18

بیان معصومؑ اور سیرت و کردار معصومؑ قرآن مجید کی تفسیر ہے،مدیر حوزہ علمیہ امام المنتظر قم

  • News cod : 15936
  • 21 آوریل 2021 - 18:20
بیان معصومؑ اور سیرت و کردار معصومؑ قرآن مجید کی تفسیر ہے،مدیر حوزہ علمیہ امام المنتظر قم
مدیر حوزہ علمیہ امام المنتظر قم حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد حسن نقوی نے حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور میں درس اخلاق دیتے ہوئے کہاکہ قرآن مجید اور فرمان معصوم یہ دوچیزیں ہمارا سرمایہ ہیں۔ بیان معصوم اور سیرت و کردار معصوم قرآن مجید کی تفسیر ہے، خواہ وہ نہج البلاغہ ہو، صحیفہ سجادیہ کی دعائیں ہوں،یا روایات اور زیارات کے مجموعے ہوں ۔اسی طرح احادیث کی کتب بھی تفسیر قرآن ہیں۔ انداز اور لہجے بدلتے رہتے ہیں کبھی زیارت کی شکل میں، کبھی دعاوں کی شکل میں، کبھی مکتوبات کی شکل میں اور کبھی خطبات کی شکل میں قرآن کی تفسیر سامنے آتی ہے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مدیر حوزہ علمیہ امام المنتظر قم حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد حسن نقوی نے حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور میں درس اخلاق دیتے ہوئے کہا: ہم ایک بار پھر ماہ مبارک رمضان کی نیک گھڑیوں میں سانس لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ رمضان کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور اس کے اعمال کو بہتر طور پر بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے اپنی مشہور حدیث “إِنِّی تَارِكٌ فِیكُمُ الثَّقَلَیْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بعدی ابدا” میں دو اہم چیزوں سے متمسک رہنے پر زور دیا ہے:
1۔ کتاب خدا، اور 2۔ اہل بیت ؑعلیہم السلام جو اس کتاب کے مفسرین ہیں۔


قرآن مجید اور فرمان معصوم یہ دوچیزیں ہمارا سرمایہ ہیں۔ بیان معصوم اور سیرت و کردار معصوم قرآن مجید کی تفسیر ہے، خواہ وہ نہج البلاغہ ہو، صحیفہ سجادیہ کی دعائیں ہوں،یا روایات اور زیارات کے مجموعے ہوں ۔اسی طرح احادیث کی کتب بھی تفسیر قرآن ہیں۔ انداز اور لہجے بدلتے رہتے ہیں کبھی زیارت کی شکل میں، کبھی دعاوں کی شکل میں، کبھی مکتوبات کی شکل میں اور کبھی خطبات کی شکل میں قرآن کی تفسیر سامنے آتی ہے۔ حدیث کی فضیلت و منزلت اسی روایت پرغور کرنے سے ہماری سمجھ میں آجائیگی۔
انہوں نے کہا کہ قرآن کو اگر سمجھنا ہے تو حدیث کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ چونکہ عترت مفسر قرآن ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو چھوڑ دیا جائے تو تم گمراہ ہوجاؤگے۔
حدیث ثقلین میں” مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمُ بهما ” کی عبارت ، مطلق ذکر ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دین و دنیا کے ہر مسئلے میں ان سے متمسک رہو گے تو کامیاب رہو گے اور یہ تعبیر ان کی جامعیت و کمال ِمطلق کی بہترین دلیل ہے کیونکہ حدیث میں ” لن تَضِلّوا ابداً” بھی کہا گیا ہے یعنی تم کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے۔ حدیث شریف کی عبارت “لَنْ یفتر قا حتَّی یَرِ دا عَلیَّ الحوض ” اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ حضورؐ سرور کائنات کی اس مقدس عترت طاہرہ کا سلسلہ تا روز قیامت جاری و ساری رہے گا کیونکہ اگر کوئی بھی زمانہ عترتؑ سے خالی ہو گیا تو لازمی طور پر قرآن و عترت میں جدائی ہو جائے گی لہٰذا ہر دور میں عترت میں سے ایک فرد کا موجود ہونا ضروری ہے تاکہ قیامت تک اس حدیث کی حقانیت برقرار رہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=15936