے تو میں نے اناللہ واناالیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ خدا کی قسم علی ابن ابی طالب ع دنیا سے چلے گئے۔
اب ابودرداء کہتے ہیں کہ: میں فوراً آیا مولاؑ کے گھر میں کہ آپ کی وفات کی خبر دوں، بی بی فاطمہؑ نے جب دروازہ کھولا اور مجھ سے یہ سب سنا تو فرمایا:
” خدا کی قسم اے ابودرداء علؑی دنیا سے نہیں گئے ان پر غشی کی حالت ہے تم نے جو ان کی حالت دیکھی ہے وہ خوف خدا سے ہوئی ہے۔”
اللہ اکبر!
یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولا علی پر ایسی حالت اکثر طاری ہوتی تھی اور بی بی فاطمہ ص آشنا تھیں بی بی نے اس حالت کو جو غش سے تعبیر کیا لیکن معلوم ہے کہ یہ وہ غش یا غشی نہیں ہے جو عام طور پر ہم لوگوں پر ہوتی ہے چونکہ ہم لوگوں پر یہ حالت غشی ہوتی ہے تو یہ گناہ گاروں کی حالت ہے نہ کہ امامؑ کی حالت۔
امام کی حالت کچھ اور تھی پر ہاں اسے تعبیر ایسے کیا گیا چونکہ اس کے علاوہ کوئی مناسب کلمہ نہیں تھا اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ اگر یہ غش کی حالت ہوتی جو ہم جیسے لوگوں کو ہوتی ہے وہ ابودرداء کو پتا نہ چلتا اور وہ موت و غش میں فرق نہ کر پاتا اور ان کے گھر والوں کو موت کی خبر دینے آجاتا پس اس کا مطلب ہے یہ غش نہیں تھا یہ غش سے بھی اوپر کی ایک حالت تھی امیر المومنینؑ اسی دنیا میں ملاقات پروردگار اور قرب کی اعلی ترین مقام پر فائز تھے۔ جب خدا کی بارگاہ میں جاتے تھے تو دنیا سے ان کا ہر طرح سے رابطہ کٹ جاتا تھا۔ یہاں تک احمد فہری کی گفتگو ختم ہوگئی۔
یہاں ہم (استاد محترم) مذید بیان کرنا چاہتے ہیں یہ حالت صرف امیر المومنین کی نہیں تھی بلکہ ہمارے باقی آئمہ ع پر بھی ایسی ہی حالت طاری ہوتی تھی یہ اولیاء کی مخصوص حالتیں ہیں اس حوالے سے ہم اپنی کتابوں میں دیکھیں اپنے آئمہ کی عبادت، ان کے راز و نیاز یہی حالتیں تھیں جو ہمارے آئمہ ع پر عبادت کے وقت طاری ہوتی تھیں۔ اور اس کا ذکر صرف شیعہ احادیث میں نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی جو روایات ہیں ان کے اندر بھی ہے۔
جیسے ایک روایت اہل سنت کی کتابوں میں آئی ہے کہ جو ابی نوح انصاری نقل کرتے ہیں کہ:
میں اس کمرے میں موجود تھا جہاں امام سجادؑ, نماز و سجدہ میں مشغول تھے اور ایک دم کمرے میں آگ لگی اور لوگوں کی آواز بلند ہوئی کہ اے فرزند رسولؐ آگ ہے آگ لیکن مولاؑ نے سجدے سے اپنا سر نہیں اٹھایا یہاں تک کہ بلآخر وہ آگ خاموش ہوگئی یا آگ کو بجھا دیا گیا۔ بعد میں جب مولا سے سوال ہوا کہ مولا آگ لگ گئی تھی آپ کو اتنی آوازیں دیں۔ مولا نے جواب میں فرمایا: “ایک اور آگ نے مجھے اس آگ سے غافل کر دیا تھا خوف خدا میں مولا کا یہ مقام تھا۔”
اللہ اکبر!
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نقل کرتے ہیں کہ:
امام سجاد علی بن الحسینؑ نے حج کیا اور احرام باندھا اور میں بھی ان کے ساتھ تھا لیکن مولا نے جب احرام باندھا تو ان کے جسم پر لرزا طاری ہوگیا اور رنگ زرد ہوگیا بدن پر ایک عجیب خضوع و خشوع کی حالت تھی اور مولا سے تلبیہ (الھم لبیک) نہیں کہا جا رہا تھا میں نے کہا مولا آپ کیوں نہیں کہہ رہے۔ تو مولا نے ایک عجیب حالت میں جواب دیا! “کہ مجھے ڈر ہے کہ میں لبیک کہوں اور مجھے جواب آئے لا لبیک۔”
اللہ اکبر!
یعنی خوف خدا میں یہ مقام تھا عرفاء کی یہ حالتیں ہوتی ہیں ہمارے آئمہ نے ہمیں یہ عرفان سیکھایا کہ اپنے اندر پروردگار کا خوف اور اس کی خشیت اپنے اندر پیدا کریں۔
ہماری کتابوں میں ایک روایت جو طاؤوس یمانی کی نقل ہوئی ہے۔
طاؤوس یمانی کہتے ہیں کہ:
میں نے مکہ میں امام سجاد ع کی زیارت کی اور بڑے عرصے سے میری یہ خواہش تھی کہ ایک رات میں مولا کے ساتھ گزاروں اور ان کو عبادت کرتا ہوا دیکھوں میں نے دیکھا مولا مسجد حرام میں ہے میں بھی ایک کونے میں بیٹھ گیا اور مولا کی طرف میری توجہ تھی اور ساتھ میں بھی نماز و دعا میں مشغول تھا چاندنی رات تھی میں نے دیکھا مولا مطاف میں داخل ہوئے ہیں اور خانہ کعبہ کا طواف کرنا شروع کردیا اور اس کے بعد امام نے نماز پڑھی اور نماز میں اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور دعا کرنی شروع کر دی۔
يا مَن يُجيب دُعاءَ المُضطرَ في الظُلَمِ
یا كاشِفَ الضَرّ و البلوَى مَع السَقَمِ
قَد نامَ وفدُكَ حَولَ البَيتِ و انتَبَهُوا
و أنتَ يا حيُ يا قَيُوم لَم تَنَمِ
أدعوكَ رَبي حَزيناً هائِماً قَلِقاٌ
فارحَم بُكائيَ بِحق البَيتِ و الحَرَمِ
إن كانَ جُودكَ لا يَرجُوهُ ذو سَفَهٍ
فمَن يَجُود على العَاصِينَ بِالكَرَمِ
ثم بكى بكاءا شديدا و انشد يقول:
ألا أيُها المَقصُود في كُلِ حاجة
شكوت إليكَ الضُر، فارحَم شِكايتِي
ألا يارجائي أنتَ تكشف كُربَتي
فَهَب لي ذُنوبيَ كُلها و إقضِ حاجَتي
أتَيتُ باعمالٍ قِباح كَثيرة و ما
في الورى عبدٌ جنى كجِنايَتي
أتحرِقُني بِالنَارِ يا غايةَ المُنَى
فأين رَجَائي؟ ثُم أينَ مَخافَتي
“ اے میرے پروردگار تو جو اس رات کی تاریکی میں اپنے مجبور بندوں کی دعاؤں کا جواب دیتا ہے اے میرے پروردگار تو جو لوگوں کے دلوں سے غم، پریشانیاں، بیماریاں سب کچھ دور کرتا ہے پروردگارا تیرے گھر کے ارد گرد یہ جو سوئے ہوئے لوگ ہیں یہ سارے تیرے مہمان ہیں جو دور سے آئے ہیں فقط تو ہے جو بیدار ہے جسے نیند نہیں آتی جو نہیں سوتا۔
أدعوكَ رَبي حَزيناً هائِماً قَلِقاٌ
فارحَم بُكائيَ بِحق البَيتِ و الحَرَمِ
پروردگارا تو نے حکم دیا تھا دعا کا میں اسے بجا لا رہا ہوں میں تیرے گھر کا فقیر ہوں اس گھر اور اس حرم کے صدقے مجھ پر رحم کر
إن كانَ جُودكَ لا يَرجُوهُ ذو سَفَهٍ
فمَن يَجُود على العَاصِينَ بِالكَرَمِ
پروردگارا اگر یہ بھی نہ ہو کہ تیری رحمت صرف تیرے اچھے بندوں کو شامل حال ہو تو پس یہ جو گناہ گار ہیں جنہوں نے فریب کھایا ہے نفس کا ، شیطان کا یہ کہاں جائیں اور کس کے در پر جا کر رحمت اور بخشش مانگیں۔۔۔”
طاؤوس یمانی کہتے ہیں: کہ مولا نے یہ جملے اتنے کہے اور اتنا گریہ کیا کہ مولا کی آواز آنی بند ہوگئی میں ان کے نزدیک گیا دیکھا کہ دیوار کعبہ کے پاس مولا بے ہوش پڑے ہوئے ہیں میں بیٹھا اور ان کا سر اپنی گود میں لیا مجھ پر رقت کی حالت طاری ہوئی میرے آنسو جاری ہوئے اور مولا کے چہرے مبارک پر میرے آنسو گرے تو ان کی آنکھ کھلی۔
فرمایا:
” میں تو اپنے رب کے ذکر میں غرق تھا کس نے مجھے رب کے ذکر سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کیا۔”
میں نے کہا: مولاؑ میں آپ کا غلام طاؤوس یمانی ہوں مولا آپ اپنے آپ کو اتنا رنج کیوں دیتے ہیں آپ کے جد رسولؐ خدا، علی مرتضیٰؑ ہیں آپ کی مادر صدیقہؑ کبری ہیں آپ کے بابا سید الشہداء ہیں کیوں اتنا آپ غمگین ہیں کیوں اتنا گریہ کرتے ہیں۔
مولا نے فرمایا:
“میرے جدؑ، میرے والدؑ، میری ماںؑ کی بات کو درمیان میں نہ لاؤ جب قیامت کا صُور پھونکا جائے گا پھر نسب، جد، ماں باپ یہ نہیں پوچھے جائیں گے اس وقت صرف عمل پوچھا جائے گا۔
فرمایا:
ﷲ تعالی نے بہشت کو اپنے اطاعت گزاروں کے لیے خلق کیا ہے چاہے وہ ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو اور جہنم کو ﷲ نے نافرمانوں کے لیے خلق کیا ہے چاہے وہ سید اور قریشی ہی کیوں نہ ہو۔”
طاؤوس یمانی کہتے ہیں: پھر مولا نے دوبارہ سجدے میں سر رکھا اور گریہ کرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے:
الھی عبیدک بفنائک ، سائلک بفںائک ، فقیرک بفنائک
” پروردگارا تیرا عبد تیرا سائل تیرا محتاج جو ہے تیرے در پہ آیا ہے تیرے آستانے پہ آیا ہے”
مولاؐ نے مسلسل یہ کلمات کہنا شروع کر دیئے۔”
عرض خدمت یہ حالتیں ہمارے تمام آئمہ کی تھیں اسی قسم کی روایات امام صادق ع، امام کاظم ع اور دیگر آئمہ ع سے بھی نقل ہوئی ہیں۔
اہل سیر و سلوک:
تو اہل سیر و سلوک وہ ہیں کہ جو اہل خشیت ہیں کہ جن پر خوف خدا طاری ہے اور اس خوف خدا کی وجہ سے کوئی اور خوف نہیں آتا نہ انہیں دنیا کی کسی طاقت کا خوف ہے نہ کسی چیز کے جانے کا غم ہے صرف اپنے پروردگار کا خوف ہے اس کے فراق کا خوف ہے اور اس سے ایک لحظہ دوری کا خوف ہے اور پروردگار کی ایک لحظہ توجہ نہ ہونے کا غم ہے۔
پروردگار ہم سب کو ایسی کیفیات اور ایسی لذتوں سے ہمیں بھی مشرف فرمائے اور ہمیں اپنی درگاہ اپنے آستان اور اپنے در پر ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم یہ رازو نیاز کریں۔