10

حسینی تحریک کے اہداف

  • News cod : 1486
  • 03 سپتامبر 2020 - 19:26
حسینی تحریک کے اہداف
حوزہ ٹائمز|جب کوئی طاقت تمام سماجی وسائل کے ساتھ کسی سماج پر غالب ہو اور ظلم و جور کا راستہ اختیار کرے اور آگے بڑھے تو اگر حق کے علمبردار اس کے سامنے نہ کھڑے ہوں اور اس کے راستے کو نہ روکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تائید کرتے ہيں۔

پیغام رسانی کے لئے حسینی کلام کی مدد لیجئے

رہبر معظم انقلاب اسلامی

میں امام حسین علیہ السلام کے اقوال او خطبوں میں، کہ جو اہم نکات سے لبریز ہیں اور میرا مشورہ ہے کہ لوگوں سے ر‎‎سا و واضح زبان میں بات کرنے کے لئے آپ امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور خطبوں سے زيادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس جملے کو اس نشست کے لئے مناسب سمجھتا ہوں جس میں آپ نے فرمایا ہے : «اللّهم انّك تعلم انّ الّذى كان منا لم يكن منافسة فى سلطان ولاالتماس شى‏ء من فضول الحطام»؛ پروردگارا! یہ جو ہم نے اقدام کیا ہے، یہ جو ہم نے قیام کیا ہے، یہ جو ہم نے فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں تجھے معلوم ہے کہ وہ اقتدار کے لئے نہیں ہے۔ اقتدار کسی انسان کا ہدف نہيں ہو سکتا۔ ہم عنان حکومت ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے، دنیوی جاہ و مقام کے لئے بھی ہمارا قیام نہیں ہے کہ ہم پر تعیش زندگی گزاریں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھائيں، مال و دولت جمع کریں ۔ ان سب چیزوں کے لئے نہيں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کس لئے ہے ؟ آپ نے کچھ جملے فرمائے ہیں جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں ہر دور کے لئے یہ ایک درس اور رہنمائی ہے ۔ «ولكن لنرى المعالم من دينك» دین کے پرچم لوگوں کے لئے لہرائيں اور (یہ پرچم) اس(دین) کی نشانیاں ان(لوگوں) کی نظروں کے سامنے لے آئيں۔ نشانیاں اہم ہیں۔ شیطان ہمیشہ اہل دین کے درمیان تحریف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غلط راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا بس چلے تو لوگوں کو دین سے علاحدگی پر اکساتا ہے تاکہ زہریلے پروپیگنڈوں اور نفسانی خواہشات کی آگ بھڑکا کر لوگوں سے ان کا دین و ایمان چھین لے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو یہ کرتا ہے کہ دین کی علامتوں اور مظاہر کو غلط جگہوں پر نصب کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ جب کسی سڑک پر چل رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ علامت کسی ایک سمت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ اب اگر کسی بدعنوان شخص نے اس علامت کوبدل دے اور اسے دوسری سمت میں موڑ دے۔ (تو اس کا نتیجہ راہرو کی گمراہی کی صورت میں نکلے گا۔) امام حسین علیہ السلام اپنا اولین ہدف یہ قرار دیتے ہیں : «لنرى المعالم من دينك و نظهر الاصلاح فى بلادك»؛اسلامی ممالک سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ دیں اور اصلاح کریں۔ اصلاح یعنی کیا ؟ یعنی بدعنوانی کا خاتمہ۔ بد عنوان یعنی کیا ؟ بدعنوان کی بہت سی قسمیں ہیں: چوری بدعنوانی ہے، غداری بدعنوانی ہے، دھونس و دھاندلی بدعنوانی ہے، اخلاقی انحطاط بدعنوانی ہے، غبن بدعنوانی ہے، اپنوں سے دشمنی بد عنوانی ہے، دین کے دشمنوں کی طرف جھکاؤ بد عنوانی ہے، دین مخالف چیزوں میں دلچسپی کا مظاہرہ بدعنوانی ہے۔ سب کچھ دین کے سائے میں وجود پاتا ہے۔ اس کے بعد کے جملوں میں آپ فرماتے ہيں: «و يأمن المظلومون من عبادك»؛ تاکہ تیرے مظلوم بندے محفوظ رہیں، اس سے مراد سماج کے مظلوم لوگ ہیں، نہ کہ ظالم، نہ ظالمانہ روش رکھنے والے، نہ ظلم کی تعریف کرنے والے، نہ ظالموں کے ہرکارے ! مظلوم وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس کچھ نہ ہو، کوئی چارہ نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ سماج کے ستائے ہوئے لوگ اور کمزور افراد چاہے جس سطح پر اور چاہے جہاں ہوں انہیں تحفظ حاصل ہو۔ عزت آبرو سلامت رہے، مال و دولت سلامت رہے، انصاف کے تقاضے پورے ہوں، یہ وہ چیزیں ہیں جو آج دنیا میں نہيں ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اس صورت حال کے بالکل مخالف سمت میں جانا چاہ رہے تھے جو اس ظالمانہ دور پر محیط تھی۔ آج بھی اگر آپ دنیا کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ پھر وہی حالات ہیں۔ دین کے پرچم کو ہٹایا جا رہا ہے، خدا کے مظلوم بندوں پر مزید ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور ظالم کے ہاتھ مظلوموں کے خون میں سنتے جا رہے ہیں۔ دیکھیں دنیا مں کیا ہو رہا ہے؟! دیکھیں کوسوو کے مسلمانوں کےساتھ کیا ہوا؟! پانچ لاکھ بلکہ اس سے بھی زيادہ، انسانوں، بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں اور بیماروں کے ساتھ کیا کیا گیا؟! صحراؤں میں، سرحدوں پر، وہ بھی پر امن سرحدوں پر نہيں، دشمن کے سامنے وہ بھی ایسے دشمن کے سامنے جو ان کے راستے پر بارودی سرنگ بچھاتے ہيں ، اور پیچھے سے گولیاں برساتے ہيں، مقصد ان سب کو ختم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، بس یہ عرض کر دوں کہ منصوبہ یہ ہے کہ بلقان میں مسلمانوں کو تباہ اور بکھیر دیا جائے۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت، ایک اسلامی گروہ کی تشکیل کو روک دیا جائے۔ خواہ وہ جیسی اسلامی حکومت ہو۔ چاہے ایسا اسلامی گروہ ہو جس کے کانوں تک سو برسو‎‎‎ں سے صحیح اسلامی تعلیمات نہ پہنچی ہوں۔ کیونکہ وہ بھی ان کے لئے خطرناک ہے! انہیں معلوم ہے کہ اگر بلقان کے مسلمانوں کی آج کی نسل مثال کے طور پر اسلام سے آشنا نہ بھی ہو تب بھی ان کی کل کی نسل اسلام سے آشنا ہو جائے گی۔ ان کے اندر اسلامی شناخت اور اسلامی بیداری خطرناک ہے۔ ان کے کچھ لوگوں نے اپنے بیانوں میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں لیکن اس ٹکراؤ اور لڑائی میں جس چیز پر توجہ نہیں ہے اور جس چیز کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور بس زبانی طور پر کچھ باتیں کہی جاتی ہيں وہ مظلوم مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ «يأمن المظلومون من عبادك». ہر قیام ، ہر انقلاب، ہر اسلام پسندانہ اقدام بلکہ دین خدا کے اقتدار کا مقصد، مظلوموں کی حالت پر توجہ اور الہی فرائض و احکام پر عمل در آمد ہے۔ امام حسین علیہ السلام آخر میں فرماتے ہیں : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك». آپ کا مقصد یہ چیزیں ہیں ۔ اب مثال کے طور پر کوئی صاحب کہیں سے آتے ہیں اور اسلامی علوم اور امام حسین علیہ السلام کے بیانات سے معمولی سی آشنائی اورعربی زبان کے ایک لفظ سے بھی واقفیت کے بغیر، قیام حسینی کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہيں کہ امام حسین علیہ السلام نے فلاں ہدف کے لئے قیام کیا تھا ! (تو سوال اٹھتا ہے کہ) آپ یہ کہاں سے کہ رہے ہیں؟ یہ امام حسین علیہ السلام کا کلام ہے : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك»؛ یعنی امام حسین علیہ السلام اپنی اور اس دور کے پاکیزہ ترین انسانوں کی جانیں قربان کرتے ہیں تاکہ لوگ الہی احکام پر عمل کریں۔ کیوں؟ کیونکہ سعادت الہی احکام پر عمل میں ہے ۔ کیونکہ انصاف، دینی احکام پر عمل میں ہے کیونکہ انسان کی آزادی و حریت، دینی احکام پر عمل میں ہے۔ وہ آزادی کہاں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ دینی احکام کے زیر سايہ ہی انسانوں کی آرزوئيں پوری ہوتی ہیں ۔ آج کا انسان ، ایک ہزار سال قبل یا دس ہزار سال قبل کے انسان سے، بنیادی ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف نہيں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہ ہیں: وہ امن و تحفظ چاہتا ہے، آزادی چاہتا ہے، شناخت چاہتا ہے، پر سکون زندگی چاہتا ہے۔ امتیازی سلوک سے دوری چاہتا ہے۔ ظلم سے بچنا چاہتا ہے۔ ہر زمانے کی ضرورتوں کی تکمیل، ایسی چیز ہے جو ان ضرورتوں کے دائرے اور سائے میں ممکن ہے۔ یہ بنیادی ضرورتيں صرف دین خدا کے سائے میں ہی پوری ہو سکتی ہیں اور بس۔ یہ دنیا کے تمام ازم اور یہ انسانی مکاتب فکر اپنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ، انسانوں کو نجات دینے پر قادر نہيں ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مادیات، یعنی دولت، وہ بھی دولت کی ہر قسم کچھ لوگوں کے لئے اچھی زندگی کا باعث بنتی ہیں لیکن کیا یہ انسان کی ضرورت ہے؟ آج کے انسان کی ضرورت یہ ہے کہ فلاں ملک میں قومی پیداوار اتنے ارب تک پہنچ گئ ہے جبکہ یہ پیداوار اسی سماج کے بہت سے لوگوں کا پیٹ بھرنے پر قادر نہيں ہے؟ کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہيں؟ اس کا کیا فائدہ کہ ملک مالدار رہے لیکن اس میں بہت سے لوگ بھوکے رہیں۔ پیداوار زیادہ ہو لیکن سماج میں امتیازی سلوک اور لوگوں میں تفریق ہو۔ کچھ لوگ ایسے ہوں جو ملک کی بے پناہ دولت کے سہارے عوام کے ایک بڑے حصے پر ظلم کرنے پر قادر ہوں۔ اپنی مرضی چلائيں اور طاقت کا غلط استعمال کریں ! کیا اس کے لئے انسان کا کام کرنا مناسب ہے؟ کیا اس چیز کے لئے انسان کی جانب سے قربانی پیش کرنا مناسب ہے؟ قربانی، عدل و انصاف و آزادی و خوشحالی و قلبی سکون کے لئے دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ دین سے حاصل ہوتا ہے۔ قربانی اس لئے ہوتی ہے تاکہ انسان اچھے سلوک اور اچھی صفات سے آراستہ ہو جائيں۔ انسانوں میں باہمی محبت کا جذبہ ہو۔ اس چیز کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس کی تشہیر کریں اس چیز کو رائج کریں ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں، میں نے ایک حدیث دیکھی ہے اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لئے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک «رفيق فيما يأمر و رفيق فيما ينهى‏» ہے جہاں نرمی مناسب ہو وہاں نرمی کرے ویسے اکثر اوقات نرمی کا ہی مقام ہوتا ہے۔ تاکہ محبت کے توسط سے ان حقائق کو لوگوں کے دل و دماغ میں اتارا جا سکے۔ تبلیغ اسی لئے ہوتی ہے۔ تبلیغ الہی و اسلامی احکام کو حیات نو بخشنے کے لئے ہوتی ہے ۔ آج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں یہ موقع حاصل ہے اور مالداروں کے دل میں دین کا درد ہے ہاں غیر ملکی پروپگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کے حکام اور اہم لوگ یا ان میں سے کچھ لوگوں کو دینی امور میں دلچسپی نہيں ہے۔ جی نہيں ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کی تو سمجھ میں نہيں آتا اور کچھ دوسرے لوگ عمدا چشم پوشی کرتے ہيں وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح سے پروپیگنڈہ کریں وہ لوگوں کو بد گمان کرنا چاہتے ہيں۔ آج ہمارے ملک میں، صف اول کے حکام کے دل میں دین کا درد ہے۔ دین کے بارے میں انہيں جتنا علم ہے اس پر سماج میں عمل در آمد چاہتے ہیں۔ حالات سازگار ہیں۔ البتہ یہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں لیکن آپ لوگوں کو مسجد و امام بارگاہوں اور عزاداری کے دوران تبلیغ کا جو موقع حاصل ہوا ہے اسے غنیمت سمجھیں، اس کی قدر کریں یہ بہت زیادہ موثر اور بابرکت ہے۔ لوگوں کی رہنمائی کریں ، لوگوں کے ذہنوں میں روشنی بھریں، لوگوں کو دین کے بارے میں معلومات بڑھانے کی جانب راغب کریں۔ انہیں صحیح دین کی تعلیم دیں۔ انہيں اخلاقی فضائل سے آشنا کریں۔ عمل اور زبان کے ذریعے اخلافی خوبیاں ان میں پیدا کریں، لوگوں کو نصحت کریں۔ خدا کے عذاب، خدا کے قہر و غضب اور آتش دوزخ سے انہیں ڈرائيں۔ انہيں ڈرائيں، ڈرانے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اسے نہ بھولیں، انہيں خدا کی رحمت کی خوشخبری دیں۔ مومنین، صالحین، مخلصین اور با عمل لوگوں کو بشارت دیں۔ انہيں عالم اسلام کے بنیادی مسائل اور ملک کے بنیادی معاملات سے آگاہ کریں۔ تب اسے وہ روشن مشعل کہا جائے گا جسے آپ میں سے جو بھی جہاں بھی جلائے گا وہاں لوگوں کے دل روشن ہو جائيں گے۔ آگاہی پیدا ہوگی، سرگرمی پیدا ہوگی، ایمان میں استحکام پیدا ہوگا۔ اس ثقافتی یلغار اور دشمن کے حملے کا مقابلہ کرنے کا سب سے اہم حربہ یہی ہے۔ مجھے بڑی تشویش ہے۔ وہ نہيں چاہتے کہ نوجوان، مومن، بہادر، آگاہ، اچھی فکر والے علماء، مختلف مقامات پر، یونیورسٹیوں میں، بازار میں، گاؤں میں، شہر میں اور کارخانے میں اپنا کام کریں۔ ان کی سازشوں سے مقابلے کے لئے آپ کا وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جسے اخلاص کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے «لم يكن منافسة فى سلطان ولا التماس شى‏ء من فضول الحطام».

1999/04/12

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=1486

ٹیگز