6

خانہ فرھنگ لاہور کے تحت آن لائن “فلسطین” کانفرنس/ڈیل آف دی سینچری بری طرح ناکام ہوگئی، مقریرین

  • News cod : 16903
  • 08 می 2021 - 13:57
خانہ فرھنگ لاہور کے تحت آن لائن “فلسطین” کانفرنس/ڈیل آف دی سینچری بری طرح ناکام ہوگئی، مقریرین
لاہور میں موجود خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کے زیراہتمام آن لائن فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مقریرین کا کہنا تھا کہ عالمی استکبار اور صہیونزم نے مشرق وسطی میں تکفیری گروہوں کی تشکیل کے ذریعے قدس اور فلسطین کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کا منصوبہ بنایا تھا جو خوش قسمتی سے تکفیری خطرناک تحریک کے خاتمے کے ساتھ ہی خاک میں مل گیا۔ الحمد للہ خطے میں عالم اسلام کی توجہات ایک بار پھر فلسطین اور قدس کو آزاد کرنے کی طرف مبذول ہوچکی ہیں۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، لاہور میں موجود خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کے زیر انتظام “مسلم ممالک اور صہیونی حکومت کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے نتائج”کے عنوان سے ایک آن لائن کانفرنس کا انعقادکیا گیا۔

اس نشست میں ادارہ منہاج الحسین لاہور کے سربراہ  حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد حسین اکبر ، شیعہ علماء کونسل سندھ کے رہنماء ڈاکٹر کرم علی حیدری مشہدی، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سینئیرنائب صدر علامہ سید مرید حسین نقوی، ادارہ ترویج افکار شہدائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر دانش نقوی، جماعت اسلامی پاکستان شعبہ خواتین کی ڈائریکٹر برائے امور خارجہ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی، ادارہ البصیرہ کے سربراہ ثاقب اکبر، خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران لاہور کے ڈائریکٹر جنرل محمد رضا ناظری اور جعفر روناس جیسے شیعہ سنی مفکرین ، ماہرین ، سیاسی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سینیئر نائب صدر حجۃ الاسلام والمسلمین سید مرید حسین نقوی نے کہا کہ پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین سے متعلق تین طرح کے لوگوں کے بیانات اور نظریات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: مذہبی افراد، لبرل طبقہ اور ہر ملک کے بااثر لوگ۔ پھر ان بیانات کی روشنی میں غاصب اسرائیل کے وجود میں آنے کی وجوہات تلاش کرنی چاہئیں، جن میں سے سب سے اہم اور بڑی وجہ مقتدر حلقے کی طرف سے لوگوں کی رائے کو کوئی اہمیت دیئے بغیر من مانیاں کرنا اور من پسند فیصلے کرنا ہے۔

انہوں نے غاصب اسرائیل کے ناپاک وجود کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نام نہاد اسلامی ممالک کی دینی غیرت مرچکی ہے، جب کسی کی دینی غیرت ختم ہو جائے تو وہ کوئی بھی غیر انسانی حرکت کرسکتا ہے۔ کچھ ڈرپوک مسلم حکمرانوں نے خوف، بزدلی اور بے غیرتی کی وجہ سے اس غاصب حکومت کو تسلیم بھی کر لیا اور اس کے ساتھ اچھے تعلقات بھی استوار کر لئے۔ جامعۃ المنتظر لاہور کے ناظم اعلیٰ کا کہنا تھا کہ فلسطین کے حوالے سے مذہبی لوگوں کے بیانات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یورپ ممالک کے باشندے بھی مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور یوم القدس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے۔؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم دن کے بانی حضرت امام خمینی ؒ تھے۔ انہوں نے “فلسطین کاز” کو زندہ کیا اور فلسطین پر قبضہ جمانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی ابتداء کی۔

محترمہ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی نے بیت المقدس کو غیر اسلامی مسئلہ بنانے کے لئے عالمی صہیونیت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ بلاشبہ اسرائیلی حکومت امریکہ کی آشیرباد کے ذریعے بیت المقدس کو عالم اسلام کے پیکر سے مکمل علیحدہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ امریکہ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنے سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کرکے یہ چاہتا ہے کہ مسلمان ممالک بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے بھلا دیں۔
انہوں نے کہا: آج کل دنیا میں امت اسلامیہ اور صیہونی حکومت کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کی جانے والی سازشوں کو ہم دیکھ رہے ہیں۔اس سٹیج کی وساطت سے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ، جو ہمیشہ فلسطین اور وہاں کے مظلوم عوام کے لئے چارہ جوئی کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی سرزمین کو صیہونیت کےچنگل سے آزاد کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت کے ساتھ عالم اسلام کی صلح اور تعلقات اسلامی ممالک کے قومی مفادات ، اسلامی غیرت اور پہچان کے منافی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ “ہمیں حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے سبق سیکھنا چاہئے کہ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آخری لمحے تک طاغوتی حکومت کے بالمقابل ثابت قدمی دکھائی ۔”

جناب جعفر روناس نے ناجائز صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کی تاریخ بتاتے ہوئے کہاکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے صہیونی حکومت کا مقابلہ کرنے کی دو صورتیں تھیں: عرب ممالک کی جدوجہد اور فلسطینیوں کی مزاحمت، لیکن یہ دونوں صورتیں”تنظیم آزادی فلسطین”(Palestine Liberation Organization) کی چھتری تلے ہونے کی وجہ سے ناکارہ ثابت ہوئیں۔اس کے بعد حضرت امام خمینیؒ نے اس عالمی مسئلے کا بنیادی حل پیش کرنے کے لئے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو “یوم القدس” کے طور پر منایا اورپوری دنیا بالخصوص مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس غاصب حکومت سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اعلان کریں۔

انہوں نے کہاکہ عالمی استکبار اور صہیونزم نے مشرق وسطی میں تکفیری گروہوں کی تشکیل کے ذریعے قدس اور فلسطین کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کا منصوبہ بنایا تھا جو خوش قسمتی سے تکفیری خطرناک تحریک کے خاتمے کے ساتھ ہی خاک میں مل گیا۔ الحمد للہ خطے میں عالم اسلام کی توجہات ایک بار پھر فلسطین اور قدس کو آزاد کرنے کی طرف مبذول ہوچکی ہیں۔

خانہ فرہنگ ایران کے مسئول کا کہنا تھا کہ فلسطین کی کل آبادی 13 ملین تھی جس کا نصف حصہ دیگر ممالک میں دربدری کی زندگی گزار رہا ہےاور نصف حصہ صہیونی حکومت کی نسل پرست پالیسیوں کی وجہ سے تڑپ رہا ہے۔ بدقسمتی سے اپنے اپنے مفاد کی خاطر بعض عرب حکومتوں کے چپ سادھ لینے اور اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے صہیونی حکومت میں جارحانہ انداز اپنانے کی جرائت پیدا ہوئی ہے۔

انہوں نے “صدی کی ڈھیل” کو عالم اسلام اور فلسطینی باشندوں کی تمناؤں کا خون قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس معاملے کی رو سے دریائے اردن کا نصف مغربی حصۃ اور بیت المقدس صہیونی حکومت کا ہوگا اور بے گھر فلسطینیوں کو دوبارہ اپنے ملک لوٹنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔

آخر میں انہوں نے رہبر معظم کے بیان کردہ پانچ نکات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطین کے مسئلے کو امت مسلمہ کا مسئلہ اول سمجھتے ہیں ۔ پھر انہوں نے رہبر معظم کے پیش کردہ ریفرنڈم کے منصوبےکی تفصیلات بیان کیں۔

جناب محمد رضا ناظری نے کہاکہ امام خمینی ؒ کی طرف سے یوم القدس کا اعلان کرنافلسطین کی آزادی کے لئے اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ کشمیر ، یمن ،قرہ باغ اور مقبوضہ فلسطین سمیت ہر جگہ ظلم وستم کی مذمت کرتا ہے اور مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ صیہونی حکومت ہمیشہ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ، لیکن مغرب اور امریکہ کی انسانی حقوق، حقوق نسواں یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق کا راگ الاپنے والے ٹھیکہ داروں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے، بلکہ ان کی طرف سے اس ظلم و بربریت کی کھلی حمایت کی جارہی ہے۔
جناب ناظری نے آخر میں کہاکہ اگرچہ ریاستہائے متحدہ کا اقتدار جو بائیڈن نے سنبھالا ہے ، لیکن صیہونی حکومت کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ،بلکہ وہ بھی ٹرمپ کی طرح فلسطین کے مزید علاقوں کو ہڑپ کرنے کے لئے غاصب صہیونی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=16903