وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ حاج شیخ عباس محفوظی حوزہ علمیہ کے اساتذہ میں سے تھے اور جامعہ مدرسین کے رکن تھے۔
زندگی بھر کی علمی و تبلیغی کوششوں اور طلباء کی تدریس و تربیت کرنے کے بعد گزشتہ رات 96 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے۔
پیدائش اور بچپن:
آیت اللہ محفوظی 1307 ہجری شمسی میں رودسر شہر کے ایک گاوں میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش شب ولادت حضرت العباس علیہ السلام کے میلاد کی رات ہوئی تھی۔ ان کے والد ایک کاشتکار تھے اور بعض اوقات کاروبار بھی کرتے تھے۔
آیت اللہ محفوظی نے اپنی ابتدائی تعلیم رودسر میں مکمل کی، پھر ہائی اسکول میں داخلہ لیا لیکن تقریباً ایک سال بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے حوزہ علمیہ رودسر میں داخلہ لے لیا۔
اس وقت حوزہ علمیہ رودسر زیادہ پُر رونق مدرسہ نہیں تھا اور رضا خان کے ظلم کی وجہ سے بہت لوگ دینی علوم حاصل کرتے تھے۔ حوزہ علمیہ رودسر میں تقریباً 2 سال رہنے کے بعد آیت اللہ محفوظی نے قم آنے کا فیصلہ کیا تاکہ بہتر اساتید سے تعلیم اور زیادہ مناسب تعلیمی حالات تلاش کر سکیں۔ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے ابتدائی تعلیم سے لے کر سیوطی تک تعلمی نصاب حوزہ علمیہ رودسر میں مکمل کر لیا تھا۔
حوزہ علمیہ قم میں داخل ہونے کے بعد وہ ممتاز اور نامور اساتذہ کے زیر سایہ رہے اور بہت ہی کم وقت میں ابتدائی تعلیمی نصاب مکمل کر کے اس وقت کے مشہور علماء جیسے آیت اللہ بروجردی (رح) اور امام خمینی کے ساتھ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف اشرف چلے گئے۔
اساتذہ اور دوست:
سالوں پر مشتمل اپنے تعلیمی عرصے کے دوران آیت اللہ محفوظی نے بہت سے اساتذہ کے موجودگی کی توفیق حاصل کی۔ حوزہ علمیہ رودسر میں ان کے واحد استاد آقا سید ہادی روحانی تھے جن کی موجودگی میں آیت اللہ محفوظی نے ابتداء سے لے کر سیوطی تک اپنا تمام تعلیمی نصاب مکمل کیا۔
1324 میں قم آنے کہ بعد اُنہوں نے آقا مرزا علی راسخی، آغا شیخ حسین زرندی، آقا شیخ نعمت اللہ صالحی، مطول کو آیت اللہ مشکینی، شرح لمعہ کو آیت اللہ صدوقی، آقا سید محمد حسین درچہ ای اور آیت اللہ بہشتی سے تعلیم حاصل کی۔
رسائل کی تعلیم آقا شیخ عبد الجواد اصفہانی سے حاصل کی اور مکاسب کی تعلیم مرحوم حاج شیخ مرتضیٰ حائری اور مرحوم مجاہدی تبریزی سے حاصل کی اور کفایہ میں انکے استاد مرحوم آیت اللہ سلطانی طباطبائی تھے۔
تعلمی نصاب کی تکمیل کے بعد، درس خارج کے لیے یہ آیت اللہ بروجردی (رح)، امام خمینی (رح)، آیت اللہ مرزا ہاشم آملی (رح)، آیت اللہ محقق داماد (رح)، آیت اللہ گلپائیگانی (رح)، آیت اللہ شیخ عباس علی شاہرودی (رح) کہ پاس گئے اور ان علماء کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا۔
لیکن فقہ و اصول میں ان کے اصل استاد امام خمینی (رح) تھے۔ حکمت کے موضوع میں انہوں نے علامہ طباطبائی کی موجودگی سے فایدہ حاصل کیا کیا اور اخلاق کے اپنے تمام اساتید کے دروس میں شرکت کرتے تھے۔
اپنی تعلیمی عرصے کے دوران آیت اللہ محفوظوی کے بہت سے بزرگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور انہوں نے مباحثہ کرتے تھے جن میں سے ہم آیت اللہ محمدی گیلانی، شہید ہاشمی نژاد، شہید شیخ عبدالحسین رضائی اور شیخ محمد باقری طاہری شاہرودی کے نام ذکر کر سکتے ہیں۔
علمی اور ثقافتی سرگرمیاں:
آیت اللہ محفوظی نے اپنی زندگی کے آخر تک علم و ثقافت کہ میدان میں بہت سی خدمات انجام دی۔
انہوں نے کئ بار نئے طلاب علموں کے لیے ابتدائی کورس کو انکی آسانی کے لیے جمع بندی کی صورت میں آمادہ کیا، کئی ہونہار طلباء کو بار بار تعارفی اور جدید نصاب کی کتابیں پڑھائیں اور کئی سالوں تک فقہ درس خارج کی تعلیم دی اور بہت سے طلباء کو آپ نے اپنے درس اخلاق سے مستفید کیا۔
فکری علوم کے میدان میں انہوں نے فلسفیانہ کتابیں بھی پڑھائی ہیں جن میں سبزواری کے نظام کی تعلیم بھی شامل ہے، اس کے علاوہ، انہوں نے ولایت فقہ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے اور باقی بہت سی کتابیں ابھی زیر اشاعت ہیں۔
سیاسی سرگرمیاں:
تعلیم و تدریس کے علاوہ آیت اللہ محفوظی رضا شاہ پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے سے کبھی باز نہیں آئے اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ کی مجلس میں شرکت کرتے ہوئے اس حوزہ کے حکومت کہ مخالف بہت سے اختلافی اعلانات پر دستخط کیے۔
انقلاب سے پہلے آپ کو کئی بار ازیت دی گئی، انکوائری کے لئے بلایا جاتا رہا، جلاوطن بھی کیا گیا اور 1357 میں انقلاب اسلامی کی شاندار فتح کے بعد وہ ہمیشہ امام خمینی (رح) اور رہبر انقلاب کے ہمراہ رہے۔
آیت اللہ محفوظی 4 سال کی مدت تک مجلس خبرگان رہبری میں گیلان کی عوام کے نمائندے کی حیثیت سے رہے۔
آخرکار 20 شہریور 1403 کی شام کو طویل علالت کے بعد 96 سال کی عمر میں دیار فانی سے رخصت ہو گئے۔
خدا انکی روح کو غریقِ رحمت کرے!