13

چوبیسویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح

  • News cod : 16857
  • 07 می 2021 - 0:31
چوبیسویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح
اے معبود! تیرے در پر ہر اس چیز کا سوالی ہوں جو تجھے خوشنود کرتی ہے اور ہر اس چیز سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں جو تجھے ناراض کرتی ہے، اور تجھ سے توفیق کا طلبگار ہوں کہ میں تیرا اطاعت گزار رہوں اور تیری نافرمانی نہ کروں، اے سوالیوں کو بہت زیادہ عطا کرنے والے. 

چوبیسویں رمضان کی دعا

تحریر : حجت الاسلام سید احمد رضوی

أللّهُمَّ إنِّي أسألُكَ فيہ مايُرضيكَ وَأعُوذُ بِكَ مِمّا يُؤذيكَ وَأسألُكَ التَّوفيقَ فيہ لِأَنْ اُطيعَكَ وَلا أعْصِيَكَ يا جواد السّائلينَ

اے معبود! تیرے در پر ہر اس چیز کا سوالی ہوں جو تجھے خوشنود کرتی ہے اور ہر اس چیز سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں جو تجھے ناراض کرتی ہے، اور تجھ سے توفیق کا طلبگار ہوں کہ میں تیرا اطاعت گزار رہوں اور تیری نافرمانی نہ کروں، اے سوالیوں کو بہت زیادہ عطا کرنے والے.

اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیوں اور کیسے؟
روایات کے مطابق انسان کی قیمت بہشت کے سوا کچھ نہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

الا ان ثمنکم الجنۃ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا

تمہاری قیمت صرف اور صرف بہشت ہے، لہٰذا خود کو اس سے کم قیمت پر مت بیچو!
اس روایت کی تشریح میں کچھ علما اور مفسرین کا کہنا ہے کہ بہشت انسان کی مجموعی قیمت نہیں ہے، بلکہ صرف اس کے جسم کی قیمت ہے۔ انسان کی روح کی اصل قیمت بہشت سے کئی گنا بیش بہا ہوتی ہے ۔ روح کی قیمت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ، رضایت الٰہی یا رضوان الٰہی ہے۔

و رضوان من اللہ اکبر
یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا
افمن اتبع رضوان اللہ کن باء بسخط من اللہ و ماواہ جہنم و بئس المصیر
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے اسباب:
دنیا اسباب و مسببات یا علت و معلول کی جگہ ہے، یہاں ہر چیز کسی نہ کسی سبب کے بغیر وجود میں نہیں آتی ۔خدا کی رضایت کا حصول بھی اسباب کے ذریعے ہی ممکن ہے، جن میں سے کچھ اسباب یہ ہیں:
۱۔ استغفار کرنا
۲۔ تواضع اور فروتنی
۳۔ صدقہ دینا
۴۔ الٰہی دستورات اور احکام کی پیروی کرنا۔

الإمامُ عليٌّ عليه السلام : إنَّ اللّه َ أخفى أربَعةً في أربَعةٍ : أخفى رِضاهُ في طاعَتِهِ، فلا تَستَصغِرَنَّ شَيئا من طاعَتِهِ ، فرُبَّما وافَقَ رِضاهُ و أنتَ لا تَعلَمُ
امام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اس کی اطاعت و بندگی میں پوشیدہ ہے اس لئے کسی بھی نیک کام کو چھوٹا نہ سمجھو شاید اسی میں اللہ کی خوشنودی ہو اور تم نہ جانو۔
منقول ہے کہ حضرت عمار یاسر نے جنگ صفین میں میدان کارزار میں قدم رکھنے سے پہلے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا:
اے اللہ ! اگر میں یہ جان لوں کہ کسی دریا میں کودنا تیری خوشنودی اور رضایت کا باعث ہے تو میں بلا تاخیر کود پڑوں گا اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ ایک تلوار کو جسم کے آرپار کرنے پر آمادگی ظاہر کرنے میں تیری رضا و خوشنودی ہے تو میں اس کام کو بھی بلا جھجک انجام دوں گا۔ تو نے جس دین کو میرے لئے اختیار کیا ہے اس کےمطابق جانتا ہوں کہ آج صرف ان لوگوں سے جنگ کرنے میں ہی تیری خوشنودی ہے۔
۵۔ تقوی:

امام علی ؑ : أَوْصَاكُمْ بِالتَّقْوَى وَ جَعَلَهَا مُنْتَهَى رِضَاهُ وَ حَاجَتَهُ مِنْ خَلْقِهِ
فرماتے ہیں: خدا نے تمہیں تقوائے الٰہی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی تقوی کو اپنی رضایت کی انتہا اور لوگوں پر اپنا حق قرار دیا ہے۔
مفاد عامہ اور اللہ کی خوشنودی
اگر کوئی چاہتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے اجتماعی امور کو بھی آگے بڑھائے اور اجتماعی مفاسد سے معاشرے کو دور رکھے تو وہ اجتماعی امور کے بارے میں خاموش اور لاپروا نہیں رہ سکتا، خواہ ان امور کی ادائیگی میں اس کی جان ،مال یا عزت و آبرو کو خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی بہترین مثال یزید کے درباری خطیب کے ساتھ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ؑ کا برتاؤ ہے، جب اس نے یزید کی خوشنودی کے لئے اہل بیت علیہم السلام ؑ سے جھوٹی چیزوں کی نسبت دی، تو امام علیہ السلام نے فورا کسی چیز کی پروا کئے بغیر فرمایا:

اَیُّهَا الْخاطِبُ! لَقَدِ اشْتَرَیْتَ مَرْضاهَ الَمخْلُوقِ بِسَخَطِ الْخالِقِ

اے خطیب! تم نے اللہ کی ناراضگی کے بدلے مخلوق کی خوشنودی حاصل کی۔
6۔ قضائے الٰہی پر خوش ہونا،
۷۔ مشکلات اور مصائب میں صبر و تحمل سے کام لینا،

…… واللہ المستعان علی ما تصفون
امام حسین ؑ: رَأسُ طاعَةِ اللّه ِ الصَّبرُ و الرِّضا عنِ اللّه ِ فيما أحَبَّ العَبدُ أو كَرِهَ

اللہ کی رضایت کاسرچشمہ صبرو تحمل اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہے ، چاہے بندہ خود خوش ہو یا ناراض۔
خدا کی خوشنودی کی نشانیاں:
۱۔ بندگی کی توفیق اور گناہ سے دوری

حضرت موسی ؑ: رُويَ أنّ موسى عليه السلام قالَ : يا رَبِّ أخبِرْني عن آيَةِ رِضاكَ عن عَبدِكَ ، فَأوحَى اللّهُ تعالى إلَيهِ : إذا رَأيتَني اُهَيِّئُ عبدِي لطاعَتِي و أصرِفُهُ عن مَعصِيَتي
عرض کیا: خدایا اپنی خوشنودی کی کوئی علامت اور نشانی دکھادے، تو جواب آیا: اگر میں کسی بندے کو عبادت کی توفیق دیتا ہوں یا گناہ سے دور کرتا ہوں تو وہی میری رضایت کی نشانی ہے۔
۲۔ شکر کرنا، ہمیشہ یاد الٰہی میں رہنا

في حديثِ المعراجِ : فَمَن عَمِلَ بِرِضايَ اُلزِمُهُ ثلاثَ خِصالٍ : اُعَرِّفُهُ شُكرا لا يُخالِطُهُ الجَهلُ۔۔۔
جب کوئی بندہ میری رضایت کے مطابق عمل کرے تومیں اسے تین چیزیں عطا کرتا ہوں:
۱۔ جہل و نادانی سے دور ی اور شگر گزاری کی توفیق، ۲۔ ایسی یاد الٰہی جس میں فراموشی نہ ہو، ۳۔ ایک ایسی محبت جس میں دوسروں کی محبت شامل نہ ہو۔
۳۔ مخلوق کی خوشنودی پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مقدم کرنا:

قال رسول اللہ: من طلب رضى مخلوق بسخط الخالق سلّط اللّه عزّ و جلّ علیه ذلک المخلوق
پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے کسی مخلوق کی خوشنودی چاہے تو اللہ اس پر اسی شخص کو مسلط کرتا ہے۔
۴۔ سماجی عدل و انصاف ، اعتدال اور اشیاء کی قیمتوں کا کم ہونا:

پیامبر ص: عَلاَمَةُ رِضَا اَللَّهِ عَنْ خَلْقِهِ رُخْصُ أَسْعَارِهِمْ وَ عَدْلُ سُلْطَانِهِمْ
اشیاء کی قیمتوں کا کم ہونا اور حکمرانوں کا عدل و انصاف سے کام لینااپنے بندوں سے اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامتوں میں سے ہے۔
خداوند عالم ہم سب کو اپنی رضایت حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=16857