20

عشرہ شہداء کے عنواں سےکرم میں شہداء کی یاد کو ایک انوکھے انداز سے منانے کا پروگرام ہے، علامہ عابد الحسینی

  • News cod : 6245
  • 24 دسامبر 2020 - 19:19
عشرہ شہداء کے عنواں سےکرم میں شہداء کی یاد کو ایک انوکھے انداز سے منانے کا پروگرام ہے، علامہ عابد الحسینی
حوزہ ٹائمز|انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم علاقائی پروگرام نہیں کرنا چاہتے، بلکہ شہداء کے اس پروگرام کو ہم قومی اور بین الاقوامی حیثیت دینا چاہتے ہیں، جس کے لئے ہم نے ایک بین الاقوامی شخصیت کی شہادت کا دن انتخاب کیا ہے۔ جس نے اپنی جاں ملکی سرحدوں پر نہیں بلکہ اسلامی سرحدوں پر نچھاور کی۔ جس نے اسلام کے نام پر جاں قربان کی۔ جس کی پہچان ہی بیت المقدس اور قدس سے ہے اور جسے پچھلے سال 3 جنوری کو قدس اور فلسطین کی آزادی کے لئے راہ ہموار کرنے کی پاداش میں شہید کیا گیا.

حوزہ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق علامہ سید عابد الحسینی نے اسلام ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کا فرمان ہے، کہ شہداء کی یاد منانا بھی شہادت سے کم نہیں۔ ویسے 19 رمضان المبارک کو کرم کے شہداء کی یاد میں ہر سال پروگرام منعقد کیا جاتا ہے، جسے ہم ہی نے 1982ء میں شروع کیا تھا۔ میں اس وقت مدرسہ جعفریہ کا مسئول (پرنسپل) تھا۔ بندہ، شہید عارف حسین الحسینی اور مرحوم شیخ علی مدد نے مل کر اس پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت یہ پروگرام انجمن حسینیہ کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے۔ جس میں کرم بھر کے شہداء کی تصاویر کی نمائش کی جاتی ہے۔ تاہم ہمارا ارادہ کچھ یوں ہے کہ کرم کے علاوہ دنیا بھر کے وہ شہداء جنہوں نے اسلام کی سربلندی کیلئے جانیں قربان کیں، ان کی یاد ایک انوکھے انداز میں منائی جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ ایسے شہداء کی یاد کو بین الاقومی سطح پر منایا جائے اور انہیں ایک بین الاقوامی حیثیت دی جائے۔ چنانچہ ہمارے ایجنڈے میں کشمیری اور فلسطینی کاز پر جاں نچھاور کرنے والے بھی شامل ہیں، ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اللہ کی نصرت سے یہ پیغام ہم بیرونی ممالک میں رہائش پذیر اپنے افراد کو بھی گوش گزار کریں گے کہ آئندہ سال وہاں بھی ایسے پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ  دراصل کسی بھی یاد بود پروگرام کے لئے ایک مخصوص مہینہ یا تاریخ کا انتخاب کیا جاتا ہے اور وہ کوئی ایسا دن یا مہینہ ہوتا ہے، جس میں کوئی اہم واقعہ اور حادثہ ہوا ہو۔ چونکہ ہم علاقائی پروگرام نہیں کرنا چاہتے، بلکہ شہداء کے اس پروگرام کو ہم قومی اور بین الاقوامی حیثیت دینا چاہتے ہیں، جس کے لئے ہم نے ایک بین الاقوامی شخصیت کی شہادت کا دن انتخاب کیا ہے۔ جس نے اپنی جاں ملکی سرحدوں پر نہیں بلکہ اسلامی سرحدوں پر نچھاور کی۔ جس نے اسلام کے نام پر جاں قربان کی۔ جس کی پہچان ہی بیت المقدس اور قدس سے ہے اور جسے پچھلے سال 3 جنوری کو قدس اور فلسطین کی آزادی کے لئے راہ ہموار کرنے کی پاداش میں شہید کیا گیا اور وہ ہیں جنرل شہید قاسم سلیمانی۔ لہذا ہم نے اس اہم دن کی مناسبت سے جنوری کے پہلے عشرے کو عشرہ شہدائے آزادی فلسطین و کشمیر اور شہدائے کرم کے نام سے منانے کا فیصلہ کیا۔

علامہ سید عابد الحسینی کا کہنا تھا کہ ہم علاقائی سطح پر جگہ جگہ پروگرامز منعقد کریں گے۔ جن میں اہم شخصیات کو خطاب کی دعوت دی جائے گی اور اس میں علاقائی شہداء کے علاوہ کشمیر کے اہم شہداء، مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور فلسطینی شہداء نیز کشمیری اور فلسطینی کاز پر جاں قربان کرنے والے اہم شہداء شہید قاسم سلیمانی، ابو مہدی اور انکے ساتھیوں کو خصوصی طور پر یاد کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیسے شروع میں رہبر معظم سید علی خامنہ کا قول بیان کیا کہ شہداء کی یاد شہادت سے کم نہیں۔ لہذا ایک تو شہداء کی یاد منانا باعث ثواب اور عبادت ہے، دوسری بات لوگوں میں شہادت کی روح بیدار کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک، اسلام اور اپنی سرزمین کے لئے کسی بھی وقت اپنی جاں دے سکیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر اہم واقعات کی یاد منانا ترک کی جائے تو وہ واقعات لوگوں کے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یاد شہداء خصوصاً اس کا بین الاقوامی سطح پر انعقاد اس اصل کاز کو زندہ رکھنے کا موقع فراہم کرے گا۔ دیکھیں ہم سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دنیا بھر میں مظالم دیکھتے ہیں، انہیں دیکھ کر انسان کو افسوس ہوتا ہے، جیسے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے افسوسناک واقعے پر دنیا بھر میں عوام میں افسوس اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، مگر چند ہی دن بعد تمام تر مظالم ہم بھول جاتے ہیں۔ تاہم اگر ہر سال ایک مخصوص دن کو اس حادثے کی یاد منائی جائے تو پھر عمر بھر کیلئے وہ حادثہ عوام کے ذہنوں میں باقی رہے گا۔

سابق سنیٹر نے کہا اپنے شہداء کی یاد تو انفرادی سطح پر منائی جاتی ہے۔ ہم شہداء کی یاد کو بین الاقوامی حیثیت دینا چاہتے ہیں اور یہ مقصد صرف کرم کے شہداء کی یاد سے ممکن نہیں۔ چنانچہ ہم نے بین الاقوامی شہداء کو شامل کرکے یہ قدم اٹھایا اور ویسے بھی شہداء تو شہداء ہی ہوتے ہیں، خواہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ ہمیں دنیا بھر کے ایسے شہداء کی یاد منانی چاہیئے، جن کا مشن ان کی اپنی سرحدوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ انکا مشن عالمی ہوتا ہے۔ جیسے خالد اسلام بولی اور بٹوارے سے قبل شہید ہونے والے غازی علم دین شہید اور جنرل قاسم سلیمانی شہید وغیرہ۔ ایسے عظیم شہداء کو شامل کرنے ہی سے یاد شہداء کو چار چاند لگائے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ مسئلہ فسلطین کو جو اس وقت بین الاقوامی اہمیت اور حیثیت مل گئی ہے، وہ قدس کے جلوس اور احتجاجی ریلیاں ہیں۔ جو رہبر کبیر انقلاب امام خمینی کے حکم پر جمعۃ الوداع کو عالمی سطح پر نکالی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسرائیل، اس کی حمایت اور پشت پناہی کرنے والی دنیا کی ظالم ترین ریاست امریکہ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب اس مسئلے سے جان چھڑانے کے لئے اسرائیل کی بجائے دنیا بھر میں وہی ہاتھ پاؤں ما رہا ہے۔ دنیا بھر میں خصوصاً اسلامی ریاستوں کو مختلف قسم کے مالی اور اقتصادی جھانسے دیکر مجبور کرتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرلیں۔ چنانچہ میری خواہش ہے کہ کشمیر، فسلطین اور دنیا بھر کے مظلومین کی حمایت میں بین الاقوامی سمینار اور پروگرامز منعقد کئے جائیں، ریلیاں نکالی جائیں، تاکہ دنیا بھر کی توجہ مظلومین کی طرف مبذول ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فسلطین کی طرح کشمیر کے مسئلے کو بھی ایک بین الاقوامی حیثیت دی جائے۔ ایک مخصوص دن کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیاں نکالی جائیں اور احتجاجات ریکارڈ کرائے جائیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=6245