8

فلسطینی عوام کو سازش اور طاقت سے نہیں ہرایا جاسکتا، علامہ شبیر میثمی

  • News cod : 16938
  • 08 می 2021 - 14:40
فلسطینی عوام کو سازش اور طاقت سے نہیں ہرایا جاسکتا، علامہ شبیر میثمی
امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سال یوم القدس ہمارے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال بعض نام نہاد اسلامی ممالک کے حاکموں نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اسرائیل کی ایمبیسیاں کھول لیں۔ اور پاکستان پر پریشر ڈال رہے ہیں۔ یعنی وہ حکومت کہ جس کی کوئی شرعی، قانونی اور انسانی حقوق کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ہے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ماہِ رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ مومنین کے لئے یہ بہت ہی سخت اور مشکل مسئلہ ہے کہ اللہ کا پیارا مہینہ اس سے دور ہو رہا ہے۔ اپنے اپنے دلوں سے سوال کیجئے: آیا اس مہینے کے جانے سے خوشی محسوس ہورہی ہے یا غم محسوس ہو رہا ہے؟ اگر اس لئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ تھک گئے ہیں اور مشکلات پیش آئی ہیں تو اللہ سے دعا کیجئے کہ آئندہ ماہِ رمضان میں اس سے بہتر توفیق حاصل ہو تاکہ عبادت کی بہتر لذت حاصل ہو اور وہ مشکلات دور ہوں جن کی وجہ سے آپ کو تھکن ہوئی ہے۔ اور جن کو افسوس اور غم ہے ان کو مبارک ہو کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کے مطابق مومنین کے لئے یہ مہینہ بہت ہی مختصر اور منافقین کے لئے بہت ہی طولانی ہوجاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے۔

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ ہر سال ماہِ رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع کو حضرت امام خمینیؒ کے حکم پر ”یوم القدس“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ میرا مسلمانوں سے بہت بڑا سوال ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ فلسطین کے مظلومین تمہیں پکارتے ہیں، اتنے پریشان ہیں۔ اس سال یوم القدس ہمارے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال بعض نام نہاد اسلامی ممالک کے حاکموں نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اسرائیل کی ایمبیسیاں کھول لیں۔ اور پاکستان پر پریشر ڈال رہے ہیں۔ یعنی وہ حکومت کہ جس کی کوئی شرعی، قانونی اور انسانی حقوق کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ہے، اس کو آپ قبول کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ چلیں ٹھیک ہے جو ہوگیا سو ہوگیا۔ پس کل کو اگر کوئی آپ کے ملک میں آ کر قدم جما لے اور ایک نیا ملک بنا لے تو چالیس پچاس سال بعد آپ اسے تسلیم کرلیں گے؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کریں، یہ وہ حکومتیں ہیں جن کے پیچھے شیطانی طاقتیں ہیں۔ اس کو آپ اگر ایک قدم آنے کا موقع دیں گے، یہ دس قدم آگے آجائیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا یا جو تسلیم کرنے والے ہیں، کیا وہ بھول گئے ہیں کہ داعش کو کس نے بنایا؟ داعش کا لیڈر کون تھا؟ اسرائیل نے اس کو کتنا سپورٹ کیا۔ یہ تو اللہ سبحانہ کا تفضل ہے امت اسلامیہ پر اور امام زمانہ علیہ السلام کی تائید ہے ہمارے لئے ورنہ آج شام اور عراق کا آدھے سے زیادہ حصہ داعش کے ہاتھوں میں ہوتا اور اسرائیل داعش کو ختم کرکے خود آگے آجاتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم شیعوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ ہمارے شیعہ یاعلی یاحسین یاعباس کہتے ہوئے نکلے ہیں اور جہاں جہاں گئے ہیں ان کو نکال باہر کیا ہے۔ میرا سلام ہو تمام مراجع تقلید پر خواہ وہ رہبر معظم ہوں، آیت اللہ سیستانی ہوں، آیت اللہ حافظ بشیر یا دیگر مراجع تقلید ہوں کہ انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ کسی بھی صورت میں داعش کو پنپنے نہیں دیں گے۔ فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا ناسور ہے کہ اگر ہم نے اسے نظرانداز کردیا ، یا مزاحمت چھوڑ دی تو اس نے یہاں پر بھی آکر مصیبت ڈال دینی ہے۔ انڈیا نے جو اسرائیل کے ساتھ اس قدر مراسم بڑھا رکھے ہیں وہ اسی لئے کہ مسلمانوں کو اور خاص کر شیعوں کو دبائیں کیونکہ اگر صیہونیوں نے کسی سے مار کھائی ہے تو علی ابن ابیطالب کے شیعوں سے کھائی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹریٹ کرائمز بہت بڑھ گئے ہیں۔ آپ نے بینک یا اے ٹی ایم سے پیسے نکالے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیمتی جانیں چلی گئیں۔ دیکھیں اگر گاڑی چھن جائے یا پیسے چھن جائیں تو اگر اللہ چاہے گا تو ان کا نعم البدل مل جائے گا لیکن اگر جان چلی گئی تو پھر واپس نہیں آتی۔ خدارا، اول تو احتیاط کریں کہ خطرہ آپ کے سامنے آجائے۔ میں شرعی مسئلہ بتا رہا ہوں کہ اگر آپ نے خوامخواہ کی مزاحمت کی اور اللہ نہ کرے کہ جان چلی گئی تو یہ موت اشکال والی موت ہوگی۔ اللہ سے شہادت طلب کریں۔ مال کی کیا حیثیت ہے کہ انسان اس کے لئے اپنی جان گنوا دے۔ بچے یتیم ہوجائیں گے، بہنیں یتیم ہوجائیں گی، ان کا کیا؟ حکم شرعی بیان کر رہا ہوں کہ اگر کوئی آپ سے مال چھین رہا ہے تو ایسی کوئی حرکت مت کیجئے کہ جس سے آپ کی جان خطرے میں پڑ جائے۔ شریعت میں دفاع کرنے کا حکم ہے، لیکن ان حالات میں کہ جب جان چلی جانے کا خوف ہو، مزاحمت صحیح نہیں ہے۔ اسلحہ کے سامنے آپ کیسے مزاحمت کرسکتے ہیں؟!

فطرے کی ادائیگی کا اصول یہ ہے کہ جو چیز آپ عام طور پر کھاتے ہیں، ایک غلط فہمی ہمارے یہاں یہ پیدا ہوگئی ہے کہ فطرہ صرف گندم کا ہوگا۔ نہیں، اگر میں چاول کھاتا ہوں، یا میری استطاعت کھجور اور کشمش کی ہے، بلکہ میں نے تو اپنے اجتہاد کے ذریعہ اس میں گوشت کو بھی شامل کیا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی لوگ ہیں جو ہفتہ میں چار سے پانچ دن گوشت کھاتے ہیں، انہیں چاہئے کہ گوشت کا فطرہ نکالیں۔ بعض مالدار لوگ آ کر کہتے ہیں کہ مولانا 210 کے حساب سے یہ ہمارے پانچ افراد کا فطرہ وصول کرلیں۔ میں نے کہا آپ نے گاڑی پراڈو رکھی ہوئی ہے اور فطرہ گندم کا نکال رہے ہیں۔ مجھے دھوکہ دے رہے ہیں یا اللہ کو؟ ناراض ہوگئے وہ صاحب۔ میں نے کہا: آپ کے ناراض ہونے سے میرا کیا جاتا ہے۔ غریب کا حق میں آپ کے پاس کیسے رہنے دوں۔ کہنے لگے کہ مولانا! میری حیثیت کا آپ کو کیسے پتا؟ میں نے کہا کہ آپ کے لباس اور آپ کی گاڑی سے آپ کی حیثیت کا پتا چل رہا ہے۔ کہنے لگے کہ ہو سکتا ہے کہ میں مقروض ہوں۔ میں کہا کہ پھر گاڑی بیچئے اور قرضہ ادا کیجئے۔ یہ دین سے نہیں اپنے آپ سے کھلواڑ ہے۔ اگر آپ پر زیادہ قیمت والی جنس کا فطرہ واجب ہے اور آپ کم قیمت والی جنس کا فطرہ دے دیتے ہیں تو یہ قبول نہیں ہے۔ فقیر کا مال آپ کی گردن پر ہے۔ کہتے ہیں کہ مولانا ایک نئی چیز لے آئے ہیں۔ ہم نے تو آج تک نہیں سنا کہ گوشت کا فطرہ دیا جاتا ہے۔ ہم نے توضیح المسائل نکال کر انہیں دکھایا تو کہا کہ ہاں اگر اس لحاظ سے آپ گوشت کا فطرہ کہتے ہیں تو صحیح ہے ورنہ ہم ہمیشہ سمجھتے تھے کہ گندم، جو، چاول، کھجور اور کشمش کا فطرہ ہوتا ہے۔پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ جن کے رشتہ داروں میں غریب افراد موجود ہوں وہ یہاں فطرہ جمع نہ کروائیں، اپنے ان غریب رشتہ داروں کو دیں۔ ہاں اگر غریب رشتہ دار موجود نہ ہوں تو پھر یہاں جمع کروا سکتے ہیں۔

 

 

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=16938