11

بارہویں رمضان کی دعا اور اس کی تشریح

  • News cod : 16126
  • 25 آوریل 2021 - 0:06
بارہویں رمضان کی دعا اور اس کی تشریح
اس دعا میں زہد اور قناعت پر زور دیا گیا ہے۔ زہد کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار اور ارادے کے ساتھ کسی چیز سے روگردانی کرے ،  اس کی طرف  مائل نہ ہو اور اس چیز کو بے وقعت اور بے اہمیت قرار دے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف کو ایک بے وقعت قیمت کے بدلے میں بیچ ڈالا؛ یعنی : وہ اس قیمت کی جانب مائل نہیں تھے۔ اس کے لیے زہدکا  لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

تحریر : حجت الاسلام سید احمد رضوی

اَللّهُمَّ زَيِّنِّي فيہ بالسِّترِ وَالْعَفافِ وَاسْتُرني فيہ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَالكَفافِ وَاحْمِلني فيہ عَلَى الْعَدْلِ وَالْإنصافِ وَآمنِّي فيہ مِنْ كُلِّ ما اَخافُ بِعِصْمَتِكَ ياعصمَةَ الْخائفينَ
اے معبود! مجھے اس مہینے میں پردے اور پاکدامنی سے مزیّن فرما، اور مجھے کفایت شعاری اور اکتفا کا جامہ پہنا دے، اور مجھے اس مہینے میں عدل و انصاف پر آمادہ کردے، اور اس مہینے کے دوران مجھے ہر اس شیئے سے امان دے جس سے میں خوفزدہ ہوتا ہوں، اے خوفزدہ بندوں کی امان

زہدوقناعت
اس دعا میں زہد اور قناعت پر زور دیا گیا ہے۔ زہد کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار اور ارادے کے ساتھ کسی چیز سے روگردانی کرے ،  اس کی طرف  مائل نہ ہو اور اس چیز کو بے وقعت اور بے اہمیت قرار دے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف کو ایک بے وقعت قیمت کے بدلے میں بیچ ڈالا؛ یعنی : وہ اس قیمت کی جانب مائل نہیں تھے۔ اس کے لیے زہدکا  لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
علمائے اخلاق و عرفان کے ہاں زہد  اور قناعت کو اخلاقی فضیلتوں میں شمارکیا جاتا ہے، بلکہ انہیں عبودیت کے منازل میں سے ایک قرار دیا ہے۔  دوسرے لفظوں میں زہد کا اصطلاحی معنی یہ ہے  کہ انسان دنیا سے اپنی توجہ ہٹا کر آخرت کے منازل اور مقامات پر دھیان دے۔
قرآن کریم نے  دو مختصر جملوں میں زہد کی تعریف کی ہے جس میں جامعیت بھی ہے اور گہرائی بھی۔
ارشاد ہوتا ہے:لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ
حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام  فرماتے ہیں:
وقال عليه السلام: الزُّهْدُ كُلُّهُ بَيْنَ كَلِمَتَينِ مِنَ الْقُرْآنِ: قَالَ اللهُ سبحانه: ﴿لِكَيْلاَ تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ﴾، فَمَنْ لَمْ يَأْسَ عَلَى الْمَاضِي، وَلَمْ يَفْرَحْ بالْآتِي، فَقَدْ أَخَذَ الزُّهْدَ بِطَرَفَيْهِ
زہد دو جملوں کے درمیان ہیں (تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو،) جو گزری ہوئی باتوں پر افسوس نہ کرے اور مستقبل سے زیادہ  امیدنہ لگائے اس نے ان دونوں جملوں پر عمل کیا۔
زہد کی شرائط :
حقیقی زہد کے لئے شرط ہے کہ:
1۔  انسان  طبیعتا صحیح اور سالم ہو اور اسی تندرستی کے عالم میں کسی چیز سے منہ پھیرے، ورنہ کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بے رغبت ہوگیا ہو تو اس بے رغبتی کو زہد نہیں کہتے۔
2۔ اس چیز تک دسترسی کے تمام  مادی وسائل میسر ہوں، لیکن اگر کسی مانع اور رکاوٹ کی وجہ سے اس تک رسائی ممکن نہ ہو تو  اس عمل کا بھی زہد  سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بنا بر ایں رغبت اور رسائی ہونے کے ساتھ کسی بڑے مقصد اور ہدف کی خاطر کسی چیز سے ہاتھ اٹھائے  تو اس کو زاہد کہا جاتا ہے۔
زہد کے آثار :
انسان کی انفرادی اور اجتماعی پر زہد اور قناعت کے بہت سے اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1۔ حکمت اور بصیرت
پیغمبر اکرم ﷺفرماتے ہیں:
مَنْ زَهِدَ فِي اَلدُّنْيَا أَثْبَتَ اَللَّهُ اَلْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ اَلدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ اَلدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ اَلسَّلاَمِ .
اگر کوئی شخص دنیا سے بے رغبتی دکھائے  تو خداوند عالم اس کے دل میں حکمت ڈال دیتا ہے۔ اس کی زبان پر حکمت جاری ہوتی ہے اور اسے دنیا کی  بیماریوں اور ان کے علاج کا علم ہوجائے گا۔
2۔ مصیبتوں کی آسانی
پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں :
من زھد فی الدنیا ھانت علیہ المصیبات
زاہد کے لیے تمام مصیبتیں آسان ہوجائیں گی۔
3۔   لمبی آرزؤں سے بچاؤ
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں.:
أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الْأَمَلِ
زاہد وہی ہے جو لمبی لمبی آرزؤں کا حامل نہ ہو۔
4۔ خوشی اور غم دونوں میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
إنّ الزاهِدينَ في الدنيا تَبكِي قُلوبُهم و إن ضَحِكُوا، و يَشتَدُّ حُزنُهُم و إن فَرِحُوا
دنیا میں زاہدوں کے دل رو رہے ہوتے ہیں،اگر چہ وہ بظاہرہنس رہے ہوتے ہیں ۔ جب مصیبت میں گھرے ہوتے ہیں اور حالات انتہائی سخت ہوتے ہیں تو وہ خوشی سے ان کا سامنا کرتے ہیں۔
نوٹ:
واضح رہے کہ زہد سے مراد پھٹے پرانے کپڑے پہننا ، لوگوں سے دوری اختیار کرنا یا کھانے کی چیزوں سے پرہیز کرنا نہیں، بلکہ سب کچھ اختیار میں ہونے کے باوجود ان کے  استعمال میں میانہ روی اختیار کرکے دوسروں کے کام آنے اور اپنی آخرت سنوارنے کا نام زہد ہے۔
خداوندعالم ہمیں اسلامی معارف  سے آشنا ئی اور ان پر معرفت کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین !

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=16126