7

تحریف قرآن نا ممکن ہے: ایک جامع مطالعہ/مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی

  • News cod : 25436
  • 16 نوامبر 2021 - 13:20
تحریف قرآن نا ممکن ہے: ایک جامع مطالعہ/مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی
کسی مکتب فکر کی کتب میں روایات کا موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مکتب فکر ان روایات کے مطابق نظریہ قائم کرتا ہے، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مکتب فکر کے علمائے سلف نے ایک نظریہ قائم کیا ہو، لیکن بعدکے علماء اس نظریے پر قائم نہ رہے ہوں۔ اس صورت میں انصاف و دیانت کا تقاضا، کیا یہ ہے کہ اس مکتب فکر کو ان کے علمائے سلف کے نظریے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے یا موجودہ موقف کو قبول کیا جائے؟

تحریف قرآن ایک باطل نظریہ ہے کیونکہ قرآن تحریف ناپذیر معجزہ ہے۔قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی حقانیت پر اللہ کی طرف سے ایک معجزہ ہے:
وَاِنَّہٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ۝۴۱ۙ لَّا يَاْتِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ۝
یہ ایک بالادست کتاب ہے، باطل نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے، نہ پیچھے سے، یہ حکمت والے لائق ستائش (رَبْ) کی نازل کردہ ہے۔ (۴۱ حمٓ سجدۃ:۴۱۔۴۲)
یہ بات ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نبی کو معجزہ عنایت کرے، پھر وہ معجزہ ناتمام رہ جائے یا اس معجزے کی طرف باطل قوتوں کو اپنا ہاتھ دراز کرنے کا موقع مل جائے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ (ع) کے معجزات ان کے بیرونی دشمن فرعون اور داخلی دشمن سامری کی دست درازی کی زد میں آ جائیں؟ حاشا و کلا۔
دشمنانِ اسلام نے قدیم زمانے سے اپنی سازشیں اس بات پر مرکوز رکھیں کہ قرآن کو مخدوش اور متنازعہ بنائیں۔ بدقسمتی سے خود امت قرآن کے بعض افراد محض فرقہ وارانہ تعصب کے باعث اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں دشمنوں کے ہمدوش ہو گئے کہ فلاں فرقہ تحریف قرآن کا قائل ہے۔ یہ نادان اتنا بھی نہیں جانتے کہ وہ اس الزام سے قرآن کومشکوک بنا رہے ہیں۔ نظریاتی مخالفین سے عناد اور جاہلانہ تعصب کی وجہ سے ا ن کے فہم و ادراک کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ہمارے سارے علماء اپنا اجماعی موقف بیان کریں کہ ہمارے نزدیک تحریف قرآن کا نظریہ سراسر باطل، فرسودہ اور شواذ میں شامل ہے اور ایسے شواذ کسی مسلک و مذہب میں قابل اعتنا نہیں ہوتے، پھر بھی یہ لوگ نہیں مانتے۔ حالانکہ امانت و دیانت کا کوئی شائبہ ہوتا تو اس حد تک بہتان تراشی اور کذب وافترا کا ارتکاب نہ کرتے اور کچھ خوف خدا کرتے۔
ہم ذیل میں اس موضو ع سے متعلق کچھ بیان کرنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ بعض باتوں کا تذکرہ خود ہم پر بھی گراں گزرتاہے، لیکن ایک موقف کو ذہن نشین کرانے کے لیے کبھی مخاطب کو خود ا س کے اپنے حالات کی روشنی میں سمجھانا پڑتا ہے۔ ہم ان حضرات سے معذرت چاہتے ہیں جو اس تنگ نظری اور بد دیانتی و خیانت کے مرتکب نہیں ہیں۔
روایت اور نظریہ:
کسی مکتب فکر کی کتب میں روایات کا موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مکتب فکر ان روایات کے مطابق نظریہ قائم کرتا ہے، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مکتب فکر کے علمائے سلف نے ایک نظریہ قائم کیا ہو، لیکن بعدکے علماء اس نظریے پر قائم نہ رہے ہوں۔ اس صورت میں انصاف و دیانت کا تقاضا، کیا یہ ہے کہ اس مکتب فکر کو ان کے علمائے سلف کے نظریے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے یا موجودہ موقف کو قبول کیا جائے؟
نظریہ تجسیم:
اللہ تعالیٰ کے جسم اور جسمانی ہونے کے سلسلے میں آپ درج ذیل مطالب کا مطالعہ فرمائیں اور فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں:
٭ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ اپنا قدم جہنم میں ڈال دے گا۔ (صحیح بخاری ۲: ۳۳ طبع مصر ح ۴۴۷۲۔ صحیح مسلم ۱: ۱۷۲ طبع لکھنو۔)
سعودی عرب کے ایک سکول میں استاد نے شاگرد سے پوچھا: بِمَ تعرف ربک؟ یعنی تم اپنے رب کو کس چیز سے پہچانتے ہو ؟ شاگرد بولا: برجلہ المحروق یعنی اس کے جلے ہوئے پاؤں سے۔
٭ امام الحنابلہ ابن تیمیۃ کا کہنا ہے: خدا عرش سے آسمان دنیا پر اسی طرح اترتا ہے جس طرح ہم اترتے ہیں۔ پھر خود زینے سے اتر کر کہا: اس طرح!! (رحلۃ ابن بطوطۃ ۱: ۴۳ باب بعض المشاہد والمزارات (مکتبۃ الشاملۃ))
٭ خد اکی آنکھیں دکھنے لگیں تو ملائکہ نے اللہ کی عیادت کی۔ طوفان نوح پر خدا اس قدر رویا کہ آنکھیں سوجھ گئیں۔ عرش پر خدا بیٹھتا ہے تو اس کے بوجھ سے عرش چرچرا تا ہے اور عرش کے چاروں طر ف سے خدا کا جسم چار انگل باہر لٹکتا رہتا ہے۔ (منہاج السنۃ ۱: ۲۳۸ طبع مصر)
٭ اللہ کی داڑھی اور علامت مردو زن کے بارے میں نہ پوچھو۔ باقی جس عضو کے بارے میں جوچاہو پوچھو۔ (الشہرستانی: الملل و النحل ۱: ۴۸ طبع بمبئی)
٭ علمائے سلف ان لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ اللہ کہاں ہے اور اللہ کے لیے جگہ کا تعین نہیں کرتے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص۹۶)
٭ جو شخص یہ نہیں کہتا کہ اللہ زمین میں نہیں، آسمان میں ہے، وہ کافر ہے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص۹۶)
٭ انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم (ص) نے بارش کو اپنے جسم پر لینے کے لیے لباس ہٹا دیا تو سوال ہونے پر فرمایا: لانہ حدیث العہد بربہ ۔ یہ ابھی اپنے رب کے پاس سے آ رہی ہے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص ۲۰)
مولانا شبلی نعمانی ان نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عقائد میں جس طرح درجہ بدرجہ تغیر ہوتا جاتا ہے، اسے ہم ایک خاص مسئلے کی مثال میں پیش کرتے ہیں:
پہلا درجہ: خد اجسمانی ہے۔ عرش پر متمکن ہے۔اس کے ہاتھ منہ ہیں۔ خد انے آنحضرت (ص) کے دوش پر ہاتھ رکھ دیا تو آنحضرت کو (ص) ہاتھوں کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔
دوسرا درجہ: خدا جسمانی ہے۔ اس کے ہاتھ، منہ اور پنڈلی ہیں۔ لیکن یہ سب چیزیں ایسی نہیں جیسی ہماری ہیں۔ (علم الکلام صفحہ ۱۵ طبع اعظم گڑھ)
اللہ کے جسم اور جسمانی ہونے پر علمائے سلف کے دلائل کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ فرمائیں جن میں اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے پر بہت سے دلائل قائم کیے گئے ہیں۔
۱۔ کتاب السنۃ ۔ تالیف: امام احمد بن حنبل امام الحنابلۃ۔ طبع دار ابن القیم السعودیۃ۔
۲۔ کتاب الابانۃ ۔ تالیف: ابو الحسن اشعری امام الاشاعرہ ۔ طبع حیدر آباد دکن۔
۳۔ الرد علی الجھمیۃ ۔ تالیف: امام احمد بن حنبل اامام الحنابلۃ۔ طبع دار الوعی حلب۔ شام۔
۴۔ خلق افعال العباد ۔ تالیف: محمد بن اسماعیل مؤلف صحیح بخاری۔
۵۔ کتاب العرش والعلو ۔ تالیف: الحافظ شمس الدین الذہبی، امام الحدیث۔،مطبع فاروقی دہلی۔ ہندوستان
۶۔ کتاب الرد علی الجہمیۃ ۔ تالیف: الامام عثمان بن سعید الدارمی طبع بریل لیدن۔
۷۔ کتاب التوحید ۔ تالیف: الامام ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ۔ طبع ریاض۔ سعودی عرب۔
۸۔ اجتماع الجیوش الاسلامیۃ ۔ تالیف:ابن قیم الجوزیہ۔ طبع مکتبہ ابن تیمیہ۔ قاہرہ۔ مصر۔
۹۔ الشریعۃ ۔ تالیف: ابوبکر محمد بن الحسین الاجری الشافعی۔ طبع دار السلام۔ ریاض۔ سعودی عرب۔
۱۰۔ السنۃ ۔ تالیف: احمد بن محمد الخلال البغدادی، شیخ الحنابلۃ۔ طبع دمشق۔ شام
۱۱۔ مناھج الدولۃ ۔ تالیف: الحکیم ابن رشد۔
ان کتابوں میں اللہ کے جسمانی ہونے پر دلائل موجود ہیں اور ان کے مؤلفین میں سے بعض ائمۂ مذاہب ہیں۔ بعض امام الحدیث ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی کتب اور بیسیوں روایات موجود ہیں۔ (ان کے علاوہ درج ذیل کتب بھی اللہ کے جسمانی ہونے پر دلائل سے پُر ہیں: ۱۔ ابو یعلی۔ نقص التاویلات ۲۔ ابو نصر۔ الابانۃ ۳۔عسال۔ السنۃ ۴۔ ابو بکر عاصم۔ السنۃ ۵۔ طبرانی السنۃ ۶۔حرب السیرجانی۔الجامع ۷۔حکم بن معبد خزاعی۔الصفات۔)
ائمۂ مذاہب کے اس نظریے کو بنیاد بنایا جائے اور اللہ کے جسمانی نہ ہونے پراس مذہب کے دیگر سینکڑوں علماء کے نظریات و دلائل کو نظرانداز کیا جائے اور بقول شبلی نعمانی ’’عقائد میں درجہ بدرجہ رونما ہونے والے تغیر ‘‘ کو اعتنا میں نہ لایا جائے اور اس مذہب کو ’’ فرقہ مجسمہ ‘‘ قرار د ے کر اس کے عقیدہ توحید کو مخدوش قرار دیا جائے توآ پ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ کیا آپ اس عمل کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خلوص قرار دیں گے یا آپ کہیں گے کہ اس شخص نے ہمارے مذہب کے ساتھ عناد اور دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ان اختلافی مسائل کا گہرامطالعہ رکھنے والے انصاف پسند ہمارے اس موقف کی حمایت کریں گے کہ قرآن کے بارے میں اس سے کہیں کمتر مواد کو بعض مکاتب فکر کے حامیوں نے ہمارے (امامیہ کے) خلاف استعمال کیا اور عدم تحریف کے بارے میں ہمارے علمائے سلف و خلف کے اجماعی موقف کو نظرا نداز کیااور شواذ کو ہمارے خلاف دلیل بنایا۔ اگر بفرض محال امامیہ کے بارے میں یہ موقف صحیح ہے تو اس کی زد میں خود اعتراض کنندہ بھی آ جاتا ہے، کیونکہ شواذ تو ہر مذہب میں ہوتے ہیں۔ امام عبد الوہاب شعرانی کو اگر لوگوں کا خوف نہ ہوتا تو وہ ان تمام آیات کو بیان کرتے جو مصحف عثمان سے رہ گئی ہیں:
لو لا ما یسبق للقلوب الضعیفۃ و وضع الحکمۃ فی غیر اھلھا لبینت جمیع ماسقط من مصحف عثمان ۔
اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کم فہم لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جائیں گے نیز نااہل لوگوں کے ہاتھوں حکمت آ جائے گی تو میں ان سب آیات کو بیان کر دیتا جو مصحف عثمان سے رہ گئی ہیں۔ (کبریت احمر برحاشیۃ الیواقیت و الجواہر ۱: ۱۳۹۔ طبع مصر)
دیوبند کے صدر المدرسین شیخ الحدیث سید انور شاہ کشمیری کی تحقیق کے مطابق بھی قرآن میں لفظی تحریف واقع ہو گئی ہے۔ بقول ان کے:
والذی تحقق عندی ان التحریف فیہ لفظی اما انہ عن عمد منھم او لغفلۃ۔
میرے نزدیک تحقیق شدہ بات یہ ہے کہ قرآن میں تحریف لفظی واقع ہوئی ہے، خواہ عمداً ہو یا غفلت کی بنا پر۔ (فیض الباری علی صحیح البخاری ۳: ۳۹۵)
چنانچہ فیض الباری کے فاضل محشی شیخ الحدیث مولانا محمد بدر عالم استاد الحدیث دیوبند نے اپنے ذیلی حاشیہ البدر الساری میں مندرجہ بالا عبارت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
سید محمود آلوسی بغدادی تفسیر روح المعانی کے مقدمہ میں اور شیخ الحدیث حبیب الرحمن کاندھلوی صدیقی مقدمہ تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں:
نعم اسقط زمن الصدیق مالم یتواتر او ما نسخت تلاوتہ ۔
ہاں صدیق (حضرت ابوبکر) کے زمانے میں وہ آیات جو متواتر نہ تھیں یاجن کی تلاوت منسوخ ہو گئی تھی حذف کی گئیں۔
قرآن کے بارے میں مجموعی طور پر مذہب اشعری کے ایک گروہ کا نظریہ دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ اس اسلامی فرقے کا ایسا نظریہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ نظریہ اس طرح ہے:
ان القرآ ن لم ینزل قط علی قلب محمد علیہ الصلوۃ و السلام۔ و ان مانقرأ فی الصلوۃ و نحفظ فی الصدور لیس ھو القران البتۃ۔
اللہ تعالیٰ کا کلام جبرئیل علیہ السلام نے قلب محمد (ص) پر نازل نہیں کیا اور جو چیز ہم نماز میں پڑھتے اور سینے میں (قرآن کے نام سے) محفوظ رکھتے ہیں، ان میں سے کوئی چیز کلام اللہ نہیں ہے۔ (ابن حزم۔الفصل فی الملل و النحل ۴: ۱۵۹۔ طبع مصر)
اسی کتاب میں یہ عبارت بھی آپ پڑھیں گے (جسے ہم بخوشی نقل نہیں کر رہے ہیں):
ولقد اخبرنی علی بن حمزہ المرادی الصقلی انہ رای بعض الاشعریۃیبطح المصحف برجلہ قال:فاکبرت ذالک وقلت لہ:ویحک ھکذاتصنع بالمصحف و فیہ کلام اللہ تعالیٰ؟فقال: ویلک واللہ مافیہ الاالسخام والسوادواما کلام اللّٰہ فلا۔
علی ابن حمزہ مرادی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے مذہب اشعری کے ایک پیروکار کو دیکھا کہ وہ اپنے پاؤں سے قرآن کو ٹھوکر مار رہا تھا۔ میں نے اسے بڑی جسارت سمجھ کر اس سے کہا: افسوس ہو تم پر، اس مصحف کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو جب کہ اس میں اللہ کا کلام ہے؟ اس نے کہا: تباہی ہو تم پر، قسم بخدا اس میں کلام خدا نہیں بلکہ صرف سیاہ لکیریں ہیں۔
آگے لکھتے ہیں:
و کتب الی ابو المرحی بن رزوار المصری: ان بعض ثقات اھل مصر من طلاب السنن اخبرہ: ان رجلا من الاشعریۃ قال لہ مشافہۃ: علی من یقول ان اللّٰہ قال: قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚ الف لعنۃ۔
اور ابو المرحی بن رزوار مصری نے مجھے لکھا کہ مصر کے بعض ثقہ طالب علموں نے اسے بتایا کہ ایک اشعری نے اس سے بالمشافہ کہا: جو شخص یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚ کہا ہے، اس پر ہزار لعنت ہو۔
ہمارا مؤقف یہ ہے کہ اس قسم کے شواذ کی کوئی اہمیت نہیں اور اجماع امت کے خلاف شاذ و نادر اقوال قابل اعتنا نہیں ہیں۔ یعنی جس طرح مذہب اشعری کے ماننے والے ایسے اقوال کو اہمیت نہیں دیتے ہم بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
امانت: جامعۃ الازھر کے جلیل القدر استاد الشیخ محمد غزالی کو ان کی امانت اور دیانتداری نے ان لوگوں کے خلاف قلم اٹھانے پر مجبور کیا جو امامیہ پر تحریف قرآن کے قائل ہونے کی جھوٹی تہمت لگا کر غیر شرعی حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
مجھے بعض لوگوں پر سخت افسوس ہوتا ہے جو بلا تحقیق بات کر جاتے ہیں اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر تہمتیں لگا دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مریض اخلاق کے ساتھ اسلام کے فکری میدان میں قدم رکھتے ہیں اور اسلام و امت مسلمہ کے خلاف گستاخی کرتے ہیں۔ میں نے ایک محفل میں کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ شیعوں کا ایک اور قرآن ہے جو ہمارے معروف قرآن سے مختلف ہے۔ میں نے اس سے کہا: وہ قرآن کہاں ہے؟ عالم اسلام تین براعظموں پر پھیلا ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے لے کر آج تک چودہ صدیاں گزر چکی ہیں اور لوگوں کو صرف ایک ہی قرآن کا علم ہے جس کے آغاز و اختتام اور سورہ و آیت کی تعداد تک معلوم ہے۔ پس یہ دوسرا قرآن کہاں ہے؟ اتنے طویل عرصے سے کسی جن و انس کو اس کے کسی نسخے کا علم کیوں نہ ہو سکا ؟ یہ بہتان کیوں لگایا جاتا ہے اور یہ پروپیگنڈہ کس کے مفاد کے لیے کیا جاتا ہے ؟ اس سے اپنے بھائیوں اور کتاب اللہ کے بارے میں بدگمانیاں پھیلتی ہیں۔ قرآن ایک ہی ہے جو اگر قاہرہ میں چھپتا ہے تو اسے نجف اور تہران میں بھی مقدس سمجھاجاتا ہے۔۔۔ پھر بعض لوگوں پر نیز وحی الٰہی پر ایسے بہتان کیوں باندھے جاتے ہیں ؟ (دفاع عن العقیدۃ و الشریعۃ۔ صفحہ ۲۶۶۔ طبع دار الکتب الحدیثۃ۔ مصر ۱۹۷۵ء)
شیخ التفسیر دار العلوم دیوبند علامہ شمس الحق اپنی کتاب علوم القرآن میں لکھتے ہیں:
شیعوں کا نظریہ وہی ہے جو سنیوں کا ہے کہ قرآن مکمل طور پر محفوظ ہے جس میں ایک آیت کی کمی و بیشی نہیں ہوئی۔ اس بات کی دلیل کے لیے شیعوں کی متعدد کتب کا حوالہ پیش کرتا ہوں۔ (علوم القرآن ۱۳۴)
مشہور مفسر علامہ عبد الحق حقانی اپنی معروف تفسیر فتح المنان فی تفسیر القرآن المعروف تفسیر الحقانی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
آج تک سلف سے لے کر خلف تک کوئی محقق شیعہ بلکہ کوئی اہل اسلام بھی یہ عقیدہ (کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے) نہیں رکھتا۔ چنانچہ شیعہ علماء اس خیال کی برائت اپنی کتب میں بڑی شدو مد سے کرتے ہیں۔ (تفسیر حقانی ۱: ۶۳ طبع دیوبند)
خیانت: حضرت علامہ رحمۃ اللہ کیرانوی اپنی معروف تصنیف اظہار الحق جلد دوم صفحہ ۸۹ تا۹۰ میں عدم تحریف قرآن کے بارے میں امامیہ کا واضح موقف نقل کرتے ہیں اور امامیہ کے علمائے سلف کے اقوال سے اس موقف کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ کتاب قاہرہ ، استنبول، مغرب عربی اور کراچی سے متعدد بار چھپ چکی ہے۔ ترکی، فرانسیسی، انگریزی، گجراتی اور اردو زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوا ہے مگر کسی ایڈیشن میں کوئی کمی و بیشی اور خیانت نہیں ہوئی۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب کا معروف ادارہ رئاسۃ الادارات للبحوث العلمیۃ و الافتاء والدعوۃ والارشاد (ریاض) کی طرف سے شائع شدہ کتاب اظہار الحق میں انتہائی علمی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھائی صفحات پر مشتمل وہ متن حذف کر دیا گیا ہے جس میں مؤلف نے ثابت کیا تھا کہ اہل تشیع عدم تحریف قرآن کے قائل ہیں۔
نظریہ جبر اور تحریف:
ہمارے شامی دوست سعد رستم ناقل ہیں کہ ایک روز اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے مصری اورمقامی اساتذہ شیعوں کے ایمان بالقرآن پر گفتگو کر رہے تھے اور اس بات کو مسلمہ مان رہے تھے کہ شیعہ اس قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ حال دیکھ کر مجھے بھی شک ہوا اور میں نے گھر جا کر اپنی ایرانی نژاد شیعہ بیوی سے سوال کیا: کیا شیعہ اس قرآن کو نہیں مانتے؟ میری بیوی کے جواب کا لب و لہجہ دیکھ کر مجھے یقین آیا کہ شیعہ اسی قرآن پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ دوسرے دن میں نے اساتذہ کے سامنے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کی جو توجیہ کی وہ ایک یادگار لطیفہ ہے۔ انہوں نے فرمایا: در اصل شیعہ علماء اپنے عوام پر اس عقیدے کا اظہار نہیں کرتے کہ وہ اس قرآن کو نہیں مانتے، جیسا کہ ہم عقیدئہ جبر کا اپنے عوام کے سامنے اظہار نہیں کرتے۔
اسلامی یونیورسٹی کے اساتذہ کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ نظریۂ جبر پر آپ کا جبر نہیں چل سکا اور یہ نظریہ خواص کے ساتھ بہت سے عوام تک پہنچا ہوا ہے، البتہ آپ اس کا پرچار نہیں کرتے۔ شاید اس میں آپ اپنی خفت محسوس کرتے ہوں گے۔ اگر امامیہ اس قسم کا عقیدہ رکھتے تواس پر ہمارا بھی جبر نہ چلتا اور یہ بات کسی نہ کسی طرح اپنے عوام تک پہنچ جاتی۔
چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ما اضمر احد شیئا الا ظھر فی فلتات لسانہ وصفحات وجھہ۔
جس کسی نے بھی کوئی بات دل میں چھپا کر رکھنا چاہی وہ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہرے کے آثار سے ضرور نمایاں ہو جاتی ہے۔ (نہج البلاغہ: کلمات قصار: ۲۵)
نظریات تحریف قرآن:
وہ نظریات جن سے تحریف قرآن لازم آتی ہے: امامیہ ان نظریات کو مسترد کرتے ہیں، جن سے قرآن کا تحفظ مخدوش ہوتا ہے:
۱۔ دو گواہ: یہ بات اہل سنت کے مصادر میں مسلم سمجھی جاتی ہے کہ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں قرآن زید بن ثابت انصاری کے زیر ادارت صرف دو گواہوں کی شہادت کی بنیاد پر جمع کیا گیا۔ یعنی اگر دو گواہوں نے شہادت دی کہ یہ عبارت قرآن کا حصہ ہے تو اسے قرآن میں شامل کر لیاگیا،بلکہ چند آیات تو صرف حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری کی گواہی پر قرآن میں شامل کی گئیں۔
یہاں درج ذیل دلچسپ نکات کا ملاحظہ ضروری ہے:
i۔ ثبوت قرآن کے لیے تواترکے شرط ہونے پراجماع قائم ہے۔ تواتر کے بغیر قرآن ثابت نہیں ہوتا۔
ii۔ اگر بفرض محال دو گواہوں کی بنیاد پرہی قرآن ثابت ہوتا ہے تو پھر قرآن میں تحریف خود بخود لازم آجاتی ہے کیونکہ اہل سنت کے مصادر کے مطابق ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جن کے قرآن ہونے پر دو سے زائد شہادتیں موجود ہیں مگر اس کے باوجود یہ آیات موجودہ قرآن میں نہیں ہیں مثلاً:
۱۔ آیت رجم: الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما ۔
درج ذیل جلیل القدر اصحاب اس آیت کو قرآن کا حصہ قرار دیتے ہیں:
حضرت عمر (صحیح بخاری ۳: ۶۸ طبع مصر و صحیح مسلم ‘ سنن ابن ماجہ)، حضرت عائشہ (سنن ابن ماجہ : ۱۴۱)، اُبی بن کعب (الاتقان ۲: ۲۵)، زید بن ثابت (الاتقان ۲: ۲۵)
۲۔ آیت مال: انا انزلنا المال لاقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ ۔
گواہان: ابی بن کعب (الدر المنثور ۶: ۳۷۸)، زید بن ارقم (الدر المنثور ۶: ۳۷۸)، جابر بن عبد اللہ (الدر المنثور ۶: ۳۷۸)، بریدۃ (الدر المنثور ۶: ۳۷۸)
، ابو موسی اشعری ( صحیح مسلم)، ابو واقد لیثی (الاتقان)، عبد اللہ بن مسعود (محاضرات راغب)
۳۔آیت رغبت: لا ترغبوا عن آبائکم فانہ کفر ان ترغبوا عن آبائکم
گواہان:حضرت عمر (صحیح بخاری)،عبد اللہ بن عباس (الاتقان (، زید بن ثابت (الاتقان)
۴۔ آیت جہاد: ان جاھدوا کما جاھدتم اول مرۃ ۔
گواہان:حضرت عمر (الاتقان ۲: ۲۵)، عبد الرحمن بن عوف (الاتقان ۲: ۲۵)
۵۔سورۃ الخلع: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم انا نستعینک ونستغفرک ٭ و نثنی علیک و لا نکفرک ٭ ونخلع ونترک من یفجرک ٭
۶۔ سورۃ الحفد: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ اللھم ایاک نعبد ٭ و لک نصلی و نسجد ٭ و الیک نسعی ونحفد٭ نرجوا برحمتک ٭ و نخشی عذابک ان عذابک بالکافرین ملحق ٭
ان دو سورتوں کے قرآن کا حصہ ہونے پر درج ذیل اصحاب کی گواہی نقل کی گئی ہے:
گواہان:حضرت عمر بن خطاب (الدر المنثور ۶: ۴۲۰)، حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام (مجمع الزوائد ۷: ۱۵۷)، حضرت ابی بن کعب (الاتقان ۲: ۶۶)، حضرت عبد اللہ بن عباس (روح المعانی ۱: ۲۵ طبع مصر)، حضرت ابو موسیٰ اشعری
۲۔احادیث سبعۃ احرف: صحاح اور دیگر کتب میں متعدد احادیث میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: قرآن سات حروف میں نازل ہوا۔ چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عبا س سے روایت ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:
اقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعتہ فلم ازل استزیدہ و یزیدنی حتی انتھی الی سبعۃ احرف۔
مجھے جبرئیل نے قرآن ایک حرف (طریقے) سے پڑھایا، میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اضافے کی درخواست کرتا گیا یہاں تک کہ سات حرفوں (طریقوں) سے پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ (صحیح بخاری باب: انزل القرآن علی سبعۃ احرف ۴: ۱۹۰۹۔ صحیح مسلم ۱: ۵۶۱)
احادیث سبعۃ احرف مختلف عبارات میں، صحاح و غیر صحاح میں عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، عبد الرحمن بن ابی بکر سے مروی ہیں۔ ان روایات کی مختلف تاویلات بھی کی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ معروف و مشہور توجیہ یہ ہے:’’ قرآنی الفاظ کو قریب المعنی ا لفاظ میں بدلا جا سکتا ہے۔‘‘ حلانکہ اس طرح قرآن کی معجزانہ ہیئت ترکیبی کا حلیہ تبدیل ہوجاتا ہے اور یہی تحریف ہے۔ مثلاً اس بات کی تصریح کی گئی:
۱۔ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا میں صَوْمًا کی جگہ صمتا پڑھنا جائز ہے۔ ( تذکر ۃ الحفاظ ۱: ۳۴۰ طبع دکن)
۲۔ كُلَّمَآ اَضَاۗءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِيْہِ میں مَّشَوْا کی جگہ سعوا یا مروا پڑھا جا سکتا ہے۔ (الاتقان ۱: ۴۷)
۳۔ ابوہریرہ کے نزدیک عَلِيْمًا حَكِـيْمًا کی جگہ غفوراً رحیما پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (الاتقان ۱: ۴۷)
۴۔ اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ میں زُخْرُفٍ کی جگہ ذھب پڑھنا درست ہے۔ (الاتقان ۱: ۴۷)
۵۔ ابن مسعود کے نزدیک العھن کی جگہ الصوف پڑھا جا سکتا ہے۔ (تفسیر طبری ۱: ۱۸)
۶۔ اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً کی جگہ اِلا ذ قیۃ واحدۃ پڑھا جا سکتا ہے۔ (تاویل مشکلات القرآن ۱۹ طبع مصر)
۷۔ ابو ہریرہ کے نزدیک جَاۗءَتْ سَكْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ کی جگہ جاء ت سکرۃ الحق بالموت پڑھنا بھی درست ہے۔ (تفسیر الطبری ۱: ۱۸)
۸۔ ابو درداء کی روایت ہے کہ طَعَامُ الْاَثِيْمِ کی جگہ طعام الفاجر پڑھا جا سکتا ہے۔ (تفسیر الطبری ۲۵: ۱۳۱)
ا س نظریے کو قبول کرنے کی صورت میں دو باتیں ناگزیر ہوتی ہیں:
۱۔ تحریف کا وقوع۔ 2 ۔ تحریف کا جواز۔
پہلی بات یہ کہ جب قرآن سات حرفوں (طریقوں) پر نازل ہوا ہے اور اس وقت ہمارے ہاتھوں میں جو قرآن ہے وہ ایک حرف پر مشتمل ہے تو باقی چھ حرفوں والا قرآن کہاں ہے؟
دوسری بات یہ کہ اگر ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ رکھنا جائز ہے تو اس کا لازمہ یہ ہوا کہ تحریف جائز ہے۔ اسی وجہ سے امامیہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، کیونکہ ایسا کرنے کا حق تو خود رسول اللہ(ص) کو بھی نہیں تھا۔
ارشاد ہے:
قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗيِ نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ
کہدیجیے: مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے۔ (۱۰ یونس: ۱۵)
تحریف قرآن کے بارے میں اگرامامیہ مصادر میں کوئی روایات موجود ہوں تو بھی امامیہ ان روایات پر مبنی کوئی نظریہ قائم نہیں کرتے بلکہ ان کی تو جیہ و تاویل کرتے ہیں۔ اگر تاویل ممکن نہ ہو تو کتاب خدا کے خلاف ہونے کی وجہ سے انہیں مسترد کرتے ہیں۔
لیکن اہل سنت حضرات اپنے مصادر میں موجو د تحریف کی روایات کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے ان روایات پر مبنی نسخ تلاوت کا نظریہ قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح ان روایات کی بنا پر بعض آیات کو قرآن کا حصہ تسلیم کرنے کے بعد ’’ نسخ تلاوت‘‘ کے نظریہ کے ذریعے اس کی قرآنیت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، جب کہ ’’نسخ تلاوت ‘‘ ثابت نہیں ہے۔
۳۔ نسخ تلاوت۔ اہل سنت کے مصادر میں آیا ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات زمان رسول(ص) میں قرآن کا حصہ تھیں۔ انہ کان قرآن علی عھد رسول اللّٰہ ۔ مثلاً آیہ رجم، آیہ رضاعت اور آیہ رغبت کے قرآن کا حصہ ہونے کے بارے میں صحیحین میں روایت موجود ہے۔
طبرانی نے موثق سند سے حضرت عمر سے روایت کی ہے: ’’قرآن دس لاکھ ستائیس ہزار حروف پرمشتمل ہے ‘‘۔ جب کہ موجودہ قرآن اس مقدار کا ایک تہائی بھی نہیں ہے۔
وہ اس قسم کی بہت سی روایات کو مسترد کرنے کی بجائے موجودہ قرآن میں غیر موجود چیزوں کو قرآن کا حصہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ صحاح ستہ میں مذکور ہونے کی وجہ سے وہ انہیں قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن صحاح کا بھرم رکھنے کے لیے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ ان آیات کو نسخ تلاوت کے ذریعے قرآن سے حذف کر دیا گیاہے۔ چنانچہ شیخ الحدیث حبیب الرحمن کاندھلوی مقدمہ تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں:
حضرت ابوبکر کے زمانے میں وہ آیات جو متواتر نہ تھیں اور جن کی تلاوت منسوخ ہو گئی تھی حذف کر دی گئیں۔
نسخ تلاوت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اپنی صحاح میں موجود روایات کی بنا پر انہوں نے بہت سی عبارات کو قرآن کا حصہ تسلیم کر لیا، پھر ان سے ہاتھ اٹھانے کے لیے نسخ تلاوت کا جواز پیش کیا۔ اس بارے میں دوسروں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ان سے اس ’’نسخ تلاوت ‘‘ کا مدرک و مأخذ طلب کریں۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کا کوئی مدرک اور سند موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یہ نسخ رسول کریم (ص) کے زمانے میں ہوا ہو تو اسے ثابت کرنے کے لیے تواتر کی ضرورت ہے۔بلکہ بعض ائمہ فقہ جیسے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک تو خبر متواتر سے بھی نسخ قرآن ثابت نہیں ہو سکتا۔ بعض فقہاء خبر متواتر سے نسخ قرآن کو جائز سمجھتے ہیں لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کے قائل نہیں اور خبر واحد کے ذریعے نسخ قرآن کا تو کوئی قائل نہیں ہے۔ لہٰذا نسخ تلاوت پر صحاح میں موجود روایات کے علاوہ کوئی اور دلیل موجود ہی نہیں ہے۔
نکتہ: نسخ تلاوت کی صحت صحاح کی روایت کی صحت پر موقوف ہے۔ جب کہ صحاح کی روایت کی صحت نسخ تلاوت کی صحت پر موقوف ہے۔ لہٰذا نسخ تلاوت کی صحت خود نسخ تلاوت کی صحت پر موقوف ہے، جسے علمی زبان میں دور مصرّح کہتے ہیں جس کا بطلان بدیہی ہے۔
اگر یہ نسخ رسول کریم (ص) کے بعد ہوا ہے تو یہ صریحاً تحریف ہے۔ اس سے واضح طور پر یہ لازم آتا ہے کہ جو لوگ نسخ تلاوت کے قائل ہیں وہ تحریف کے بھی قائل ہیں۔ یعنی ان کے اس نظریے سے، خواہ وہ نہ بھی چاہیں، تحریف لازم آئے گی۔ اسی لیے بعض معاصر غیر امامیہ علماء بھی نسخ تلاوت کو مسترد کرتے ہیں۔(صبحی صالح۔ علوم القرآن)
روایات تحریف کے بارے میں مذہب امامیہ کا مؤقف
متحرک اجتہاد۔ ناقابل اعتبار روایات۔
دیگر مکاتب فکر کی معتبر کتب کی طرح شیعہ کتب میں بھی ایسی روایات موجود ہیں جن میں سے بعض سے بادی النظر میں تحریف کا مفہوم ظاہر ہو تا ہے اور کچھ میں صراحت موجود ہے، مگر شیعہ ان روایات کے تحت نسخ کا نظر یہ قائم نہیں کرتے بلکہ ان روایات کی یا تو توجیہ کرتے ہیں کہ ان سے مراد تحریف لفظی نہیں اور اگر قابل توجیہ نہیں ہیں تو ایسی روایات کو مخالف قرآن سمجھ کر یکسر مسترد کرتے ہیں۔
۱۔ متحرک اجتہاد: اہل تشیع کے ہاں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے، لہٰذا ان کی نظر میں متحرک و زندہ اجتہاد کی وجہ سے کوئی کتاب حرف آخر نہیں ہے، بلکہ ہرکتاب، ہر روایت قابل بحث و تحقیق ہے اور تمام اسلامی نصوص تحقیق و تدقیق کے قابل ہیں۔
چنانچہ اصول کافی اگرچہ کتب شیعہ میں سے مشہور کتاب سمجھی جاتی ہے مگر اس میں مختلف احادیث موجود ہیں۔ بعض احادیث اگر کچھ مجتہدین کے نزدیک صحیح السند ہیں تو ضروری نہیں کہ دوسرے مجتہدین کی نظر میں بھی وہ صحیح السند ہوں۔ جو مسلمان صحاح ستہ کی روایات کا صحیح السند ہونا ضروری اور لازمی تصور کرتے ہیں ان کے لیے ممکن ہے کہ صحاح میں کسی روایت کا موجود ہونا اس روایت کے مضمون کا ضمنی اعتراف بن جائے لیکن شیعہ کتب میں اگر کوئی روایت موجود ہے تو اسے مضمون کاضمنی اعتراف تصور نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ علامہ محمد باقرمجلسیؒ نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ روایات نقل کی ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے بحا رالانوار میں صریحاً کہا ہے کہ قرآن میں قطعاً کوئی تحریف نہیں ہوئی۔
۲۔ ناقابل اعتبار روایات: تحریف قرآن کے بار ے میں اکثر شیعہ روایات ضعیف راویوں سے منقول ہیں۔ چنانچہ ان روایات میں ایک قابل توجہ سلسلہ روایت احمد بن محمد السیاری پر منتہی ہوتا ہے۔ علمائے شیعہ فرماتے ہیں کہ تحریف قرآن سے مربوط تین سو (۳۰۰) روایات احمد بن محمد السیاری سے مربوط ہیں۔
السیاری کون ہے ؟ شیعہ کتب رجال میں احمد بن محمد السیاری کے بارے میں درج ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
وہ ضعیف الحدیث، فاسد المذہب، غالی اور منحرف ہے۔ (قاموس الرجال ج۱ ص ۴۰۳۔ طبع تہران۔ رجال نجاشی ص ۵۸۔ طبع بمبئی۔ نقد الرجال ص ۳۲ طبع ایران قدیم۔ معجم رجال الحدیث ج۲ ص ۲۹۔ طبع نجف)
ان روایات تحریف میں یونس بن ظبیان کا نام بھی آتا ہے۔ اس شخص کوعلمائے رجال نے ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے:
یہ نہایت ضعیف ، ناقابل توجہ، غالی، کذاب اور احادیث گھڑنے والا ہے۔ (نقد الرجال ص ۳۸۱)
پھر ان میں منخل بن جمیل الاسدی کوفی کا نام بھی آیا ہے جس کے بارے میں علمائے رجال نے لکھا ہے:
وہ فاسدالروایہ، ضعیف، غالی اور منحرف ہے۔ (دراسات فی الحدیث و المحدثین۔ نقد الرجال ص ۳۵۴)
محمد بن حسن بن جمہور بھی ان راویوں میں شامل ہے جس کے بارے میں علمائے رجال فرماتے ہیں:
ضعیف، غالی، فاسدالروایہ، ناقابل توجہ ا ور فاسدالمذہب ہے۔ (نقد الرجال ص ۲۹۹۔ رجال نجاشی ص ۲۳۸۔ طبع بمبئی)
۳۔ وحی منزل اور قرآن: اکثر روایات میں مضمون حدیث اس طرح ہے: نزلت فی فلاں ھکذا نزلت وغیرہ ۔ علماء اور محققین سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) پر جوکچھ بھی بطریق وحی نازل ہوتا ہے، ان سب کا قرآن ہونا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اگرروایت یوں کہے: یہ وحی یوں نازل ہوئی یا فلاں ہستی کے بارے میں نازل ہوئی، اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرمان الٰہی ہے اور بطور وحی نازل ہوئی ہے، لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قرآن کا حصہ ہے، کیونکہ ہر وحی قرآن نہیں۔ یاد رہے کہ پورا قرآن وحی ہے، لیکن ہر وحی قرآن نہیں۔
شیخ مفید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
کان ثابتا منزلا و ان لم یکن من جملۃ کلام اللّٰہ تعالیٰ الذی ھو القرآن المعجز ۔
اگرچہ نازل ہوا ہے لیکن وہ کلام اﷲ نہیں ہے جو قرآن اور معجزہ ہے۔ (اوائل المقالات ص ۵۵)
شیخ صدوقؒ اپنے اعتقادیہ صفحہ ۷۵میں ایک حدیث کا مفہوم بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
بل نقول انہ قد نزل من الوحی الذی لیس من قرآن مالو جمع الی القرآن لکان مبلغہ مقدار سبع عشرۃ الف آیۃ، (الی ان قال) و مثل ھذا کثیر کلہ وحی لیس بقرآن ۔
یہ وحی کے طور پرنازل ہوئی تھی مگر قرآن کا حصہ نہ تھی۔ اگران کو قرآن کے ساتھ جمع کیا جائے تو (مجموعی طور پر) ستر ہزار آیات بن جاتی ہیں۔ اس قسم کی روایات بہت ہیں۔ یہ سب وحی تو ہیں مگر قرآن نہیں ہیں۔
۴۔ تفسیر: احادیث کے بعض الفاظ تفسیر قرآن کی غرض سے (جملہ معترضہ کے طور پر) آیت کے وسط میں درج ہوئے ہیں۔
چنانچہ کافی میں حضرت امام جعفر الصادق(ع) سے یہ آیت اس طرح نقل کی گئی ہے:
وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا (عما امرتم) فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا
اس آیت میں عما امرتم بغرض تفسیر و توضیح آیت کے وسط میں مذکور ہے، نہ کہ قرآن کے طور پر۔(۴ نساء : ۱۳۵)
۵۔ شان نزول: بعض الفاظ شان نزول کے بیان کے لیے آیت کے وسط میں مذکور ہوئے ہیں جیسے:
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ (فی علی) وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝۰ۭ ۔ (۵ مائدہ : ۶۷)
چنانچہ حضرت عائشہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے آیہ حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی کے ساتھ و صلوۃ العصر پڑھا ہے۔ (در منثور ۱: ۳۰۴) علمائے اہل سنت تو ایسی روایات سے ان الفاظ کو قرآن کا حصہ تسلیم کر لینے کے بعد توجیہ کرتے ہیں، لیکن علمائے شیعہ انہیں قرآن کا حصہ تسلیم کرنے سے پہلے ہی ان کی توجیہ کرتے ہیں۔
۶۔ تحریف معنوی: روایات میں تحریف کا لفظ صریحاً موجو د ہے لیکن ان میں تحریف سے مراد تحریف معنوی ہے۔ تحریف معنوی کا مطلب یہ ہے کہ مفاد پرستوں نے آیات قرآنی کے مطالب کو ان کے حقیقی مفہوم سے ہٹا کر اپنی رائے اور ذاتی یا گروہی خواہشات کے مطابق معنی پر محمول کیا ہے۔ حضرت علی(ع) نے فرمایا: “لا یعرفون الا خطہ”
وہ لوگ قرآن کے صرف خطوط، نقو ش کو پہچانتے ہوں گے۔ (نہج البلاغۃ خ ۱۴۵ ص ۳۸۸)
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ لوگ قرآن میں معنوی تحریف توکریں گے لیکن الفاظ قرآن محفوظ رہیں گے۔
چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
وکان من نبذھم الکتاب ان اقاموا حروفہ و حرفوا حدودہ، فھم یروونہ ولا یرعونہ و الجھال یعجبھم حفظھم للروایۃ و العلماء یحزنھم ترکھم للرعایۃ۔
انہوں نے کتاب خدا کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ اس کے حروف کی پاسداری تو کی مگر اس کی حدود میں تحریف کی۔ یہ لوگ روایت تو کرتے ہیں مگر رعایت نہیں کرتے نادان لوگ روایت کے تحفظ کو پسند کرتے ہیں اور علماء رعایت کے متروک ہونے سے غمزدہ ہوتے ہیں۔) الوافی کتاب الصلوٰۃ ج ۱ ص ۱۸۵۔ طبع قم(
حضرت علی(ع) سے روایت ہے:
ولیس عند اھل ذلک الزمان سلعۃ ابور من الکتاب اذا تلی حق تلاوتہ ولا انفق منہ اذا حرف عن مواضعہ۔
اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہو گی جب اسے صحیح طور پڑھا جائے اور قرآن سے زیادہ کوئی چیز مقبول نہ ہوگی جب اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر تحریف کی جائے۔ (نہج البلاغۃ خ ۱۴۵ ص ۳۸۷)
۷۔ قراءت: ان روایات میں بہت سی عبارتوں کا تعلق اختلاف قراءت سے ہے جیسا کہ اصحاب رسولؐ(ص) میں سے حضرت ابی بن کعب ، حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ کی قراءتوں میں اختلاف ہے۔ ا س طرح ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے بعض قراء توں میں دوسروں سے اختلاف کیا ہے۔
۸۔ تطبیق: قرآن ایک ابدی دستور حیات ہے۔ بنا بریں قرآن نزول کے وقت جس امر پر منطبق ہوتا تھا، اسی طرح بعد کے ہر اس امر پر بھی جاری ومنطبق ہو گا جس میں حال نزول کے حالات و شرائط موجود ہوں۔ اگر زمان نزول میں کسی آیت میں کسی کی مدح ہوئی ہے تو اس قسم کے اوصاف رکھنے والے سب لوگوں پر یہ مدح منطبق ہو گی۔ اگر کسی آیت میں کسی فرد کی مذمت ہوئی ہے تو یہ قدح اس قسم کے تمام اشخاص پر منطبق ہو گی۔ مفسرین یہاں پر ایک قاعدہ کلیہ قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں: العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب یعنی شان نزول و سبب نزول پر انحصار نہیں ہو سکتا بلکہ لفظ کے عموم کا لحاظ رکھنا ہو تا ہے۔
اس کے تحت بعض غیر قرآنی الفاظ آیت کی تطبیق کے لحاظ سے قرآنی الفاظ کے ساتھ (توضیح و تبیین کی غرض سے) درج ہوتے ہیں۔ مثلاً بعض روایات میں ہے:
وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا ٓ (حق آل محمد) اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ ۔)۳ ؎ ۲۶ شعراء: ۲۲۷)
اس آیت کے وسط میں (حق آل محمد) صرف بیان مصداق اور بیان مورد انطباق کی غرض سے مذکور ہے، جزو قرآن ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔
۹۔ مخالف قرآن احادیث مسترد ہیں: اگر کوئی روایت گزشتہ تمام مطالب میں سے کسی ایک پر بھی محمول نہ ہو سکے تو ایسی روایات کو شیعہ اصول حدیث کے مطابق، منافی قرآن و سنت ہو نے کی وجہ سے رد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی روایت قرآن کی صریح نص اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔(۱۵ حجر: ۹) کی مخالف ہے تو اس کی کوئی قیمت اور حیثیت نہیں ہے اور وہ درجہ اعتبار سے بالکل ساقط ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
ان علی کل حق حقیقۃ و علی کل صواب نوراً فما وافق کتاب اللّٰہ فخذوہ و ما خالف کتاب اللّٰہ فدعوہ۔
ہر حق پر ایک حقیقت اور ہر صائب بات پر ایک روشنی ہوا کرتی ہے۔ پس جو کتاب خدا کے مطابق ہو اسے اخذ کرو ، جو کتاب خدا کے مخالف ہو اسے مسترد کرو۔ (اصول الکافی ۱: ۶۹)
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
لا تصدق علینا الا ما وافق کتاب اﷲ وسنۃ نبیّہ (ص) ۔
ہماری صرف ان احادیث کی تصدیق کرو جو کتاب اﷲ اور سنت رسول (ص) کے مطابق ہوں۔ (وسائل الشیعۃ ۲۷: ۱۲۳)
امام جعفر صادق(ع) سے روایت ہے:
فما وافق کتاب اﷲ فخذوہ وما خالف کتاب اﷲ فدعوہ۔
جو کتاب خدا کے مطابق ہو اسے اخذ کرو اور جو اس کے مخالف ہو اسے رد کرو۔(حوالہ سابق ۲۷:۱۱۹۔ مصنف عبدا لرزاق ۶: ۱۱۱ فما وافق کی جگہ ما واطی کے ساتھ۔ تہذیب تاریخ دمشق ۵: ۱۳۷ طبع شام)
اور مسلک امامت کے آٹھویں تاجدار حضرت امام رضا(ع) نے فرمایا ہے:
اذاکانت الروایات مخالفۃ للقرآن کذبتھا۔
جو روایات قرآن کریم کی مخالف ہوں میں ان کی تکذیب کرتا ہوں۔ (اصول کافی ۱: ۹۵)
تحریف قرآن نا ممکن ہے
قرآن میں تحریف اس لیے ناممکن ہے کہ اس کی معجزاتی ترکیب اپنے اندر کسی قسم کی تحریف کو قبول نہیں کرتی۔ اس سلسلے میں ہم مندرجہ ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
۱۔اصول و کلیات: گزشتہ امتوں پر نازل شدہ کتب میں تحریف واقع ہونے کے اہم عوامل میں سے ایک عامل یہ تھا کہ آسمانی کتب میں جو دستور حیات دیاگیا تھا وہ حکمرانوں اور مفاد پرستوں کے مفادات کے خلاف ہوتا تھا، لہٰذا کچھ لوگوں نے ان کی مخالفت کی۔ کچھ نے ان حقائق کو چھپانے کی کوشش کی اورکچھ نے تحریف کر ڈالی۔
لیکن خاتم الانبیاء (ص)کے ابدی معجزے قرآن کو تحریف سے محفوظ رکھنے کا انتظام خود اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ نے قرآن میں صرف اصول و کلیات ہی بیان کیے اور تفسیر و تشریح کا کام سنت پرچھوڑ دیا۔ اسی لیے قرآن میں معاصر لوگوں میں سے کسی کا نام مذکور نہیں۔ نہ برگزیدہ ہستیوں کے نام مذکو ر ہیں نہ قابل مذمت لوگوں کے نام درج ہیں۔ صرف ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت نام لے کر کی گئی ہے، کیونکہ ابو لہب کی کھلی عداوت اور خود حضور (ص) کا رشتہ دار ہوناایسی باتیں تھیں جن کی وجہ سے اس کا نام صریحاً لیاگیا۔ کیونکہ مستقبل میں رسول (ص) کے خاندان کی طرف سے کسی تحریف کا خطرہ نہیں تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے قرآن کے اصول وکلیات کی تشریح و توضیح رسول خدا (ص) کے ذمہ کر دی تھی۔ مثلاً آیہ تطہیر میں اہل بیت (ع) کا نام نہیں لیا گیا۔سنت رسول(ص) نے ایک ایک فرد کا تعارف کرا یا۔
آیہ مباہلہ میں بھی اَبْنَاۗءَنَا اور نِسَاۗءَنَا سے جو لوگ مراد ہیں ان کی وضاحت سنت رسول (ص) نے کی۔
نیز سورۃ کوثر میں اِنَّ شَانِئَكَ ہُوَالْاَبْتَرُ میں یوں نہیں فرمایا: عاص بن وائل او امیۃ بن الخلف ھو الابتر بلکہ رسول(ص) نے گستاخان رسول (ص) کی نشاندہی فرمائی۔
اگر قرآن میں یہ بتا دیا جاتا کہ ۔۔۔الشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ (۱۷ اسراء: ۶۰) سے کون لوگ مراد ہیں تو بنی امیہ قرآن کے ساتھ کیا کچھ نہ کرتے۔
اسی طرح اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو۔) ۴۹حجرات: ۶( میں اس فاسق یعنی ولید بن عتبہ کا ذکر نہیں آیا جو بعد میں کوفے کا حاکم رہا اور جس نے صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی اور محراب میں قے کی۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۝
جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ (۴۹ حجرات: ۴)
میں بھی ان بیوقوفوں کا نام نہیں لیا گیا۔ ایسے تمام موارد میں قرآن کی مراد اور مقصود کا بیان کرنا سنت رسول اﷲ (ص) کی ذمہ داری ہے۔ (اقتباس از انٹرویو آیۃ اللہ عسکری)
ہم اس کی کئی مثالیں سنت رسول (ص)سے بھی پیش کر سکتے ہیں۔ یہاں ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے:
اکثر مفسرین اور صحاح نے قرآن کی متعدد آیات کے بارے میں ان روایات کو نہایت شوق سے ذکر کیا ہے جن کے مطابق یہ آیات حضرت ابوطالب کے خلاف نازل ہوئی ہیں۔ مثلاً سورہ برائت آیت ۱۱۳ اور سورہ قصص کی آیت کے بارے میں صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ القصص میں یہ روایت ملے گی کہ یہ دو آیتیں حضرت ابو طالب کے عدم ایمان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، لیکن المائدہ کی آیت ۵۵ اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ۔۔۔ کے بارے میں کوئی روایت نہیں ملتی کہ یہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے،جب کہ اس حدیث کو بارہ اصحاب رسول(ص) نے روایت کیا ہے۔
اس سلسلے میں تحریف حدیث کی سب سے روشن مثال یہ ہے کہ حدیث غدیر ،جسے رسول اللہ (ص) نے ہزاروں کے مجمع میں بیان فرمایا اور نہایت نامساعد حالات کے باوجود یہ حدیث ایک سو دس (۱۱۰) اصحاب رسول (ص) کی روایت سے ہم تک پہنچی ہے، صحاح میں ایسی احادیث کے لیے کوئی جگہ نہیں مل سکی۔
۲۔ تدریجی نزول: قرآن کو ضیاع اور تحریف سے بچانے کے لیے دوسرا انتظام اس کا تدریجی نزول تھا۔ ایک متوسط حجم کی کتاب ۲۳ سالوں کی مدت میں تدریجاً نازل ہوتی رہی اور کتاب بھی ایسی جس کا انداز کلام دوسرے کلاموں سے مختلف ہے اور جس میں روح اور سماعت دونوں کی تسکین کا سامان ہے۔ آیات مختصر، باقافیہ اور مسجع ہیں۔ مثلاً:
وَالضُّحٰى۝۱وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى۝۲ۙ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى۝۳ۭ (۹۳ ضحی: ۱ تا ۳)
اور
اَلرَّحْمٰنُ۝۱ۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۝۲ۭ خَلَقَ الْاِنْسَانَ۝۳ۙ عَلَّمَہُ الْبَيَانَ۝۴ (۵۵ رحمٰن: ۱ تا ۴)
یہ مختصر اور مقفی آیات حفظ کرنے کے لیے نہایت آسان ہیں۔ اس طرح قرآن کتابت کے ساتھ سینوں میں بھی محفوظ رہا۔
بعد میں مدنی زندگی میں لکھنے پڑھنے کے وسائل فراہم ہوئے توآیات اور قرآنی سورتیں طولانی ہونا شروع ہو گئیں۔ تدریجی نزول کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہوا کہ قرآن نہایت آسانی کے ساتھ امت کے حوالے ہو گیا۔ یعنی جس طرح نزول قرآن تدریجی تھا، اس کی تعلیم اور امت کی طرف اس کی منتقلی بھی تدریجی تھی۔ جس روز نزول کا کام مکمل ہوا، اسی روز قرآن کی امت کی طرف منتقلی بھی مکمل ہوئی۔ چنانچہ جس مرحلے میں امت کی طرف قرآن کی منتقلی مکمل ہوئی اسے عرضہ اخیر (آخری باز خوانی) کہتے ہیں۔
کتاب فصل الخطاب اور کتاب الفرقان :
مکتب امامیہ پر عائدالزام کی ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ان کے ایک جید عالم نے تحریف قرآن کے اثبات میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے اور اس کا نام فصل الخطاب رکھا ہے۔ حقیقت امر یہ ہے:
اولاً: ایسا واقعہ صرف امامیہ کے ہاں پیش نہیں آیا بلکہ مصر کے ایک جید عالم علامہ ابن الخطیب المصری نے ۱۹۴۷ء میں اسی قسم کی ایک کتاب تالیف کی جس میں ضعیف اور نادر روایات جمع کر کے قرآن کی تحریف و تبدیلی اور عدم صحت الفاظ پر بے شمار دلائل پیش کیے۔
اس کتاب کے بارے میں جامعۃ الازہر کے کلیۃ الشریعۃ کے استاد علامہ شیخ محمد مدنی لکھتے ہیں:
یہ کہنا کہ امامیہ قرآن میں کمی واقع ہونے کے قائل ہیں، معاذ اﷲ درست نہیں ہے، بلکہ ان کے ہاں بھی کچھ روایات ایسی ملتی ہیں جیسے ہمارے ہاں ملتی ہیں۔ دونوں فرقوں کے اہل تحقیق اس قسم کی روایات کو مسترد کرتے ہیں۔ چنانچہ شیعہ امامیہ یا زیدیہ میں کوئی تحریف کا قائل نہیں ہے، جیسا کہ اہل سنت کے ہاں بھی کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہے۔
ایسی روایات کا مشاہدہ کرنے کے لیے جنہیں ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، علامہ سیوطی کی کتاب الاتقان کا مطالعہ کریں اور ایک مصری صاحب نے تو ۱۹۴۸ء میں ایک کتاب لکھ ڈالی جس کا نام الفرقان رکھا۔ اس مؤلف نے اس کتاب کو غیر معتبر، غیروں کی داخل کردہ اور مردود السند روایات سے پر کیا ہے اور ان روایات کو اہل سنت کے ہی مصادر و مآخذ سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ جامعۃ الازہر نے اس کتاب کی ضبطی کا مطالبہ کیا اور اس کتاب کے فاسد اور باطل ہونے پر دلائل قائم کیے۔ چنانچہ حکومت نے اسے منظور کر لیا اور کتاب ضبط ہو گئی۔ مؤلف نے تاوان کے لیے دعویٰ دائر کیا تو عدالت نے اس کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا۔ تو کیا اس کتاب کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اہل سنت قرآن کے تقدس کے منکر ہیں؟ اور نقص در قرآن کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ صرف ایک روایت کی بنا پر؟ یا فلاں شخص کی تالیف کردہ کتاب کی بنا پر؟ شیعہ امامیہ کا حال بھی کچھ اسی طرح ہے۔ ( رسالۃ الاسلام شمارہ ۴ ‘صفحہ ۳۸۲)
ثانیاً: فصل الخطاب میں درج ساری روایات، شیعوں کی نہیں ہیں، بلکہ اس میں اہل سنت کی روایات بھی بکثرت درج ہیں، جنہیں علامہ مرتضیٰ عسکری نے ایک مستقل کتاب میں جدا کر کے واضح کیا ہے کہ کون کون سی روایات امامیہ یعنی شیعہ مصادر سے ہیں اور کون سی غیر امامیہ یعنی اہل سنت مصادر سے۔ (العسکری: القرآن الکریم و روایات المدرستین۔ الکتاب الثالث)
ثالثاً: یہ کتاب ان روایات پر مشتمل ہے جو اصول حدیث کے اعتبار سے بے بنیاد اور مردود ہیں۔ علماء امامیہ میں سے کوئی ایسا نہیں جو اسے مستند سمجھے۔ علماء نے اس کو کتب ضالہ میں شمار کیا ہے۔ اس کے راویوں میں:
۱۔ احمد بن محمد السیاری ہے جو کذاب ،فاسد العقیدہ اور تناسخ ارواح کا قائل ہے۔ اس کی روایات سب سے زیادہ ہیں۔
۲۔ سہل بن زیاد، ابراہیم بن اسحاق نہاوندی، حسین بن حمدان الحضبی، ابو سمینہ محمد بن علی الکوفی اور محمد بن سلیمان الدیلمی
جیسے ضعیف و کذاب راوی شامل ہیں۔ جن کی روایات کا کوئی علمی وزن نہیں ہے۔ اسی لیے فصل الخطاب کے مؤلف کے معاصرین نے اس کتاب کی رد میں کئی ایک کتابیں لکھی ہیں مثلاً:
۱۔ علامہ سید محمد حسین شہرستانی نے حفظ الکتاب الشریف عن شبھۃ القول بالتحریف لکھی۔
۲۔ علامہ محقق شیخ محمود تہرانی نے کشف الارتیاب فی ردّ فصل الخطاب لکھی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=25436