5

قم میں علمائے ہند کا اجلاس، ہندوستان میں دینی مدارس کو فعال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، مقریرین

  • News cod : 9232
  • 29 ژانویه 2021 - 14:03
قم میں علمائے ہند کا اجلاس، ہندوستان میں دینی مدارس کو فعال کرنا وقت کی  اہم ضرورت ہے، مقریرین
حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹررضائی نے کہا کہ ہمیں ہندوستان میں ملک کے لئے خوب غور و فکرکی ضرورت ہے، یوں تو کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں 100شیعہ دینی مدارس (حوزہ علمیہ) ہیں مگر ان میں سے فقط چالیس فعال ہیں.

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ضرورتوں کے پیش نظر خوشگوار اور پیارو محبت سے بھرے ماحول میں ہم اندیشی وہمفکری باعلماء فاضل وبزرگان قوم وملت ہندوستان کے عنوان سے فقہ سپریم ایجوکیشن کمپلیکس میں ایک عظیم اجلاس منعقد ہوا۔

مدیرقرآن وعترت فاونڈیشن،علمی مرکز قم ایران حجۃ الاسلام والمسلمین سید شمع محمد رضوی نے پروگرام کی ضرورت پربھرپورروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قوم کے بزرگ علماء جوکسی وجہ سے خلوت نشین ہیں انہیں اس اجلاس کی کرسی پرلانے کی ضرورت ہے، کیونکہ انکے سایے میں تمام ہم عصردوستوں کی فعالیت پروان چڑھنے کی ضرورت ہے۔
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء کاخاص خیال رکھنے والے بزرگان ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ قوم ومعاشرہ کا رخ کس طرف ہونا چاہئے۔ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی[مدیرقرآن وعترت فاونڈیشن،علمی مرکز،قم،ایران] نے مزید ذکرکیا کہ یہ تیسراہم اندیشی اجلاس اگرچہ باتاخیرمنعقدہوا لیکن آپ بزرگوں کی تائید سے انشاء اللہ مستقل ہوتا رہے گا۔

تفصیلات کے مطابق اس پروگرام کےخصوصی مہمان جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے ثقافتی مسئول حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹررضائی نے خطاب میں کہا کہ مجھے ہندوستان کی سرزمین نے جوسب سے زیادہ متاثرکیا وہ سادگی، قناعت، پیارومحبت کا ترانہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ منتظمین ادارہ کا نہایت مشکورہوں کہ ایک بارپھربزرگوں کوایک سینٹرپردعوت دیکرپروگرام کونورانی بنایا۔

  • ہندوستان میں 100 میں سے 40 دینی مدارس کا فعال ہونا لمحہ فکریہ ہے، مقریرین

علامہ ڈاکٹر رضائی نے وفات حضرت ام البنین(س) کی مناسبت سے کہا کہ آپ نے جو ایثارو شہادت پیش کیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جبکہ آپ نے امیراالمومنین علی(ع) کے سلسلہ میں کہا کہ حضرت علی(ع) ۲۵ سال تک گوشہ نشین ضرور رہے مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ حضرت فعال نہیں تھے بلکہ ایک ایک منٹ کا حساب وکتاب تھا اورشب و روز خالق یکتا کی عبادت کیساتھ ساتھ معاشرہ اورلوگوں کی خدمت میں مشغول تھے، ہرشیدائی کے لئے آپکی زندگی درس عمل ہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو اگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اھل ہندوستان کو اپنے ملک کے بارے میں فکر کرنی چاہیے کہ آپکی زندگی کیسی ہونی چاہئے اورآپکی فعالیت کیسی ہونی چاہئے، ذرا رہبرمعظم کی راہنمائی پرغوروفکرکریں؟ رہبرمعظم انقلاب نے انقلاب اسلامی کے دوسرے قدم کے بیانیہ میں جن نکات کی جانب اشارہ کیا ہے اس میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں، حتیٰ ہندونیزیم اور بودیسٹھ کے شامل حال ہے کیوں کہ یہ بیانیہ جدید اسلامی تہذیب یعنی امام زمانہ کی عالمی حکومت کا مقدمہ ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین رضائی نے کہا کہ یقینا قطرہ قطرہ دریا شود کہ مثال اچھی ہے مگر ہم اس رفتارسے چل کر100سال بعد تک بھی علمی، اخلاقی، ثقافتی اور سماجی فعالیتوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لئے امام خمینی(رہ) کی ذات گرامی آئیڈیل ہے، ابتداء میں امام خمینی(رہ) تنہا اس فکر کے حامل تھے، انقلاب لانا کسی کے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہزاروں سالہ شہنشاہیت کونیست ونابود کرسکتے ہیں۔

انہوں نے اپنے سفر بنگلادیش کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہا کہ بہت سے لوگوں نے ہمیں بنگلادیش میں غدیر کے حوالے گفتگو کرنے کو منع کیا تھا مگر میں اس کے خلاف غدیر کا پروگرام کرنے ارادہ کیا اور چونکہ ہدف پاک وطاہرتھا غیب سے مدد ہوئی میں آگے بڑھا نتیجہ میں اھل سنت کی جامع مسجد میں آج تک غدیرکا پروگرام منایا جاتا ہے۔

حجۃ الاسلام رضائی کا کہنا تھا کہ اپ سبھی بخوبی اگاہ ہیں کہ روایت کے مطابق اربعیین شیعوں کے نزدیک ایمان کی علامتوں میں سے ایک ہے اور اس کا اھل سنت کے کیا تعلق مگر میں سے اس ملک میں نے اربعین کے مسئلے کو چھیڑا اسمیں بھی کامیاب ہوا نتیجہ میں اہل تسنن اربعین پورے شان و شوکت سے مناتے ہیں اور بعض ان ایام میں کربلا کی زیارت کو جاتے ہیں ۔

ڈاکٹر رضائی نے 20جمادی الثانیہ یوم ولایت حضرت فاطمہ زھرا(س) اور یوم مادر کے پروگرام کا تذکر کرتے ہوئے کہا کہ بنگلادیش میں ہماری ایک اور کوشش اس موقع پر اھل سنت کے درمیان محافل کا انعقاد اور اس دن کو یوم مادر کے عنوان سے قرار دینا تھا کہ الحمد للہ اس میں بھی کامیابی نصیب ہوئی، اج کافی برسوں سے اس ملک میں اس موقع پر عالیشان جشن منایا جاتا ہے اور وہاں کے اھل سنت یوم ولادت ام المومنین جناب عایشہ کے بجائے یوم ولادت حضرت زھراء (س) کو یوم مادر کے عنوان سے مناتے ہیں اور اھل سنت حضرت فاطمہ زھراء کو ماں فاطمہ کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ہندوستان میں ملک کے لئے خوب غور و فکرکی ضرورت ہے، یوں تو کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں 100شیعہ دینی مدارس (حوزہ علمیہ) ہیں مگر ان میں سے فقط چالیس فعال ہیں، جبکہ ہم نے فقط ایک شہر میں اہلسنت کے لڑکیوں کا دینی مدرسہ دیکھاجہاں 400 طالبات مشغول تحصیل ہیں، در حالاں کہ ایران کے جامعۃ الزہراء(س) میں بھی زیر تعلیم لڑکیوں کی تعداد اتنی نہیں ہے۔

انہوں نے آخرمیں کہا کہ اگرہم مکتب شہید سلیمانی کے پروردہ ہیں توہمیں قطرہ قطرہ نہیں بلکہ دریا کے انداز میں عمل کرنا چاہئے۔

ھندوستان کے فعال اوربرجستہ عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین سیدعلی دہرادونی نے بھی اس پروگرام کا پرجوش اندازسے استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ میری طبیعت ناسازرہا کرتی ہے مگراس کے باوجود اس میں شرکت کوواجب سمجھا اورہمیشہ اسمیں بڑھ چڑھکرحصہ لینے کےلئے تیارہوں۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد حجۃ الاسلام والمسلمین سید شبیہ حیدرحسینی مظفرنگری نے بھی اس پروگرام کونیک فال سے تعبیرکرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ مبارک قدم ہے، کمرہمت کسئے اور بغیرکسی نا امیدی کے یہ کاروان آگے بڑھائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم اندیشی اورہم فکری کے عنوان سے یہ اہم جلسہ منعقد ہوا توضروری یہ بھی ہے کہ جوباتیں ہوں کھل کرہوں، اشارے، کنارے اورحاشیے سے پرھیز کیا جائے۔
مصنف، مولف اورمتعدد کتابوں کے مترجم حجۃ الاسلام والمسلمین وزیرحسن مظفرنگری نے بھی ہرطریقے کے مثبت خیال کا اظہارکرتے ہوئے فعالیت کوآگے بڑھانے کی دعائیں کی اور کہا کہ ھم اندیشی اورھماھنگی کی قوم وملت کے درمیان میں شدید ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ اس قحط الرجال کے دور میں علماء وافاضل کا اس عنوان سے اپنا قیمتی وقت نکال کر بیٹھنا سبھی کے لئے ایک بڑی نعمت ہے، بزرگوں کا احترام، چھوٹوں کی حوصلہ افزائی فیوضات اوربرکات الٰہی کا سبب بنتی ہے۔
اپ نے ھندوستان کی بزرگ ھستی بانی تنظیم المکاتب مولانا غلام عسکری صاحب مرحوم کاعظیم جملہ دہراتے ہوئے فرمایا کہ ” میری قوم بےعمل نہیں بلکہ بےخبر”۔
سرزمین ھندوستان کے برجستہ خطیب وعالم حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضا حیدررضوی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ اس طرح کی بیٹھک کی سبھی ضرورت محسوس کیا کرتے ہیں، ہم سبھی اسکی کامیابی کے لئے کوششیں کریں۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، قوم و ملت کی خدمت میں ہندوستان کی بزرگ شخصیت خود آگے بڑھی، لوگ آتے گئے کاروان بنتا گیا۔
پروگرام کےکنوینرحجۃالاسلام والمسلمین سید اشہد حسین نقوی نے نشست میں شریک بزرگ علمائے کرام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بڑی محنت سےاس نشست کا اہتمام ہوا ہے جو بزرگان دعوت کے باوجود اپنی مشکلات کی وجہ سے اس نشست میں شریک نہیں ہوسکے ہیں توقع ہے کہ ائندہ کی نشست میں ضرور تشریف فرما ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ بزرگ علمائے کرام کے احترام کے پیش نظرنشست کا کلی موضوع علمائے ھند کی ھم اندیشی اور ھم فکری رکھا گیا تھا مگر

بزرگان قوم وملت نے جزئی موضوع کو خود انتخاب کرکے موضوع پرروشنی ڈالی اور جلسہ کوکامیاب بنایا۔

پروگرام کے کنوینرمولانا سید اشہد حسین نقوی کے اس سوال کے جواب میں کہ آیندہ بھی یہ پروگرام منعقد ہو یا نہیں تو تمام بزرگ علمائے کرام نے مثبت جواب دیتے ہوئے اسے کامیاب بنانے میں ہر طرح کی ہمکاری کا اعلان فرمایا اور آیندہ کے پروگرام کے موضوع کا بھی انتخاب اوراعلان کیا۔

صدرجلسہ حجۃالاسلام والمسلمین مولاناسیداحتشام عباس زیدی نے کہاکہ تنگی وقت کی وجہ سے تفصیلی جلسہ آیندہ ہوگا یہاں تک جو بھی تجویزات رکھی گئی ہیں وہ تصویب اورکامیاب ہے۔

انہوں نے پروگرام کی انتظامیہ اور اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ کسی قسم کی گھبراہٹ اورپریشانی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ اخلاص اور بغیر کسی مایوسی کے اسے آگے بڑھانا چاہئے، ہم سبھی ہمیشہ اسکی کامیابی کے لئے دعا کرتے رہیں گے۔

قرآن وعترت فاونڈیشن کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا قیصرعباس خان نےآخرمیں دعائے امام زمان(عج) کے ساتھ پروگرام کواگلے وقت تک ملتوی کیا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=9232