30

ہاں! میں جہاد مغنیہ ہوں

  • News cod : 8354
  • 17 ژانویه 2021 - 23:32
ہاں! میں جہاد مغنیہ ہوں
شہید جہاد کے والد "قدس" کی آزادی کو اپنا اولین ہدف سمجھتے تھے جنکا یہ مشہور جملہ "ہدف واضح دقیق اور معین ہے اور وہ اسرائیل کا جڑ سے خاتمہ ہے" زبان زدِ عام ہے۔

اس دارِ فنا میں صرف اسی کو بقا حاصل ہے جو اپنی مقدس زندگی کو پاکیزہ طشت میں رکھ کر خدا کے حضور پیش کر دے اور خدا بھی ملائکہ کے سامنے فخر و مباہات کرتے ہوئے اس بابرکت نذرانے کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لے۔ یہ پست اور حقیر دنیا اور اسکی جھوٹی محبت نے جس کو بھی اپنا گرویدہ بنایا، خود اپنے ہاتھوں سے گلہ گھونٹ کر اسے ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیا۔ لہذا جو بھی دنیا کی محبت میں گرفتار ہوا ہلاکت اسکا مقدر بنی۔ اسی لیے دنیا کی مذمت پر مشتمل روایات ہر مکتب میں وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ اس دنیا میں جہاں مؤمنین و صالحین اور مجاہدین موجود ہیں وہیں کفار و منافقین اور ظالمین بھی موجود ہیں کہ جنکے مابین حق و باطل کا یہ معرکہ ازل سے جاری ہے۔
اسی معرکے میں پرچمِ حق کے سایے تلے مظلومین و مستضعفین کی آواز بن کر ایک مجاہد بنامِ جہاد مغنیہ قیام کرتا ہے۔ یہ شخص دنیا کی محبت سے آزاد ہوتا ہے اور شہادت کا جذبہ لیے اپنے نام کو شہداء کی اس فہرست سے منسلک کرنا چاہتا ہے جس پر سید الشہداء(س) نے اپنی نورانی مہر ثَبت کر رکھی ہے۔ یہ عظیم جوان کم عمری میں اپنے شہید والد سے حاصل کی گئی شجاعت کے جوہر دکھا کر ہر باضمیر فرد کے دل میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ انکو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ خود بھی شہید ہیں، انکے بابا بھی شہید ہیں اور انکے چچا بھی شہید ہیں۔ انکی دادی کو “اُمّ المقاومہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کے خون سے مقاومت کی آبیاری کی۔ شہید جہاد کے والد “قدس” کی آزادی کو اپنا اولین ہدف سمجھتے تھے جنکا یہ مشہور جملہ “ہدف واضح دقیق اور معین ہے اور وہ اسرائیل کا جڑ سے خاتمہ ہے” زبان زدِ عام ہے۔ شہید جہاد کے والد کو نجانے جہاد سے کس قدر عشق تھا کہ اپنے بیٹے کا نام ہی جہاد رکھ دیا اور پھر بیٹے نے بھی اپنے باپ کی امیدوں پر پورا اتر کر اپنا نام والد کے نام کے زیر سایہ رقم کر دیا۔ شہید جہاد عاشقِ جہاد و عاشقِ شہادت تھے۔ انکے افکار و نظریات میں، انکی دید میں، انکے مقدس اعضا میں خدا بستا تھا۔ دشمن انکی جہادی سرگرمیوں سے خائف تھا کیونکہ میدانِ جنگ میں دشمن انہیں انکی باطنی طہارت اور شوقِ شہادت کی وجہ سے انسانی شکل میں ایک شیر سمجھتا تھا اسی لیے تو میدان میں ان سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ شہید جہاد کو یہ مقام و منزلت اور شہادت کا یہ جذبہ انکی باطنی معنویت، باپ کی شجاعت اور ماں کی اس مقدس آغوش سے ملا جس کی آرزو جناب زہراؑ کو اپنے لختِ جگر کی شہادت کا ہدیہ بھیج کر روزِ قیامت کیلئے اپنا زادِ راہ حاصل کرنا تھی۔ شہید جہاد میدانِ جنگ میں ایسے بےباک ہو کر لڑتے جیسے وہ جنت میں اپنے مقام کو اپنی بصیرت بھری آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور فوراً وہاں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن انکی شجاعت کے سامنے پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتے تو دشمن کیسے انکا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اسی لیے جب دشمن نے خود کو انکے سامنے عاجز پایا تو انہیں فضائی حملے کے ذریعے شہید کر دیا۔ شہادت جوکہ پہلے سے ہی انکی منتظر تھی، اس نے ماں کی طرح انہیں اپنی آغوش میں لے لیا جہاں آج بھی وہ اطمئنان سے سو رہے ہیں۔ دشمن سمجھتا تھا کہ شہید جہاد کی شہادت کے بعد شاید جہاد ختم ہو جائے مگر اُس نے اپنی اِس نادانی کو دنیا میں ہی دیکھ لیا کہ ہمارے میدانوں میں جہاد تو آج بھی زندہ ہے۔ ہاں! میں جہاد مغنیہ ہوں۔

تحریر: سید محمد علی نقوی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=8354