8

بائیسویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح

  • News cod : 16693
  • 05 می 2021 - 1:41
بائیسویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح
اے معبود! میرے لئے اس مہینے میں اپنے فضل کے دروازے کھول دے، اور اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل کردے، اور اس میں تیری خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر، اور اس کے دوران مجھے اپنے بہشت کے درمیان بسا دے، اے بےبسوں کی دعا قبول کرنے والے

تحریر : حجت الاسلام سید احمد رضوی

أللّهُمَّ افْتَحْ لي فيہ أبوابَ فَضْلِكَ وَأنزِل عَلَيَّ فيہ بَرَكاتِكَ وَوَفِّقْني فيہ لِمُوجِباتِ مَرضاتِكَ وَأسْكِنِّي فيہ بُحْبُوحاتِ جَنّاتَكَ يا مَجيبَ دَعوَة المُضْطَرِّينَ

اے معبود! میرے لئے اس مہینے میں اپنے فضل کے دروازے کھول دے، اور اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل کردے، اور اس میں تیری خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر، اور اس کے دوران مجھے اپنے بہشت کے درمیان بسا دے، اے بےبسوں کی دعا قبول کرنے والے

دعا کی اہمیت

دعا انسانوں کی زندگی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے، یہاں تک کہ غیر مسلم بھی دعاؤں کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دعا کو انسانی زندگی کے اہم اور بنیادی مسائل کا حل شمار کرتے ہیں ۔

انسانوں کی زندگی میں اس کی جتنی اہمیت ہے اتنی ہی انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات بھی اس پر تاکید کی گئی ہے۔ دعا کےمتعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہدف بھی ہے اور وسیلہ بھی۔

دعا ،قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید نے انسان کو دعا کے ذریعے تکبر اور خود پسندی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور استکباری مزاج کو خود سے دور کرنے کو دعا کے اثرات میں سے ایک قرار دیا ہے ۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

قرآن کی رو سے دعا کے کچھ آثار و فوائد مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ مختلف پیچیدگیوں کا حل

قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ

2۔ صالح بندوں کا وطیرہ،

يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

3۔ قبول ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ضمانت شدہ،

وَإِذا سَأَلَكَ عِبادي عَنّي فَإِنّي قَريبٌ ۖ أُجيبُ دَعوَةَ الدّاعِ إِذا دَعانِ ۖ فَليَستَجيبوا لي وَليُؤمِنوا بي لَعَلَّهُم يَرشُدونَ

4 ۔ اللہ تعالیٰ کئ نظر رحمت کو اپنی جانب مبذول کرنے کا بہترین طریقہ،

قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

5۔ ایک فطری مگر انسان کی طرف سے فراموش شدہ عمل ۔

وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ.

دعا، روایات کی روشنی میں

دعا کے بارے میں کتب احادیث میں الگ الگ ابواب ہیں، جہاں اس کے مختلف پہلوؤں پر روایات مذکور ہیں:

روایات میں دعا کے کچھ آثار یوں بیان ہوئے ہیں:

1۔ دعا ایک بہترین عبادت ہے۔

قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَيُّ الْعِبَادَةِ أَفْضَلُ فَقَالَ مَا مِنْ شَيْءٍ أَفْضَلَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ أَنْ يُسْئَلَ وَ يُطْلَبَ مِمَّا عِنْدَهُ وَ مَا أَحَدٌ أَبْغَضَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِمَّنْ يَسْتَكْبِرُ عَنْ عِبَادَتِهِ وَ لَا يَسْأَلُ مَا عِنْدَهُ

کسی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا کہ کونسی عبادت بہتر ہے ؟ تو آپ ؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا اور طلب کرنےسے زیادہ بہتر کوئی عمل نہیں ہے اور دعا نہ کرنے سے مبغوض اور ناپسند کوئی عمل نہیں ہے۔

2۔ دعا مومن کا اسلحہ ہے ۔

الدعاءُ سِلاحُ المُؤمِنِ وَ‌ عمودُ الدّینِ وَ نُورُالسموات وَ الأَرضِ.

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ: دعا مومن کا اسلحہ، دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے ۔

3۔ دعا بلاؤں اور قضا کو ٹال دیتی ہے ۔

عَنْ أبى عَبْدِاللّهِ عليه السلام قالَ: إنَّ الدُّعاءَ يَرُدُّ الْقَضاءَ وَقَدْ نَزَلَ مِنَ السَّماءِ وَقَدْ ابْرِمَ إبْراماً

دعا بلاؤں اور قضا کو ٹال دیتی ہے حتمی ہونے کے بعد بھی

عَنْ أبى عَبْدِاللّهِ عليه السلام قالَ: إنَّ الدُّعاءَ يَرُدُّ الْقَضاءَ وَقَدْ نَزَلَ مِنَ السَّماءِ وَقَدْ ابْرِمَ إبْراماً

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں

الدعاء یدفع البلاء النازل و ما لم ینزل

دعا نازل شدہ بلاؤں کو رفع کرتی ہے اور آنے والی بلاؤں سے بچاتی ہے ۔

4 ۔ دعا ہر درد کی دوا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

عَلَيكَ بِالدُّعاءِ فَاِنَّه شِفاءٌ مِن كُلِّ داءٍ

دعا کیا کرو !کیونکہ ہر درد کی دوا ہے ۔

کن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ؟

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

قال: كان أبي يقول خمس دعوات لا يحجبن عن الرب تعالى دعوة الإمام المقسط و دعوة المظلوم يقول اللّٰه تعالى لأنتقمن لك و لو بعد حين و دعوة الولد الصالح لوالديه و دعوة الوالد الصالح لولده و دعوة المؤمن لأخيه بظهر الغيب فيقول و لك مثلاه .

پانچ لوگوں کی دعا قبول ہوتی ہے :

1۔ عادل امام کی دعا

2۔ مظلوم کی دعا

3۔ صالح بیٹے کی دعا اپنے والدین کے لئے

4۔ صالح والدین کی دعا اپنی اولاد کے حق میں

5۔ ایک مومن کی دعا دوسرے کے حق میں ۔

کن کی دعائیں مستجاب نہیں ہوتیں ؟

چار قسم کے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں:

1 ۔کسی قسم کی سعی و کوشش کے بغیر صرف دعا کرنے والا

2۔ جو اپنی بیوی کے ہاتھوں تنگ ہو لیکن طلاق دینے کے بجائے دعا کرتا رہے،

3۔ مال و دولت کو ضائع کر نے کے بعد دوبارہ مال و دولت کی دعا کرنے والا

4۔اس قرض خواہ کی دعا جو قرضہ دیتے وقت کسی کو گواہ نہ بنائے، پھر مقروض انکار کرے ،

خدا وند ہم سب کو دعا کرنے اور دعا مستجاب ہونے والوں میں شامل کرے، آمین

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=16693