18

قرآن اور میڈیا

  • News cod : 26272
  • 09 دسامبر 2021 - 13:00
قرآن اور میڈیا
قرآن ایک کامل کتاب ہے اس میں ہر چیز کا ذکر ہے ۔اس میں خدا وند متعال نے ہر کسی کی ذمہ داریاں بھی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہین اور تمام چیزوں کا تعارف بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے۔قرآن کا اپنا ضابطہ حیات ہے ،یہ انسانی معاشرتی زندگی کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اسی لیے اس کو سماجی دین بھی کہا جاتا ہے ۔قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوے محسوس ہےا کہ بعض آیات میڈیا کے استعمال کے حوالے سے رہنمائی کرتی ہیں ۔

تحریر: مولانا راشد علی خان (مدرسہ الامام المنتظر(عج) قم

استاد رہنماء:ڈاکٹر نذیر اطلسی

مقدمہ

قرآن ایک کامل کتاب ہے اس میں ہر چیز کا ذکر ہے ۔اس میں خدا وند متعال نے ہر کسی کی ذمہ داریاں بھی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہین اور تمام چیزوں کا تعارف بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے۔قرآن کا اپنا ضابطہ حیات ہے ،یہ انسانی معاشرتی زندگی کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اسی لیے اس کو سماجی دین بھی کہا جاتا ہے ۔قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوے محسوس ہےا کہ بعض آیات میڈیا کے استعمال کے حوالے سے رہنمائی کرتی ہیں ۔
۱۔اسلام ایک مکمل دین
اسلام دنیا کا کامل ترین ہے ۔ اس دین کی سند خود خدا نے عطا کی ہےاور فرمایا کہ
ترجمہ :
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارا دین قرار دے دیا ہے ۔۱۔
جب دین اسلام ایک مکمل ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس زندگی کے ہر پہلو کو زیر بحث نہ لایا گیا ہو ۔ شریعت محمدی ﷺکے بعد کوئی شریعت نہیں آے گی ،اس لیے اس میں قیامت تک آنے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔ اس دین کامل نے میڈیا کے حوالے سے ہماری کیا رہنمائی فرمائی ہے ؟ اس فصل مین اس کو بیان کرنے کی کوشش کی جاے گی ۔
۲۔میڈیا
میڈیاانگلش زبان ک لفظ ہے اور اردو میں اس کے لیے ذرائع ابلاغ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
۲۔۱۔ تبلیغ:
لفظ تبلیغ کا معنی انتہا تک پہنچانا یا آخری ٹھکانے تک پہنچانے کے ہیں ۔۱۔اوردین کی اصطلاح میں اپنا پیغام کسی دوسرے بندے ےا جگہ تک پہنچانے کے ہیں۔قرآن کریم میں اس کے اور بھی ہم معنی الفاظ استعمال ہوے ہیں جیسے دعوت (بلانا ،پکارنا )انداز(ڈرانا خبردارکرنا )تبشیر (خوشخبری سنانا)تذکیر (یاد دلانا ،نصیحت کرنا)۔
۲۔۲۔ ذرائع ابلاغ کی تاریخ :
خدا وند متعال نے انسان کو زندگی جیسی بہترین نعمت سے نوازا ہے اور پھر اس کو گزارنے کے لیے تمام تر ضروریات و سہولیات کا بندوبست بھی کر دیا ہے ۔خدا وند متعال نے انسان کو خرد جیسی عظیم نعمت بھی عطا کی کہ اپنے مسا۴ل کا حل اپنی سوچ کے مطابق خود کرتا رہے اس کی صرف نگرانی ہوتی ہے ۔ پرانے زمانوں میں لوگوں میں بہت زیادہ فاصلے ہوا کرتے اور لوگوں کا میل ملاپ اور روابط نہیں تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستوں کے حکمرانوں کی رسائی ہوئی کہ وہ اپنے پیغام دوسری حکومتوں تک پہنچائیں ۔ایک طویل عرصے تک صرف یہ رسائی حکمرانوں تک ہی رہی پھر وقت کے ساتھ ساتھ کچھ وسعت آئی کہ امراء کی رسائی ہو گئی لیکن پھر بھی عام عوام اس سے محروم رہی اور ان کی رسائی سے یہ باہر ہی رہے ۔لیکن یہ ذرائع کہ جن سے لوگ اپنے پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے ان رفتار انتہائی سست تھی اور پیغام پہنچانے کے لیے بہت وقت درکار ہوتا تھا ۔وقت گزرتا گیا اور یہ ترقی کرتے گئے۔ان تما م حالات سے واضح ہوتا ہے کہ اطلاعات کی ترسیل کے لیے باقاعدہ نظام اپنانے سے پہلے انسانی سماج میں ترقی کی رفتار بہت سست تھی ، انسان کے کے پاس اطلعات کی ترسیل کا نظام پریس مشین کی ایجاد سے پہلے بھی موجود تھا لیکن تب تک عام اادمی کو اطلاعات تک رسائی حاصل نہ تھی ۔موجودہ ذرائع ابلاغ کی بنیاد اترہوءں صدی میں پڑی جب جرمنی اور بعض دیگر ممالک میں حالات و واقعات پر مبنی رپورٹس کی اشاعت باقاعدگی سے شروع ہوئی ،لیکن اخباراتورسائل کی اشاعت عام اٹھارہویں صدی میں ہوئی اور اخبارات ورسائل میں سب سے خوبصورت اضافہ ۱۸۸۰ء کے بعد ہوا جب فوٹو جرنلزم وجود میں آئی۔دوسری جند عظیم کت بعد تک بھی دنیا کے بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیگر علاقوں کے لوگوں کے لیے اخبارات ورسائل تک عام آدمی کی رسائی فوری نہ تھی۔بعض علاقوں میں ہفتوں میں اور بعض میں مہینون کے بعد اخبارات و رسائل پہنچتے تھے ۔ ۱۹۲۰ء میں ریڈیو نشریات کے آغاز سے اخبارات ورسائل کے مقابلے میں حالات سے آگاہی زیادہ تیز ہوئی ۔ریڈیو نشریات سے الیکٹرانک میڈیا کی بنیاد پڑگئی ،ریڈیو کی ایجاد ذرئع ابلاغ میں بلاشبہ ایک انقلابی اضافہ تھا لیکن ٹیلی ویژن کی ایجاد ۱۹۴۰ ء۱۹۶۰ء) سے ترقی کے عمل میں مزید تیزی لانا ممکن ہوا ۔ ۱۹۶۹ءمیں انٹرنیٹ کی ایجاد کا آغاز ہوا اور ۱۹۸۳ء تک کمال کو پہنچا ۔پرنٹ میڈیا کی تاریخ تو بہت قدیم ہے ،البتہ ۱۶۶۵ء میں باقاعدہ مشینی پرنٹ میڈیا کا آغاز ہوا۔
۳۔میڈیا کا تعارف :
اطلاعات کے اس ترقی یافتہ نظام میں ابلاغ کے وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن کے توسط سے ہر نوعیت کی قومی اور بین الاقوامی خبریں ،حالات و کوائف اور اطلاعات و معلومات عامتہ الناس تک پہنچائی ہیں ۔ان ذرائع میں قومی اور بین الاقوامی خبر رساں ادارے ، ریڈیو ، ٹی وی ،اخبارات، رسائل ،جرائد،شماریاتی بینک ، اشتہار دینے اور بنانے والے ادارے ، کیسٹ ، کتب اور ماہرانہ تبصرہ کرنے والے تجزیہ نگار شامل ہیں ۔ ان زرائع کی مختلف حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے
۱۔ سوشل میڈیا:
سوشل میڈیا سےمراد انٹر نیٹ بلاگز، سماجی ویب سائٹس ،ایس ایم ایس ، اور فیس بک ، ٹوئٹر، مائی ایپس،گوگل پلس ، ایمو ،واٹسایپ، انسٹاگرام، وائبر ۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ ۔
۲۔الیکٹرانک میڈیا :
الیکٹرانک میڈیا سے مراد ٹی وی چینلز ، ریڈیو، سی ڈیز اور دیگر ویڈیوز شامل ہیں ۔
۳۔ پرنٹ میڈیا :
پرنٹ میڈیا سے مراد اخبار ، رسائل اور جرائد شامل ہیں
میڈیا کا اسلامی تصور:
اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک جامع دین بن آیا ، اس لیے اس میں میڈیا اور پریس کے حوالے سے بھی ضابطہ اور قانون موجود ہے ۔ اسلام میں میڈیا کی کتنی اہمیت ہے اور ان ذرائع ابلاغ کو انسانی زندگی میں کتنا اہم مقام حاصل ہے ، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیں ان آیتوں کا مطالعہ اور ان کے مفاہیم میں غور کرنا چاہیے جن سے اسلام کے داعیانہ پہلو پر روشنی پڑتی ہے ۔
ادع الی سبیل ربک ۔
ترجمہ
اے نبی ﷺ ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو۔
ولتکن منکم امتہ یدعون الی الخیر ۔
ترجمہ
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ۔
مندرجہ بالا آیات میں اسلام کے جس آفاقی پیغام کے ابلاغ و ترسیل کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے ۔ کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پر دعوت اور اشاعت ، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں دور ذرائع ابلاغ کے سہارے کے بغیر ممکن ہے ؟
اسلامی نظریہ ابلاغ کسی انسانی فکر کا زائیدہ یا محض عقلی بنیادوں پر انسانوں کا تیار کردہ نہیں ہے ،وہ قرآن و حدیث سے مستنبط ہے ۔انسان کی فطری آزادی سے لے ذرائع ابلاغ کی آزادی تک کا سارا نظام عمل انہی اسلامی ہدایات پر مبنی ہے ۔اسلامی نطریہ ابلاغ میں جہاں ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے ، وہاں اس کو بہت سی اخلاقی شرائط اور سماجی و معاشرتی قوانین کا پابند بھی بنا یا گیا ہے ، تا کہ دیگر اسلامی نطریہ کی طرح یہاں بھی توازن و اعتدال برقرارر ہے ۔ اگر اظہار کی آزادی کی آڑ مین ذرائع ابلاغ کے اس سرکش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے ،تو یہ ایمانیات کے ساتھ انسانوں کی اخلاقیاتت کو بھی پیروں تلے روند کر رکھ دے گا ۔
میڈیا کا استعمال قرآنی تناطر میں
اسلام ایک جامع دین ہے اس کا اپنا ضابطہ حیات ہے ، یہ انسانی معاشرے ضروریات کو بخوبی ملحوظ رکھتا ہے ، اسی لیے اسے سماجی دین بھی کہا جاتا ہے ۔دوسری طرف آج کے دور مین میڈیا کی اہمیت سے انکار نا ممکن ہے ۔ میڈیا کا استعمال ہماری زندگیوں ہر وقت کا عمل دخل ہے ۔ مختلف اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوے محسوس ہوا کہ قرآن کی بعض آیات پر غور کیا جائے تومیڈیا کے استعمال کے حوالے سے بھی رہنمائی ملتی ہے ، بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوے اسلامی بنیادی معاشرتی و اخلاقی اقدار کو ملحوظ رکھیں ۔اس حوالے سے قرآن مجید میں مذکور چند ایک پہلوں کں کی طرف اشارہ کروں گا۔

1۔ عالم گیر مساوات و اخوت:
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام انسان برابر اور ایک باپ کی اولاد ہیں، سماجی سطح پر تعلقات میں تعصب سے اجتناب برتنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہمیں احترامِ انسانیت اور اخوت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
ارشادِ ربانی ہے:
وَ ھُوَ الَّذِیٓ اَنشَاَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُستَقَرّ وَّ مُستَودَع قَد فَصَّلنَا الاٰیٰتِ لِقَومٍ یَّفقَھُونَ(انعام:۹۸(
اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے، رہنے کی، بےشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
2۔ اہلِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں:
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام اہلِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، سوشل میڈیا پر بھی ایمانی اُخوت کا خیال رکھنا چاہیے۔
اِنَّمَا المُومِنُونَ اِخوَة فَاَصلِحُوا بَینَ اَخَوَیکُم وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ(حجرات:۱۰)
(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
3۔ اہلِ ایمان ایک دوسرے کے مددگار و خیر خواہ ہیں:
وَ المُومِنُونَ وَالمُومِنٰتِ بَعضُھُماَولِیَآئُ بَعضٍ یَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَ یَنھَونَ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وَ یُوتُونَ الزَّکٰوةَ وَ یُطِیعُونَ اللّٰہَ وَ رَسُولَہ اُولٰٓئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیز حَکِیم(توبہ ۷۱)
مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ اور خیر خواہی مطلوب ہونی چاہیے۔
4۔ اچھائی پر تعاون:
اچھائی اور نیک کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے، سوشل میڈیا پر کسی چیز کو لائیک یا شیئر کرنا بھی تعاون ہی ہے، چنانچہ اچھی چیز لائیک اور شیئر کی جائے۔ اِسی طرح نئے لکھاریوں کی اصلاح اور حوصلہ افزائی کرتے رہنا بھی نیک عمل ہے۔
وَ تَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَ التَّقوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَ العُدوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ العِقَابِ(مائدہ:۲)
نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے
5۔ فضول، لغو اور بیہودہ باتوں سے اجتناب:
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے کہ فضول و لغو باتوں سے اجتناب کیا جائے، ایسی باتوں سے روگردانی کی جائے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ اصول نگاہوں میں رہے۔
وَالَّذِینَ ہُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِضُونَ(مومنون:۳)
جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
6۔ فحش اور بُری چیزوں کو نہ پھیلانا:
قرآنی ہدایات کی روشنی میں سوشل میڈیا پر بھی فحش اور بُری چیزوں کی تشہیر سے گریز کرنا چاہیے۔
اِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اَن تَشِیعَ الفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ اٰمَنُوا لَہُم عَذَاب اَلِیم فِی الدُّنیَا وَالاٰخِرَةِ وَاللّٰہُ یَعلَمُ وَاَنتُم لاَ تَعلَمُونَ(نور:۱۹)
جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
۔ نام و القاب نہ بگاڑنا اور نہ کسی کا مذاق اڑانا:
قرآن پاک نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ کسی کا نام نہ بگاڑا جائے، کسی کا غلط لقب نہ ڈالیں، کسی کا مذاق نہ اڑائیں۔یہ اُصول بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔
یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لاَ یَسخَر قَوم مِّن قَومٍ عَسٰٓی اَن یَّکُونُوا خَیرًا مِّنہُم وَلاَ نِسَآئ مِّن نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَن یَّکُنَّ خَیرًا مِّنہُنَّ وَلاَ تَلمِزُوٓا اَنفُسَکُم وَلاَ تَنَابَزُوا بِالاَلقَابِ بِئسَ الاِسمُ الفُسُوقُ بَعدَ الاِیمَانِ وَمَن لَّم یَتُب فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ(حجرات:۱۱)
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاو ¿اورنہکسیکوبرےلقبدو۔ایمانکےبعدفسقبرانامہے،اورجوتوبہنہکریںوہیظالملوگہیں
8۔ بے جا تجسس نہ کرنا، ٹوہ میں نہ لگے رہنا، غیبت نہ کرنا:
کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا، ہر وقت اپنی طرف سے مختلف گمان بناتے رہنا، اس سے بھی قرآن نے منع فرمایا ہے۔ غیبت سے بھی منع فرمایا۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اجتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعضَ الظَّنِّ اِثم وَّلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ یَغتَب بَّعضُکُم بَعضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُم اَن یَّاکُلَ لَحمَ اَخِیہِ مَیتًا فَکَرِہتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّاب رَّحِیم (حجرات:۱۲)
اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولاکرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
9۔ جھوٹ سے اجتناب اور احکام و آیاتِ الٰہی کو نہ جھٹلانا:
سوشل میڈیا پر بھی جھوٹ نہ بولا جائے، نہ سنا جائے، اور دورانِ بحث آیاتِ الٰہیہ کو نہ جھٹلایا جائے۔
وَ مَن اَظلَمُ مِمَّنِ افتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَو کَذَّبَ بِاٰیٰتِہ اِنَّہ لَا یُفلِحُ الظّٰلِمُونَ(انعام:۶۱)
اور اس سے زیادو بےانصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے ایسے بے انصافوں کو کامیابی نہ ہوگی۔
اَنَّ لَعنَتَ اللّٰہِ عَلَیہِ اِن کَانَ مِنَ الکٰذِبِینَ (نور:۷)
اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔
10۔ حق اور انصاف کا دامن نہ چھوڑنا، سچی گواہی دینا:
بحث ہو، روزمرہ کی بات چیت ہو یا مسئلہ انصاف کرنے کا ہو، ہر حال میں عدل و حق پرستی سے کام لینا چاہیئے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا کُونُوا قَوّٰمِینَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالقِسطِ وَ لَا یَجرِمَنَّکُم شَنَاٰنُ قَومٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعدِلُوا اِعدِلُوا ھُوَ اَقرَبُ لِلتَّقوٰی وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیر بِمَا تَعمَلُونَ (مائدہ:۸)
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاو، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاو، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کردے، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
11۔ بلا اجازت سوشل میڈیا پر کسی گروپ یا بلاگ میں داخل نہ ہوں:
یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لاَ تَدخُلُوا بُیُوتًا غَیرَ بُیُوتِکُم حَتّٰی تَستَانِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلٰٓی اَہلِہَا ذٰلِکُم خَیر لَّکُم لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ(نور:۲۷)
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاو جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو، یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اِس آیت سے قدرے اشارہ ملتا ہے کہ ہر مرحلے پر پرائیویسی کا خیال رکھنا چاہیے۔
12۔ بلا تصدیق بات، شیئر نہ کرتے رہیں:
قرآن مجید نے اس بات سے بھی روکا ہے کہ بلاتصدیق ہر بات پھیلا دی جائے۔جس بات کا علم نہ ہو، اُس کی پہلے چھان پھٹک کر لینی چاہیے۔
اِذ تَلَقَّونَہ بِاَلسِنَتِکُم وَتَقُولُونَ بِاَفوَاہِکُم مَّا لَیسَ لَکُم بِہ عِلم وَّتَحسَبُونَہ ہَیِّنًا وَّہُوَ عِندَ اللّٰہِ عَظِیم(نور:۱۵)
ات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔
14جب کہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منھ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی ب۔ سوشل میڈیا پر بھی بُرے لوگوں کو فرینڈ نہ بنایا جائے:
جیسے عادی زندگی میں برے دوستوں سے اجتناب کا حکم ہے اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی برے لوگوں کو فرینڈ نہ بنایا جائے، اگر ان کی وجہ سے انسان گمراہ ہو گیا تو حسرت سے کہے گا کاش فلاں میرے ساتھ وابستہ نہ ہوتا۔
یٰوَیلَتٰی لَیتَنِی لَم اَتَّخِذ فُلاَنًا خَلِیلًا (فرقان:۲۸)
ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
15۔ اعضاءو جوارح کا گواہ ہونا:
قیامت کے دن انسان کے ہاتھ گواہی دیں گے کہ ہم سے اس حضرت نے یہ لکھوایا، لہذا سوشل میڈیا پر بھی لکھنے یا شیئر کرتے وقت دھیان رہے کہ اس کا ہم سے پوچھا جائے گا۔
اَلیَومَ نَختِمُ عَلٰٓی اَفوَاہِہِم وَتُکَلِّمُنَآ اَیدِیہِم وَتَشہَدُ اَرجُلُہُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ(یٰس:۶۵)
ہم آج کے دن ان کے منھ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاو ¿ں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے۔
16۔ عبادت کے وقت پر سوشل میڈیا سے اٹھ جانا:
قرآن مجید نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ عبادت کے وقت باقی کاموں کو چھوڑ دیا جائے۔
یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوٓا اِذَا نُودِیَ لِلصَّلٰوةِ مِن یَّومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا اِلٰی ذِکرِ اللّٰہِ وَذَرُوا البَیعَ ذٰلِکُم خَیر لَّکُم اِن کُنتُم تَعلَمُونَ(جمعہ:۹)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ ( اور بھی بہت ساری جہات ہیں جن پر بحث ہو سکتی ہے، فی الحال اتنا کافی ہے۔)
17۔ ہماری سوشل میڈیا سرگرمیوں کو بھی اللہ تعالی دیکھ رہا ہے:
آج سوشل میڈیا پر ہم اپنی پرائیویسی کا بہت خیال رکھتے ہیں، کسی کو پاس ورڈ نہیں دیتے، اتنا یاد رہے کہ ہماری ان تمام سرگرمیوں سے اللہ تعالی آگاہ ہے، روزِ آخرت نبی کریم اور اہلِ ایمان کو بھی ہمارا اعمال نامہ دکھایا جائے گا، ابھی سے احتیاط کی ضرورت ہے۔
وَ قُلِ اعمَلُوا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُم وَ رَسُولُہ وَ المُومِنُونَ وَ سَتُرَدُّونَ اِلٰی عٰلِمِ الغَیبِ وَ الشَّھَادَةِ فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُم تَعمَلُونَ(توبہ:۱۰۵)
کہہ دیجئے کہ تم عمل کیے جاو ¿ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں گے) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والاہے۔ سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا۔ پس قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال انتہائی ذمہ داری سے کیا جائے کیونکہ انسان اپنے تمام اعمال کا جواب دہ ہے۔
آخر میں علامہ محمد اقبالؒ کی طرح بارگاہ خداوندی میں التجا کرتا ہوں کہ مالک کریم ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہماری پردہ پوشی فرمائے
تو غنی از ہر دو عالم، من فقیر
روزِ محشر عُذر ہای من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگُزیر
از نگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر
نتیجہ
قرآن کی نظر میں میڈیا کے استعمال میں ان تمام اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے اور میڈیا کے استعمال میں مثبت کردار ادا کر کے معاشرے کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=26272