23

مدینہ تا کربلا۔۔۔۔۔امام حسین علیہ السلام کے چند خطوط و خطبات

  • News cod : 21226
  • 18 آگوست 2021 - 2:36
مدینہ تا کربلا۔۔۔۔۔امام حسین علیہ السلام کے چند خطوط و خطبات
مدینہ سے روانگی سے قبل اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ کے نام خط میں لکھا ” میں فتنہ و فساد برپا کرنے یا اپنی شہرت کے لئے نہیںبلکہ اپنے جد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے امور کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں۔میں نے نیکیوں کاحکم دینے،برائیوں سے روکنے اور اپنے جد بزرگوار اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کی پیروی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔۔۔۔“

آیت اللہ حافظ سیدریاض حسین نجفی 

صدروفاق المدارس الشیعہ
صدیوں سے سانحہ کربلا،قیام امام حسین علیہ السلام کے بارے مختلف انداز میں تجزیے کئے جا رہے ہیںجن میںاس کے علل و اسباب،پس منظر،اہداف و مقاصد وغیرہ پر بحث ومباحثہ جاری ہے۔یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد۸۲ رجب ۰۶ ہجری کو مدینہ سے روانگی سے لے کر ۰۱محرم ۱۶ ہجری کربلا میں شہادت تک امام عالی مقام نے اپنے اس قیام کے حوالے سے متعدد خطوط تحریر فرمائے،کئی مقامات پر خطاب فرمایا جس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ان چند سطور میںامام کے چند خطوط و خطبات ،کلمات کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جس سے تاریخ اسلام کے اس بے مثال قیام و سانحہ کے کئی پہلو واضح ہوتے ہیں۔
آخر رجب ۰۶ ہجری میں حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے اصرار پر امام حسین نے اپنا دوٹوک مﺅقف ان الفاظ میںبیان فرمایا ”ہم اہل بیت نبوت،معدن رسالت،فرشتوں کی آمد ورفت کے اعزاز کے حامل ہیں جبکہ یزید ایک فاسق شخص،شراب خوار،بے گناہوں کا قاتل اور سرعام گناہ کرنے والا ہے۔مجھ جیسا اس جیسے کی ہرگز بیعت نہیں کر سکتا“ (فتوح ابن اعثم جلد ۵ صفحہ ۸۱، بحار الانوار جلد ۱ صفحہ ۲۸۱)اس موقع پر مروان بن حکم نے بھی بیعت کے لئے مطالبہ کیا تو آپ نے مزید فرمایا”امت اسلامی پر جب یزید جیساحاکم مسلط ہو جائے تو اسلام پر فاتحہ پڑھ لی جائے“(لھوف صفحہ ۹۹، بحارالانوار جلد ۱ صفحہ ۴۸۱)
قیام کا مقصد: مدینہ سے روانگی سے قبل اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ کے نام خط میں لکھا ” میں فتنہ و فساد برپا کرنے یا اپنی شہرت کے لئے نہیںبلکہ اپنے جد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے امور کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں۔میں نے نیکیوں کاحکم دینے،برائیوں سے روکنے اور اپنے جد بزرگوار اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کی پیروی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔۔۔۔“
مکہ پہنچ کر بصرہ کے عمائدین کے نام آپ کے خط کا ایک اہم جملہ یہ تھا ”سنت رسول ص کو پس پشت ڈال دیا گیا،ایک کے بعد دوسری بدعت ظاہر ہو رہی ہے۔میں تمہیں کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔۔۔۔“ ۔ اس دوران کوفہ سے بارہ ہزار کے قریب خطوط امام حسین کو ملے جن میں آپ کو کوفہ تشریف لانے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ لوگ آپ کی بیعت کریں۔آپ نے ان سب کے جواب میں ایک مختصرخط تحریر فرمایا ” حسین بن علی کی طرف سے مسلمانوں اور مومنوں کی ایک جماعت کے نام ۔۔۔۔اما بعد:ہانی وسعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس پہنچے۔تم نے لکھا کہ ہمارا کوئی امام و رہبر نہیں ہے،ہمارے پاس آنے میں جلدی کیجئے ہوسکتاہے کہ خدائے متعال آپ کے زریعہ ہمیں راہ حق کی ہدائت کر دے۔میں اپنے چچا ذاد بھائی مسلم بن عقیل کوجوکہ میرے معتمد ہیں تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔اگر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ اہل فضل و عقل تمہارے خطوط اور تمہارے قاصدوں کے پیغام کی تائید کرتے ہیں تو میںعنقریب تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں،انشاءاللہ۔۔۔قسم اپنی جان کی،امام صرف وہ ہے جو کتاب خدا سے حکم کرتا ہے،عدل اختیا کرتا ہے،دین خدا کو قبول کرتاہے اور خود کو رضائے خدا کے لئے وقف کردیتا ہے“
(بحوالہ ارشاد،شیخ مفید جلد ۲ صفحہ ۸۴، تاریخ طبری جلد۶ صفحہ ۸۹۱)
چند ماہ بعدجب امام کے قافلہ کی مکہ سے عراق روانگی کی مدینہ اطلاع پہنچی تو آپ کے قریبی عزیز جناب عبداللہ بن جعفر نے خط کے ذریعہ اس سفر سے رکنے کی التجاکی اور قتل ہوجانے کاخدشہ ظاہر کیا ۔آپ نے جواب میں لکھا ”اپنے نانا رسول خدا کو خواب میں دیکھا ہے ،انہوں نے مجھے اس چیز کے بارے خبر دی ہے ۔مجھے اس کی انجام دہی کی کوشش کرنا چاہئے خواہ اس میںمیرا فائدہ ہو یا نقصان ۔بھائی ! اگر میں چیونٹی کے سوراخ میں بھی چلاجاﺅں تب بھی یہ بنی امیہ باہر نکال کر قتل کر دیں گے۔خدا کی قسم وہ مجھ پر اسی طرح ظلم و ستم روا رکھیں گے جس طرح یہودیوں نے ہفتہ کے دن روا رکھے تھے“۔ امام عالی مقام کا قافلہ عراق کی طرف بڑھ رہا تھاکہ حر کے لشکر نے پیشقدمی سے روک دیا۔امام حسین ان سے یوں مخاطب ہوئے ”لوگو! خداسے ڈرو ! پرہیزگار بن جاﺅ اور حق کو ان افراد کے اختیار میں دو جو اس کے اہل ہیںاس طرح خدا کو خوشنود کرو،اس لحاظ سے ہم اہلبیت تمہارے ولی بننے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں جو اس کے مدعی ہیں،وہ تمہارے ساتھ عدل سے پیش نہیں آتے اور تمہارے حق میں ظلم کرتے ہیں۔اگر تم ہمارے لئے ایسے حق کے قائل نہیں ہو اور ہماری اطاعت نہیں کرنا چاہتے اور تمہارے خط اور قول میںیکسانیت نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس پلٹ جاﺅں گا“ پھر فرمایا” کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوگ حق پر عمل نہیں کرتے اور باطل سے پرہیز نہیں کرتے۔ایسے میں مومن کو خداسے ملاقات کا مشتاق ہونا ہی چاہئے۔میں موت کوسعادت اور ظالموںکے ساتھ زندہ رہنے کو ننگ و عار سمجھتاہوں“ لشکر حر سے ایک اہم خطاب: کچھ منزلیں طے کرنے کے بعد ایک بار پھر لشکر حر کو خطاب فرمایا ”لوگو! رسول ص نے فرمایا کہ جو شخص ظالم بادشاہ کوخداکی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کوحلال قرار دےتے،خدا کے عہد کو توڑتے،سنت خدا کی مخالفت کرتے اور خدا کے بندوں پر ظلم روا رکھتے ہوئے دیکھے اور قول و فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔بنی امیہ نے شیطان کے حکم کے تحت خداکی اطاعت سے روگردانی کر لی ہے،فساد پھیلا رہے ہیں،خدا کی حدود کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کرتے۔بیت المال کو اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔خدا کے حلال کو حرام اور حرام کوحلال سمجھ لیا ہے۔انہیں ان بدکاریوں سے روکنے کا میں خود کو زیادہ اہل سمجھتا ہوں“ اسی سفر میں جب مشہور شاعر فرزدق نے آپ کو متوجہ کیا کہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں تو آپ نے یہ حکیمانہ کلمات ارشاد فرمائے”لوگ دنیا کے بندے ہیں،اس وقت تک دین کادم بھرتے ہیں جب تک ان کی دنیا بنی رہے۔جب کوئی آزمائش ،امتحان درپیش ہو تو سچے دیندارکم رہ جاتے ہیں“ دوران سفر آپ سے یہ شعر بھی منسوب ہے کہ”اگر محمد(ص)کا دین میرے قتل کے بغیر نہیں قائم رہ سکتا تو اے تلوارو مجھ پر ٹوٹ پڑو“
روز عاشور چند اہم خطاب:
شب عاشور امام حسین نے دو دن کی پیاس کے باوجود اپنے اہلبیت و اصحاب کے ہمراہ دعا،تلاوت قرآن و عبادت میں گزاری۔۰۱ محرم کی نماز فجر کے بعد جنگ کا آغاز ہوا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا گھوڑا طلب کیا، سوار ہوئے اور بلند آواز میں عمر بن سعد کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
“لوگو! میری بات سنو! جنگ کرنے میں اس وقت تک عجلت نہ کرو جب تک کہ میں تمہیں اس چیز کی نصیحت نہ کردوں، جس کا ادا کرنا میرے اوپر فرض ہے ۔ میں تمہارے سامنے حقیقت بیان کئے دیتا ہوں۔ اگر انصاف سے کام لوگے تو خوش بخت ہو جاﺅ گے اور اگر قبول نہیں کرو گے اور حق و انصاف کی راہ سے کنارہ کشی کرو گے اور اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہناﺅ گے اور ہم سے جنگ کرو گے تو خدا میرا آقا و مولا ہے کہ جس نے قرآن نازل کیا اور نیکوکاروں کے اختیارمیں دے دیا ۔
لوگو! میرا نسب یاد کرو، سوچو میں کون ہوں؟ ہوش میں آﺅ اپنے نفسوں پر ملامت کرو اور غور کرو کیا مجھے قتل کرنا اور میری حرمت پامال کرنا تمہارے لئے روا ہے۔؟
کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا اور رسول کے وصی کا فرزند اور آنحضرت کے ابن عم کا پسر نہیں ہوں ؟ کیا میں اس کا نور چشم نہیں ہوں ، جو سب سے پہلے ایمان لایا اور رسول کی ان باتوں کی تصدیق کی جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔کیا سید الشہداءحضرت حمزہ میرے چچا نہیں ہیں ؟ کیا جعفر طیار کہ جنہیں خدا نے دوپر عطا کئے ہیں جن کے ذریعہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں وہ میرے چچا نہیں ہیں؟کیا تم نہیں جانتے کہ رسول خدا نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا ہے یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔ ۔۔۔جابر بن عبداللہ انصاری ، ابوسعید خدری ، سہیل بن سعد ساعدی ، زید بن ارقم اور انس بن مالک سے پوچھ لو وہ تمہیں بتائیں گے کہ رسول سے کیا سنا ہے۔ اس سے میری باتوں کی تصدیق ہو جائے گی ، آیا یہ گواہیاں تمہیں میرا خون بہانے سے باز نہیں رکھتی ہیں۔؟
جب عمر بن سعد امام حسین ؑ سے جنگ کے لیے اپنی فوج کو تیار کر چکا ، پرچم گاڑدئیے اور فوج کا میمنہ و میسرہ منظم کر چکا ، تو قلب لشکر کے سپاہیوں سے کہا ثابت قدم رہو اور امام حسین ؑ کو چاروں طرف سے گھیر لو، اسی وقت امام حسین ؑ فوج کوفہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا “خاموش ہوجاﺅ ” لیکن وہ خاموش نہ ہوئے آپ نے ان سے فرمایا۔
” خدا تمہیں سمجھے ، اگر تم میری بات سن لو گے تو تمہارا کیا بگڑ جائے گا ؟ میں تمہیں صراط مستقیم کی طرف بلاتا ہوں جو میری اطاعت کرے گا وہ ہدایت پاجائے گا اور جو میری نافرمانی کرئے گا وہ ہلاک ہوگا ۔تم سب میرے فرمان سے سرکشی کرتے ہو اور میری باتوں پر کان نہیں دھرتے کیونکہ تمہارے پیٹ حرام مال سے بھرے ہوئے ہیں اور تمہارے دلوں پر بدبختی و شقاوت کی مہرلگ چکی ہے ۔ وائے ہو تم پر ! کیا تم خاموش نہیں ہوگے اور میری بات نہیں سنو گے؟
اس پر عمر بن سعد کے ساتھیوں نے آپس میں ایک دوسرے پر ملامت کی اور کہنے لگے ان کی بات سنو ! جب دشمن کی فوج خاموش ہوگئی تو امام ؑ نے فرمایا: اے گروہ !خدا تمہیں ہلاکت و مصیبت میں مبتلا کرے ، تم نے ہمیں فریاد و عاجزی سے پکارا تاکہ ہم تمہاری فریاد کو پہنچیں اور ہم جلدی سے تمہاری فریاد رسی کیلئے آگئے تو تم نے وہی تلوار ہمارے اوپر کھینچ لی جو ہم نے تمہارے ہاتھ میں دیدی تھی اور تم نے وہی آگ ہمارے لیے بھڑکائی جو ہم نے اپنے اور تمہارے دشمنوں کیلئے روشن کی تھی ۔ اپنے دوستوں سے جنگ اور اپنے دشمنوں کی نصرت کیلئے کھڑے ہوگئے ہو اگرچہ نہ وہ تمہارے درمیان انصاف کرتے ہیں اور نہ تم ان سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہو اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ ہم سے ایسی کوئی چیز صادر نہیں ہوئی کہ جس کی پاداش میں ہم سے ایسی دشمنی کی جائے اور ہم پرحملہ کیا جائے ۔ خدا تمہیں سمجھے ہمیں اس وقت کیوں پریشان کیا جب تلواریں غلاف میں تھیں اور دلوں کو سکون تھا ۔ مکھیوں کی مانند فتنہ کی طرف اڑے اور پر وانوں کی طرح ایک دوسرے کی جان کی فکر میں پڑگئے ، کنیز کی اولادو! گروہوں کے پسماندگان ! کتاب خدا سے منھ پھیرنے والو! خدا کی آیات میں تحریف کرنے والو! سنت رسول کو فراموش کرنے والو ! انبیاءکی اولاد اور ان کے اوصیاءکی عترت کو تہ تیغ کرنے والو ! مجہول النسب کو صاحبان نسب سے ملحق کرنے والو! مومنوں کو آزار پہنچانے والو اور قرآن کو پارہ پارہ کرنے والو! کفار کا ڈھنڈورپیٹنے والو ! خدا تمہیں غارت کرے ، خدا کی قسم بیوفائی اور پیمان شکنی تمہاری عادت ہے ، تمہارا خمیر مکروبیوفائی سے آمیختہ ہے ، اس کے مطابق تمہاری پرورش ہوئی ہے تم بدترین میوہ ہو ، اپنے باغبان کیلئے گلے کی ہڈی ، راہزنوں اور غاصبوں کیلئے خوش مزہ ۔ خدا لعنت کرے ان پیمان شکن لوگوں پر جنہوں نے محکم شدہ میثاقوں کو تو ڑدیا۔ تم نے خدا کواپنا کفیل قرار دیا تھا ، خدا کی قسم وہ پیمان شکن تم ہی ہو ۔ آج ولدالزنا ابن ولدالزنا (عبید اللہ بن زیاد) نے مجھے دو چیزوں کے درمیان لاکھڑا کیا ہے ، تلوار کھنچنے یا ذلت قبول کرنے کا ، میں ہرگزذلت قبول نہیں کروں گا ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومنین ہرگز ذلت پسند نہیں کرتے ، ہماری پرورش کرنے والے پاک دامن ، بیدار مغز اور غیرت مند ہیں ، ہم ہرگز پست و کمین کی اطاعت نہیں کریں گے ۔ اس مختصر جماعت کے ساتھ میں تم سے جنگ کروں گا اگرچہ مجھے مدد گاروں نے تنہا چھوڑ دیا ہے” اس کے بعد آپ نے کچھ اشعار پڑھے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے: “اگر ہم کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، ہم تو ایک زمانہ سے کامیاب ہیں اور اگر مغلوب ہوتے ہیں تو بھی ہم مغلوب نہیں ہیں، ڈرنا ہماری عادت نہیں ہے لیکن دوسرں کی بدولت قتل ہونا ہماری عادت ہے”
اے کفران پیشہ لوگو! خدا کی قسم میری شہادت کے کچھ دنوں بعد ہی ، اتنی ہی دیر بعد کہ جتنی دیر میں ایک سوار اپنے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے ، زمانہ تمہیں چکی کے پاٹوں کی طرح پیس دے گا اور تم کو خوف و ہراس کے دریا میں ڈبودے گا ۔ یہ وعدہ میرے والد نے میرے جد کی طرف سے مجھ سے کیا ہے ، تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی رائے کے بارے میں ایک بار پھر غور کرو تاکہ تم زمانہ کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکو ، میں نے تو اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے ، میں جانتا ہوں کہ خدا کی قدرت بالغہ کے بغیر روئے زمین پر کسی چیز کو حرکت نہیں ہوتی ۔
اے اللہ ! اس قوم کو آسمان کی بارش سے محروم کردے ، انہیںیوسف کے قحط جیسے قحط میں مبتلا کردے اور ان پر ثقفی غلام کو مسلط کردے کہ وہ انہیں زہر کے جام پلائے ۔ میرا ، میرے اہل بیت ؑ، میرے اصحاب اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے کہ انہوں نے ہمیں جھٹلایا اور ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ۔ تو ہی ہمارا پروردگار ہے ہم تجھ ہی سے لو لگائے ہیں ، تجھ ہی پر توکل کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے “ پھر یزیدی لشکر کے سپہ سالار عمر بن سعد سے فرمایا ”تم مجھے قتل کرو گے؟تم یہ سمجھتے ہوکہ عبیداللہ بن زیاد تمہیں”رے“کی حکومت بخش دے گا؟خداکی قسم!تمہاری یہ آرزوہرگز پوری نہ ہو گی۔جوچاہوکرو،میرے بعدتم نہ دنیامیںخوش رہو گے اور نہ آخرت میں،گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ کوفہ میںتمہاراسر نیزہ پر نصب ہے اور بچے اس کا نشانہ لے رہے ہیں“ حوالہ جات: (۱) حیات الامام الحسین ؑ ، جلد۳ ،صفحہ ۴۸۱ (۲) ارشاد شیخ مفیدؒ جلد ۲ صفحہ ۷۹

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=21226