12

کشمیریوں کا ہیرو۔۔۔ مسٹر گاندھی یا مسٹر جناح

  • News cod : 10778
  • 17 فوریه 2021 - 10:57
کشمیریوں کا ہیرو۔۔۔ مسٹر گاندھی یا مسٹر جناح
فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کی مدد و نصرت کیلئے عرب و عجم سے صدائیں بلند ہونی چاہیے۔ اگر کشمیر میں ہونے والے ظلم سے ہم بے تاب نہیں ہوتے تو ہمیں اپنے ایمان اور مسلمان ہونے پر شک کرنا چاہیے۔

تحریر: نذر حافی
۴ جنوری ۲۰۲۱ کو ایران کے شہر قم المقدس میں ایک انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس منعقد ہوئی، کانفرنس کا مقصد کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرنا تھا۔ کانفرنس سے آنلائن خطاب پاکستان سےمرکزی امیرجماعت اہل حرم مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے کیا۔ اس موقع پر مفتی صاحب نے انتہائی مدلل انداز میں اسلام کی آفاقیت کو بیان کیا۔ اُن کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک کامل دین ہے اور مسلمان جسدِ واحد کی مانند ایک قوم ہیں۔ اگردنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو اس کا درد سارے مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کی مدد و نصرت کیلئے عرب و عجم سے صدائیں بلند ہونی چاہیے۔ اگر کشمیر میں ہونے والے ظلم سے ہم بے تاب نہیں ہوتے تو ہمیں اپنے ایمان اور مسلمان ہونے پر شک کرنا چاہیے۔
اگر ہم توجہ فرمائیں تو محترم مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے اپنے خطاب میں ہمیں نظریہ پاکستان کی ہی یاد دہانی کرائی ہے۔اُمت مسلمہ کے ایک ملت ہونے کا یہی وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے پاکستان کو حاصل کیا تھا، اور اسی نظریے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کشمیر کے مسلمان آج تک قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کا یہی مطالبہ ہے کہ وہ بحیثیت مسلمان ایک قوم ہیں اور بحیثیت مسلمان قوم انہیں ہندوستان کی غلامی قبول نہیں۔ جس غلامی سے نجات کیلئے پاکستان بنایا گیا تھا، کشمیری بھی اسی غلامی سے نجات کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کا نظریہ کوئی جذباتی یا غیر سنجیدہ نظریہ نہیں ہے۔ اس نظریے کے پیچھے قرآن و سنت کی تعلیمات کا سمندر موجزن ہے۔ نظریہ پاکستان یا دوقومی نظریے کے تینوں اہم رہنما ﴿سرسید احمد خان، علامہ اقبال اور قائداعظم ﴾پہلے پہل امت مسلمہ کے بجائے ہندوستان کی متحدہ قومیت کے ہی علمبردار تھے۔ انہوں نے بڑی فراخدلی کے ساتھ ہندووں اور مسلمانوں کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کی۔ سرسید تو ہندووں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں قرار دیتے تھے، علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ، اور قائد اعظم محمد علی جناح تو کانگرس کے عملی رہنما تھے اور انہیں ہندومسلم اتحاد کا سفیر بھی کہاجاتا تھا۔ان تینوں شخصیات نےکئی برس تک ہندومسلم اتحاد کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔یہ صرف باتیں کرنے کے بجائے عملی اقدام کرنے والے لوگ تھے۔ ان کی ساری جدوجہد کو ہندو اکابرین اور برہمن سماج نے ان کے منہ پر دےمارا۔ آج بھی لوگ مسٹرگاندھی اور نہروکو ایک سیکولر اور وسیع القلب رہنما کےطور پر پیش کرتے ہیں۔ ایسے افراد شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر مسٹرگاندھی اور نہروسیکولر اور وسیع القلب ہوتے تو علامہ اقبال اور قائداعظم جیسی شخصیات ان سے اپنا راستہ جدا نہ کرتیں۔ نہ ہی تو وہ لوگ سیکولر تھے اور نہ ہی ان کا بنایا ہوا ہندوستان سیکولر ہے۔ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر میں آج بھی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
بعض احباب کہتے ہیں کہ مہاتما گاندھی صاحب نے کہاتھاکہ میں نے انقلاب کا درس حضرت امام حسین سے سیکھا ہے۔ ایسے احباب کو معروف ہندو دانش مند مسٹر چانکیہ کی تصنیفات اور ارتھ شاستر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔مسٹرگاندھی ایک پڑھے لکھے اور تجزیہ و تحلیل کرنے والے انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں ارتھ شاستر کا پرتو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔وہ ماہر سیاستدانوں کی طرح ہی ماحول اور حالات کے مطابق بیانات دیتے تھے۔ ماہر سیاستدان اسی طرح کیا کرتے ہیں، وہ عیسائیوں میں حضرت عیسیٰؑ ، یہودیوں میں حضرت موسیٰ ؑ اور سکھوں میں بابا گورونانک سے سیکھنے کی بات ہی کرتے ہیں۔انسان کس کا پیروکار ہے اور اس نے کس سے سیکھا ہے اس پر اس کا عمل ہی بہترین گواہ ہوتا ہے۔ اگر امام حسینؑ سے سیکھنے کی بات ہے تو پھر ہر منصف مزاج انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا آنجہانی گاندھی کی فکر اور تحریک قرآن و سنت اور امام حسینؑ کی تعلیمات کے مطابق تھی یا قائداعظم محمد علی جناح کا راستہ قرآن و سنت اور امام حسینؑ کے مطابق تھا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=10778