امام علی ؑ نے فرمایا:
اِذَا رَاَيْتُمُ الْخَيْرَ فَخُذُوْا بِهٖ وَ اِذَا رَأَيْتُمُ الشَّرَّ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُ۔ (خطبہ 165)
جب بھلائی کو دیکھو تو اسے حاصل کرو اور جب برائی کو دیکھو تو اس سے منہ پھیر لو۔
انسان پر احسان جتلاتے ہوئے اللہ نے فرمایا: ہم نے ماہ رمضان میں قرآن نازل کیا جو انسانوں کی ہد ایت و راہنمائی کرتا ہے۔
اس خطبے میں امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہدایت کرنے والی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں اچھائیوں اور برائیوں کو کھول کر بیان کیا ہے ۔ اسی خطبے کے آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ جہاں اچھائیاں اور بھلائیاں پاؤ انھیں لے لو اور جہاں برائیاں اور شر نظر آئے وہاں سے منہ پھیر لو۔ یوں آپ نے اچھائیوں اور برائیوں کے بیان کا مرکز و منبع ذکر کر دیا اور پھر ان کے حصول کی طلب پیدا کرنے کے لیے بات کو دُہرایا۔ خیر و شر کیا ہے بعض حکماء نے واضح لکھا کہ جس شے میں انسان کی کوئی مادی و معنوی بہتری ہو اور انسانیت کے لیے مثبت پہلو ہو وہ اچھائی اور خیر ہے اور جس شے میں انسان کے لیے منفی و مضر اثرات ہوں وہ برائی اور شر ہے۔ یعنی اچھائی جو انسان کے کمالات کے اجاگر ہونے کا سبب بنے اور شر جو انسان کے کمال سے گرنے کا باعث بنے ۔ان بلند کرنے اور گرانے والے امور کا بہترین بیان قرآن ہے۔
جب خیر کو پا لیں تو عمل سے ظاہر ہونا چاہیے کہ آپ اہل خیر ہیں۔خیر کو تقسیم کریں۔زندگی کی مشکلات کے طوفانوں گھرے ہؤوں کا ہاتھ تھامیں ،انہیں ساتھ لے کر چلین،ان کا بوجھ اآٹھانے میں ان کی مدد کریں۔آپ پر اللہ کی رحمت ہے تو دوسروں کے لیے رحمت بن جائیں ۔ خود برائی و شر سے محفوظ ہیں تو اس سعادت کے شکرانے کے طور پر دوسروں کو برائیوں سے اور ہلاکت سے بچائیں۔
کتاب شمعِ زندگی سے انتخاب