17

جامعۃ المنتظر لاہور میں جشن مولود کعبہ کا انعقاد/حضرت امیر المومنینؑ کی ذات برکات اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، علامہ افضل حیدری

  • News cod : 11898
  • 26 فوریه 2021 - 16:33
جامعۃ المنتظر لاہور میں جشن مولود کعبہ کا انعقاد/حضرت امیر المومنینؑ کی ذات برکات اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، علامہ افضل حیدری
جشن سے خطاب کرتے ہوئے مہتمم اعلیٰ جامعۃ المنتظر لاہور اور وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ افضل حیدری نے کہا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ذات برکات اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ان کی زندگی کے تمام پہلو اس لائق ہیں کہ ان کو اپنااسوہ اور آئیڈیل دیکر ہم اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق سنواریں اگر حضرت علیؑ کی زندگی کا کوئی پہلو سامنے رکھیں تو اس میں تکامل اور کمال نظر آئے گا

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور میں میلادِ مولودِ کعبہ امیر المومنین امام علیؑ کی مناسبت سے عظیم الشان جشن کا انعقاد کیا گیا۔

جشن سے خطاب کرتے ہوئے مہتمم اعلیٰ جامعۃ المنتظر لاہور اور وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ افضل حیدری نے کہا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ذات برکات اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ان کی زندگی کے تمام پہلو اس لائق ہیں کہ ان کو اپنااسوہ اور آئیڈیل دیکر ہم اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق سنواریں اگر حضرت علیؑ کی زندگی کا کوئی پہلو سامنے رکھیں تو اس میں تکامل اور کمال نظر آئے گا ہمیں دنیا اور آخرت میں کمال چاہتے ہیں تو میں امیر المومنین کی سیرت طیبہ پہ عمل کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ اللہ اس کائنات کا خالق ہے۔ جتنی مخلوقات کو خلق کیا ہے ۔ اللہ نے مخلوقات میں سب سے افضل اور اشرف مخلوق انسان کو قرار دیا ہے۔ اور اللہ نے اپنی مخلوق میں سے کچھ انسانوں کو عہدہ رسالت اور نبوت پر فائز فرمایا۔ رب العزت نے رسول(ص) اور نبی بھی ایک جیسے نہیں بنائے تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض ۔ اللہ نے ان کے ولادت کا خاص اہتمام فرمایا۔

انکا مزید کہنا تھا کہ اللہ نے حضرت آدم ع کو چنا اورتخلیق کا انوکھا انتظام فرمایا نہ ماں کی ضرورت نہ باپ کی ضرورت اور پہلے مرحلے میں عزت اتنی عطا فرمائی کہ مسجود ملائک قرار پائے۔ لیکن یہ بلندی کا بلند ترین مقام نہیں تھا۔ اسلئے کہ جب ملائک سجدے سے فارغ ہوگئے اللہ کا حکم ہوا ارفع راسک یا آدم آدم اپنا سر اٹھا عجیب منظر دیکھا ایک نور ہے جو عرش الٰہی کا طواف کر رہا ہے۔ آدم نے پوچھا یہ کون ہے؟ ارشاد رب العزت ہوا آدم ع اگر یہ نہ ہوتے میں تجھے بھی خلق نہ کرتا۔ آدم ع بہت عظیم مقام پر فائز ہے لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہے جو ان سے بھی عظیم ہیں۔
پھر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ کچھ چیزیں ہم نے آدم ع کو سیکھائیں۔ کچھ نام سیکھائے۔ اس اول تخلیق میں کچھ ہستیاں ایسی تھیں جنکے فقط نام بتانا ہی سچے ہونے کی دلیل تھی۔ جب فرشتوں سے کہا گیا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو ان ہستیوں کے نام بتاو لیکن فرشتے نہ بتاسکے اور آدم ع کو حکم ہوا اے آدم ع تم ان کو بتاؤ اس وقت آدم ع نے بتایا۔
یہ محمد ص ہیں ، یہ علی ع ہیں، یہ فاطمہ س ہیں، یہ حسن ع ہئں، یہ حسین ع ہیں۔ اللہ نے حضرت ابراہیم کو عزت عطا فرمائی اور ان کی تخلیق میں خاص اہتمام فرمایا۔ حضرت ابراہیم ع ۶ سال یا ۸ سال تک اس غار میں رہے جہاں ماں نے جنم دیا تھا۔ پھر جب ابراہیم ع کو امامت کا عہدہ عطا کرنے کیلئے امتحان لیا اور جب امتحان میں کامیاب ہوئے تو فرمایا ھم تمہیں لوگوں کا امام بناتے ہیں غور کرنا اللہ نے جسے عام لوگوں کیلئے امام بنانا تھا اسے ایک غار میں پیدا کیا اور جسے اللہ نے متقیوں کا امام بنانا تھا اسے اپنے گھر میں پیدا کیا۔
علامہ افضل حیدری نے مزید کہا کہ اللہ نے جسے عام لوگوں کا امام بنانا تھا اسے بھی بت شکن بنایا جسے متقیوں کا امام بنانا تھا اسے بھی بت شکن بنایا۔لیکن دونوں کی بت شکنی میں فرق یہ ہے کہ جسے عام لوگوں کیلئے امام بنایا اس نے بت توڑے زمین پر کھڑے ہوکر اور جسے متقیوں کا امام بنایا اس نے بت توڑے مہر نبوت پہ سوار ہوکر۔ اللہ نے حضرت موسی ع کو بلند مقام عطا فرمایا انکی ولادت پر خاص اہتمام فرمایا۔ قرآن میں دیکھیں کہ کتنا خاص اہتمام کیا۔چند دن کا بچہ ہے صندوق میں بند ہے اور دریا کے حوالہ کیا جائے۔ کتنا قادر ہے وہ خالق جس نے موسی ع کو قتل ھونے سے بچانے کا اہتمام کررکھا تھا اس اللہ نے اسی موسی ع کو اسی فرعون کی گود میں پروان چڑھایا۔ اتنا ھی اہتمام حضرت عیسی ع کو عطا فرمایا انکی ولادت کا کتنا اہتمام کیا بغیر باپ کے دنیا میں بھیجا حضرت عیسی ع کا بڑا مقام ہے۔ آج بھی ان کے ماننے والے لوگ دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ بڑا مقام عطا فرمایا۔ ماں کو بیت المقدس میں رکھا بغیر باپ کے پیدا کیا۔ اللہ نے تین دن کے بچے کو بولنے کی طاقت عطا کی۔
اللہ نے عیسی ع کو بڑا مقام عطا کیا لیکن فرق کتنا ہے جب اسکی ولادت کا وقت آیا تو حکم رب العزت ہوا ۔ مریم س یہ بیت المقدس ہے فلاں کھجور کے درخت کے نیچے چلی جاؤ۔ عیسی ع انتی عظمت کے مالک ھوبے کے باوجود عیسی ع کی ماں کو بیت المقدس سے نکال دیا جاتا ہے اور حضرت علی ع انتی عظمت والے ھیں کہ فاطمہ بنت اسد (س) کو کعبہ میں بلایا جاتا ہے۔ اور سید الانبیاء کی تخلیق کا و ہ اہتمام کہ خود خالق فرماتا ہے کہ لولاک لما خلقت الافلاک میرے حبیب ہم نے تو آپ کو اپنی معرفت کیلئے خلق فرمایا۔ اللہ رب العزت نے مقام عطا فرمایا سید الانبیا کو اللہ نے جس کعبہ کو میرے امام کی ولادت کی جگہ کیلئے منتخب فرمایا تھا اسے تعمیر معصوم نبیوں کے ذریعے کروایا۔اور اللہ نے یہ عظمت میرے امام کو عطا فرمائی کہ سوائے میرے امام کے کائنات میں کوئی ہے ہی نہیں جو خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوا ہو۔

انکا مزید کہنا تھا کہ امام جعفر صادق ع سے ایک روایت اصول کافی میں نقل ہوئی ہے جب پیغمبر اعظم کی ولادت ہوئی تو جناب آمنہ نے حضرت ابوطالب ع کو مبارک دی اس وقت جناب ابوطالب ع نے فرمایا ؛ اے آمنہ صبر کر پچیس سال بعد میں بھی اس جیسے بیٹے کی تجھے بشارت دونگا فرق صرف نبوت کا ہے آج آنے والا نبی ہے وہ آنے والا علی ع ہوگا۔ انہوں نے ابوطالب ع کو پہچانا ہی نہیں ، پیغمبر کے ولادت کے دن ہی بتارہا ہے کہ یہ نبی ص ہے۔ جبکہ ولادت کے بعد جناب فاطمہ بنت اسد س نے پیغمبر اکرم ص کے دست مبارک پر رکھتے ہوئے عرض کیا تین دن ہوگئے رویا ہی نہیں۔ پیغمبر ص نے کہا یا علی ع اقرا۔۔۔ پڑھو نا۔ پیغمبر کی طرف دیکھ کے علی ع کہتے ہیں یا رسول اللہ تورات پڑھوں، انجیل پڑھوں، زبور پڑھوں یا قرآن پڑھوں جو ابھی لوح محفوظ سے اترا ہی نہیں۔ یا علی ع ذرا قرآن پڑھو نا، علی ع نے دست نبوت پہ قرآن نازل ہونے سے دس سال پہلے پڑھا قد افلح المومنون۔۔اُس وقت پیغمبر ص نے فرمایا مومن کامیاب ہونگے تیری ولایت اور محبت کے صدقہ میں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11898