حدیث شریف معراج
حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
قال الفَیْضُ رَحْمَةُ اللهِ عَلَیه: «…وَ مِنْ مَواعِظِ اللهِ سُبْحانَهُ ما رَواهُ أَبُو مُحَمَّد الْحُسَیْنُ بْنُ أَبِى الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّد الدَّیْلَمِىُّ(ره) فى آخِرِ کِتابِهِ المُسَمّى بِـ «إِرْشادِ القُلُوبِ إِلَى الصَّوابِ» مُرْسَلاً عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ (ع)، وَ رَواهُ غَیْرُهُ مُسْنَداً عَنْهُ(ع) عَنْ أَبیهِ عَنْ جَدِّهِ أَمیرِ المُؤْمِنینَ(ع) أَنَّهُ قالَ: إِنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ سَأَلَ رَبَّهُ سُبْحانَهُ لَیْلَةَ المِعْراجِ، فَقالَ: یا رَبِّ! أَىُّ الأَعمالِ أَفْضَلُ؟ فَقالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ: لَیْسَ شَىْءٌ أَفْضَلَ عِنْدی مِنَ التَّوَکُّلِ عَلَىَّ، وَالرِّضـا بِما قَسَمْتُ.
علامہ فیض کاشانی رح نے کہا: “رب کی نصیحتوں میں سے ایک حدیث ہے کہ جس کو جناب علامہ دیلمی رح نے، اپنی کتاب ارشاد القلوب کے آخر میں، امام صادق علیہ السلام سے بطور مرسل یعنی سند کے بغیر نقل کیا، جبکہ دیگر علماء نے اسے امام صادق علیہ السلام اسی طرح امام باقر علیہ السلام تا امیر المومنین علیہ السلام تک سلسلہ سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ، امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نقل کیا: مولا علی ع فرماتے ہیں:
معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے پوچھا: پروردگارا سب سے افضل چیز کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ؛میرے نزدیک مجھ پر بھروسہ اور اعتماد اور میری تقسیم پر اطمینان و رضایت سے کوئی چیز افضل نہیں ہے.
اللہ پر توکل اور اسکی تقدیر و تقسیم پر راضی ہونا سب سے افضل ہے
دوسرا حصہ
یا أَحْمَدُ! وَجَبَتْ مَحَبَّتى لِلْمُتَحآبّینَ فِىَّ، وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتی لِلْمُتعاطِفینَ[لِلْمُتَقاطِعینَ] فِىَّ، وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتى لِلمُتَواصِلینَ فِىَّ،وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتى لِلمُتَوَکِّلِینَ عَلَىَّ. وَ لَیْسَ لِمَحَبَّتى عِلَّةٌ، وَ لا غایَةٌ وَ لا نِهایَةٌ. کُلَّما رَفَعْتُ لَهُمْ عِلْماً، وَضَعْتُ لَهُمْ عِلْماً، اُولَئِکَ الَّذینَ نَظَرُوا إِلَى الْمَخْلُوقینَ بِنَظَرى إِلَیْهِمْ، وَ لَمْ یَرْفَعُوا الحَوائِجَ إِلَى الخَلْقِ، بُطُونُهُمْ خَفیفَةٌ مِنْ أَکْلِ الْحَلالِ، نَعیمُهُمْ فِى الدُّنْیا ذِکْری وَ مَحَبَّتی وَ رِضائی عَنْهُمْ.
اے احمد، میں نے اپنی محبت واجب قرار دی ہے ان لوگوں کے لیے جو میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
میں نے اپنی محبت واجب قرار دی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایک دوسرے سے میری خاطر مہربان ہیں۔
میں نے اپنی محبت واجب قرار دی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایک دوسرے کے پاس اتے جاتے ہیں میل ملاپ کرتے ہیں میری خاطر۔
میں نے اپنی محبت واجب قرار دی ہے ان لوگوں کے لیے جو مجھ پر توکل کرتے ہیں میری محبت کا کوئی (خارجی) سبب نہیں ہے نہ کوئی غرض ہے نہ کوئی انتہا ہے. (کیونکہ میری محبت کی وجہ میں خود ہوں۔)
میں ان کے لیے مسلسل علم بھیجتا ہوں اور علم کو بڑھاتا ہوں۔
وہ میری نگاہ سے مخلوقات کو دیکھتے ہیں اور کبھی بھی مخلوقات سے کوئی چیز نہیں مانگتے۔
ان کے باطن (شکم) لقمہ حلال سے بھی خالی ہیں( یعنی حلال غذا سے بھی اپنا شکم نہیں بھرتے).
*ان کے لیے دنیا کی نعمتیں میرا ذکر ہے ،میری محبت ہے اورمیری رضا ہے۔*
جاری ہے