10

ماہ رجب نفس کی صفائی کا مہینہ

  • News cod : 10521
  • 13 فوریه 2021 - 18:00
ماہ رجب نفس کی صفائی کا مہینہ
ہم لوگ حتی اپنی اولاد کی تربیت اور اصلاح میں جتنی کوشش کرتے ہیں اتناہی کم کامیاب ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم آئینہ کی طرح صاف نہیں ہیں ۔

آ ئینہ بنو تا کہ تمہاری طرف دیکھ کر لوگوں کی اصلاح ہوجائے۔

تحریر: فدا حسین ساجدی

ہم لوگ حتی اپنی اولاد کی تربیت اور اصلاح میں جتنی کوشش کرتے ہیں اتناہی کم کامیاب ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم آئینہ کی طرح صاف نہیں ہیں ۔

آئینہ کسی کو دعوت نہیں کرتا اور آئینہ نہیں بولتا

لوگ آئینہ کو دیکھ کر اپنی اصلاح کرتے ہیں کیونکہ آئینہ اپنے عیوب سے غافل ہوکر دوسروں کے عیوب کی نشاندھی نہیں کرتا بلکہ آئینہ اتنا صاف اور پاک ہے جب لوگ اس کے سامنے آجاتے ہیں، ان کو آئینہ کی تمازت اور پاکیزگی کی وجہ سے خود بخود اپنے عیوب نظر آتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں بقول شاعر

ہم کسی اور تجسس میں پڑے ہیں ورنہ۔

آئینہ دیکھنے والے تو سدھر جاتے ہیں۔

حدیث میں آیا ہے المومن مرئآة المومن ۔

مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف ایک دوسرے کو ان کے عیوب سے آگاہ کرتے ہیں بلکہ مطلب یہ کہ مومن کا رفتار، کردار، مومن کا دل، اس کی شخصیت اس کی نیت اور اس کا ہر پہلو آئینہ کی طرح صاف اور شفاف ہوتا ہے جب دوسرے مومن اس کو دیکھتا ہے تو اس کو خود بخود اپنا عیب نظر آتا ہے اور نہ کہتے ہوئے بھی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا۔

ہم بھی اتنا صاف اور پاک بنے تاکہ لوگوں کو، ہمیں دیکھ کر اپنے عیوب کی پہچان ہوجائے۔ اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔

صائب تبریزی کہتا ہے:

{آئینہ شو جمال پری طلعتان طلب ۔

جاروب زن خانہ را سپس مہمان طلب۔}

اگر تمہاری آرزو یہ کہ تمہارا معشوق تمہیں دیکھے تو آئینہ کی طرح بنو تاکہ وہ اپنے چھرے کی طرف دیکھنے کی غرض سے ہی صحیح تمہاری طرف رخ کرے۔ اور پہلے گھر کی صفائی کرے بعد میں مہمان کو بلائے۔

ہمارے حقیقی معشوق اللہ تعالی بھی ہمارے اندر آئینہ کی طرح اپنی جلالی اور جمالی صفات دیکھنا چاہتا اس لئے اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کی ضرورت ہے

شہید مطہری اس حوالے سے ایک بہت خوبصورت نکتہ بیان کیا کرتے ہیں۔۔۔

فرماتے ہیں: ہم ہمیشہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں عطا کرے ہمیں دیں اور کبھی یہ دعا نہیں کرتے کہ ہم سے چھین لے ہم سے لے لیں جبکہ ہم اسطرح دعا کرنے کی طرف زیادہ محتاج ہیں ہماری سب سے بڑی بدبختی اور ناکامی کی وجہ ان چیزوں کی وجہ سے ہیں جو ہماری اندر ہے۔ نہ ان چیزوں کی وجہ سے جن سے ہم محروم ہیں۔

اسی لئے ہمیں خدا سے دعا کرنا چاہئے کہ ہماری اندر موجود دنیا کی، مال کی اور دولت کی محبت ہم چھین لے.

ہمیں یہ کہنا چاہئے ، خدایا ، ، یہ حسد ، یہ بغض اور الجھنیں ، اور دل کے یہ ہنگامے، ہم سے دور کردیں۔

ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہونی چاہئے کہ ہماری زندگی، ہمارا رویہ، ہمارے چال و چلن اور ہماری حرکات و سکنات اللہ کی مرضی کے مطابق ہو۔ اس کے لئے ہمارا دل، ہمارا وجود، ہماری حقیقت اور ہماری شخصیت آئینہ کی طرح پاک صاف ہونے کی ضرورت ہے۔

جب تک ہم تمام بری صفات اور اخلاق سے صاف نہ ہو اس وقت تک اللہ کی عطائیں ہماری ہدایت میں زیادہ موثر نہیں ہونگے۔

مولانا رومی نے کیا خوب کہا ہے۔ اول ای دوست دفع شر موش کن ۔

بعد از آن در جمع گندم کوش کن۔

پہلے چوہے کا خطرہ دفع کرے اس کے بعد گندم جمع کرنے کی کوشش کریں۔

وہ ایک اچھی مثال کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتا ہیں کہ جب تک ہم اندرونی صفات اور خصلتوں سے پاک نہ ہو اس وقت تک ہمارے بیرونی کوششیں اور اچھے اعمال مفید نہیں ہونگے۔۔

ایک دن سکول کے بچوں کو سیر و تفریح کے لئے لے کر گئے۔ جب ان کی گاڑی جا رہی تھی تو ایک ٹونل سامنے آیا ڈرائیور نے یہ سوچ کر کہ ہمیشہ اسی راستے سے جاتے ہیں ٹونل کے اندرچلا گیا ، گاڑی ٹونل کے اندر پھنس گئی کیونکہ گاڑی کی چھت ٹونل کی چھت کے ساتھ ٹکرا رہی تھی اس مشکل کی گھڑی میں ڈرائیور اور دوسرے بڑے جو لوگ جو وہاں پر موجود تھے اس مشکل کے حل کے لیے سوچنے لگے تو پتہ چلا کہ سڑک کو دوبارہ تڑکول لگانے کی وجہ سے اوپر آ گئی ہیں اور گاڑی کی چھت ٹونل کی چھت کے ساتھ ٹکرا رہی ہے۔

اتنے میں چھوٹا سا بچہ گاڑی سے اترا اور کہنے لگا کہ اس مشکل کا حل میرے پاس ہے میں تمہیں بتا سکتا ہوں پہلے تو انہوں نے یہ سوچ کر کہ بچہ کیا بتا سکتا ہے، اس کو ڈانٹا اور کہا کہ تم واپس بس میں چلے جائیں۔ بچہ مصر تھا کہ میں اس کا حل بتا سکتا ہوں جب پوچھا گیا کہ تم کیسے اس مشکل کا حل بتا سکتے ہو تو اس بچے نے کہا کہ تم ٹائر سے ہوا نکال دو تو گاڑی نیچے آ جائے گی اور آسانی کے ساتھ باہر نکل سکتی ہے جبکہ بڑے لوگ اس حوالے سے سوچ رہے تھے کہ یا ٹونل کی چھت توڑ دی جائے یا سڑک کا اوپر والا حصہ اور مشکل کو باہر سے حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ بچہ نے کہا کہ اس کے اندر جو ھوا ھے اسے نکال دی جائے تو مشکل حل ہوجائیں گی تو اس واقعہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم ہمیشہ مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے باہر سے راہ حل کی تلاش میں ہوتے ہیں جبکہ حل ہمارے اندر ہے اگر ہم تکبر، کینہ، بغض، عداوت اور حسد و۔۔۔ جن کی وجہ سے ہم اپنی زندگی کے مسیر میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو دور کریں تو زندگی کی سارے مشکلات حل اور راستے کھلتے جائیں گے ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=10521