14

مرتد وسیم رضوی کا فتنہ تحریف قرآن اور آیات جہاد کو حذف کرنے کی درخواست کا تنقیدی جائزه (دوسری قسط)

  • News cod : 15559
  • 15 آوریل 2021 - 13:46
مرتد وسیم رضوی کا فتنہ تحریف قرآن اور آیات جہاد کو حذف کرنے کی درخواست کا تنقیدی جائزه (دوسری قسط)
قرآن مجید کے تحریف سے محفوظ رہنے اور طول تاریخ میں اس کی عدم تبدیلی کی دلیل وہ احادیث بھی ہیں جوپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر طاہرہ بتول

عدم تحریف قرآن کے دلائل
۱۔ تاریخی شواہد:
قرآن مجید شروع سے ہی سب کی اور خصوصاً مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود محافظ قرآن تھے اورہمیشہ اس کو حفظ کرنے، لکھنے اور محفوظ رکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔ مسلمانوں کا بھی یہ فریضہ تھا کہ وہ اس کو لکھیں اور حفظ کریں۔ اسی مقصد کے تحت وہ نسخوں کو تیار کرتے اور اپنے گھروں میں صندوق یا کسی مخصوص جگہ میں کپڑوں میں لپیٹ کر محفوظ کر دیا کرتے تھے۔ اسی زمانے سے ہی حفظِ قرآن کا رواج پیدا ہوا اور ہمیشہ اسلامی معاشرے میں بہت سے حافظانِ قرآن نے بڑی اہمیت و منزلت پائی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کو مصاحف کی شکل میں مختلف نسخوں میں تحریر اور منظم کر کے اسلامی ملکوں میں وسیع پیمانے پر پھیلا دیاگیا۔
۲۔ قرآن مجید کا تواتر:
شبہ تحریف کے باطل ہونے کے دلائل میں سے ایک اہم دلیل قرآن مجید کے تواتر کا بدیہی مسئلہ بھی ہے۔ پورے قرآن کو قبول کرنے کی شرط اس کا متواتر ہونا ہے۔ قرآن مجید کو تمام حرکات و سکنات اور حروف و الفاظ میں متواتر رہنا چاہیے یعنی تمام (جمہور مسلمین) نے اس کو ہاتھوں ہاتھ اور سینہ بہ سینہ نقل کیا ہے۔ اسی وجہ سے تحریف قرآن کے بارے میں نقل ہونے والی وہ روایات جن میں آیا ہے کہ فلاں جملہ یا فلاں کلمہ قرآن سے تھا چونکہ یہ روایات خبر واحد ہیں اس بنا پر قابل قبول نہیں ہیں اور “لزومِ قرآن” کے قاعدے کی رو سے مردود شمار ہوں گی اور اس قاعدے کا شمار ضروریاتِ دینِ اسلام سے ہوتا ہے اور علماءکا بھی اس پر اتفاق ہے اور بنیادی طور پراصولی اور کلامی مسائل میں خبر واحد معتبر نہیں ہے۔ یہ صرف فرعی اور عملی مسائل میں معتبر ہے۔
۳۔ اعجاز قرآن کا مسئلہ:
ایک اور مسئلہ جو شبہ تحریف کی قطعی طور پر نفی کرتاہے وہ اعجازِ قرآن کا مسئلہ ہے۔ علماءنے اعجاز قرآن کے مسئلہ کو شبہ تحریف کے بطلان پر بہت بڑی دلیل سمجھا ہے کیونکہ قرآن مجید میں اضافہ کا احتمال، جس طرح بعض خوارج نے کہا ہے کہ پوری سورتِ یوسف قرآن مجید میں بڑھا دی گئی ہے کیونکہ یہ ایک عاشقانہ داستان ہے اور قرآن کریم میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے یا قرآن مجید میں کمی کا احتمال، جس طرح بزرگ صحابی عبد اللہ ابن مسعود منسوب ہے کہ معوّذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس) یہ دونوں مبطل السحر (جادو کا توڑ کرنے والی) ہیں اور قرآن کا جزءنہیں ہیں۔ یہ دونوں احتمال قرآن کے متعلق بالکل منتفی ہیں کیونکہ بڑھانے کا لازمہ قرآن کی مثل لانا ہے۔ کیا بشر میں اتنی قدرت ہے کہ وہ قرآن کی مثل لاسکے اس طرح کہ فصاحت و بلاغت ، بیان اور مفہوم کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہ ہو؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کیونکہ پروردگار قرآن مجید میں فرماتا ہے:قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا
آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنّات سب اس بات پر متّفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے وہ ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ ؛جوکچھ میں نے اپنے بندے (پیغمبر) پر نازل کیا ہے اگر تمہیں اس بارے میں کوئی شک ہے تو اس کا جیسا کوئی ایک سورہ لے آو۔
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ ؛کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبر نے اپنی طرف سے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تم اس جیسا کوئی ایک ہی سورہ لے آو۔
ان آیات کو آیات ”تحدّی“ یعنی چیلنج کہتے ہیں۔ پس اگر کسی نے سورت یوسف یا دیگر سورتوں کو گھڑ کے قرآن مجید میں درج کر لیا ہے تو اس کا لازمہ چیلنج کو توڑنا ہے اور یہ امر محال ہے۔
قرآن مجید میں کلمات کی تبدیلی کا احتمال بھی اسی طرح ہے جیسا کہ شیخ نوری سے پہلے سیّد جزائری کا بھی یہی نظریہ تھا ۔کیونکہ قرآن مجید کے کلمات اور منظم جملات میں ہر قسم کی تبدیلی اس بات کا باعث بنتی ہے کہ قرآن مجید کی تبدیلی سے حاصل ہونے والی صورت تبدیلی کرنے والے کی طرف منسوب ہو اور وحی کی صورت سے خارج ہوجاتی ہے۔ لہذا ایسا تبدیل شدہ کلام خدا سے منسوب ہونے کی بجائے تبدیل کرنے والے کی طرف منسوب ہونے کے زیادہ لائق ہے۔
نیز قرآن میں کمی بھی اس چیز کا موجب بنتی ہے کہ کلام کی پہلے والی « خدائی » نظم و ترتیب میں خرابی اور گڑ بڑپیدا ہوجائے اور یہ چیز قطعی طور پر کلام کی ادبی روش اورفصاحت و بلاغت میں موثر ہے اور جدید (ناقص ہونے والی) ترتیب میں وہ پہلے والی بلاغی روش نہیں چل سکتی اور اس میں وہ پہلے والی بات نہیں رہتی لہذا جدید ترتیب کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہی نظم الہی اوروحی منزل ہے۔ لہذاقرآن مجید کے کلمات میں کسی قسم کی کمی، بیشی یا تبدیلی کا گمان قرآن مجید کے نظم و ترتیب میں موجود اعجاز کے مسئلہ کے ساتھ تضاد رکھتا ہے۔
۴۔ خدائی ضمانت:
تحریف سے قرآن مجید کے سالم رہنے اور شبہ تحریف کے بطلان پر واضح ترین دلیل ،قرآن مجید کو ہمیشہ اپنی عنایات کے زیر سایہ قرار دے کر ہر قسم کی آفات و بلیّات سے محفوظ رکھنے کی ایسی خدائی ضمانت اورگارنٹی ہے جسے خود پروردگار عالم نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ ارشاد الہی ہے: انّا نحن نزّلنا الذکر و انّا له لحافظون“ یہ آیت قرآن مجید کے بالکل صحیح اور سالم ہونے کی ضمانت دے رہی ہے اور قاعدہ “لطف “کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ قرآن مجید حقانیت اسلام کی زندہ سند اور نبوت کے صحیح ہونے کی پختہ اور محکم دلیل ہے۔اس لئے ہمیشہ ایسی آفات و بلیّات سے محفوظ رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں کسی بھی قسم کی تحریف کا احتمال دینا اسلام کی بنیاد اوراساس کو ہلانے اور متزلزل کرنے کے مترادف ہے اس لیے ضروریات دین وعقل کے برخلاف ہے۔

۵۔قرآن اور روایات کو پرکھنے کا معیار:
قرآن مجید کے تحریف سے محفوظ رہنے اور طول تاریخ میں اس کی عدم تبدیلی کی دلیل وہ احادیث بھی ہیں جوپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں۔ آپ نے فرمایا: انّ علی کلّ حق حقیقة و علی کلّ صواب نوراً، فما وافق کتاب الله فخذوہ وما خالف کتاب الله فدعوه؛ حق تک پہنچانے کیلئے ہمیشہ ایک ایسی حقیقت بھی ہوتی ہے جو حق کو آشکار کرتی ہے ہر سچائی اوراچھائی کیلئے ایک نور ہے جو تمام حقیقتوں اور صحیح راستوں کی طرف ہدایت کرتا ہے پس (احادیث سے) جو کچھ قرآن کے موافق ہو انھیں لے لو اور جو قرآن کے مخالف ہوں انھیں چھوڑ دو.
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے اگر قرآن مجید کی تحریف اور اس کے نتیجے میں درجہ اعتبار سے اس کے ساقط ہونے کااحتمال پایا جاتا تو کیا پھر بھی اس بات کی گنجائش تھی کہ قرآن کو روایات کے پرکھنے کا معیار قرار دیا جاتا اور یہ روایات کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کی کوئی واضح دلیل ہوتی؟ ہر گز نہیں! پس قرآن مجید کو ہمیشہ صحیح وسالم ہونا چاہیے تا کہ اس کا اعتبار بھی بر قرار رہے اور حق وباطل کے پرکھنے کا معیار بھی ہو۔
۶۔ اہل بیت علیہم السلام کی نصوص:
نفی تحریف کے بارے میں آئمہ معصومین علیہم السلام سے کافی زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں تحریف کے احتمال یا شبہ کی یکسر نفی کرتی ہیں۔

جاری ہے ۔

 

 

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=15559