22

فقیہِ شہر کی تحقیر! ———- کیا مجال مری

  • News cod : 2669
  • 14 اکتبر 2020 - 11:11
فقیہِ شہر کی تحقیر! ———- کیا مجال مری
حوزه ٹائمز | علامہ صاحب جو اپنے زمانے کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے، اور مغرب میں رہنے کی وجہ سے انگریزوں کی چالبازیوں اور مکر و فریب سے خوب واقف تھے اور مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ رہے تھے، لہذا آپ نے اس بات کا احساس کیا، کہ یہ وہ دور ہے، جہاں اسلام ہی وہ قوت ہے، جو مغرب کی ان تباہ کاریوں کو روک سکتا ہے.

حکیم الامت کے محضر میں
فقیہِ شہر کی تحقیر! ———- کیا مجال مری
مگر یہ بات، کہ میں ڈھونڈتا ہوں، دل کی کشاد
بیسوی صدی کی ابتداء وہ دور ہے، جب مغرب کی سربراہی میں عالمِ استکبار نے دنیا کے مختلف ممالک پر قبضہ کرنا شروع کیا، اور یہ جابر قوتیں مختلف خطوں کے قدرتی وسائل پر بڑی چالاکی اور مکاری کے ساتھ ہاتھ صاف کرنے لگیں، اور انتہائی بیدردی کے ساتھ ان ثروتوں کو لوٹنا شروع کیا، دوسری طرف ان محکوم قوموں کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی، کہ اب اسلام کا سورج غروب ہونے کو ہے، اور مغربی تہذیب کا اقتدار اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ دنیا پر چھانے والا ہے، لہذا وہی قومیں زندہ رہ سکتی ہیں، جو مغربی قوتوں کے ہم رکاب ہو جائیں، ان کے افکار و نظریات کو قبول کریں، اس مادی تہذیب کی اندھی تقلید کریں، اور ان کی ہر چیز کو فوقیت اور ترجیح دیں۔
اور یہی وہ دور ہے، جب مغرب میں صنعتی انقلاب آیا، اور سائنسی علوم کی ترقی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا، اور اس میدان میں نت نئی ایجادات سامنے آئیں، جن کی وجہ سے کمزور شخصیت کے مالک، اور ضعیف الاعتقاد افراد مغربی تہذیب کی دعؤوں کو سچ سمجھنے لگے۔
علامہ صاحب جو اپنے زمانے کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے، اور مغرب میں رہنے کی وجہ سے انگریزوں کی چالبازیوں اور مکر و فریب سے خوب واقف تھے، وہ اس ساری صورت حال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے، اور مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ رہے تھے، اور یہ درک کر چکے تھے، کہ بیشتر مشرقی اقوام اور مسلمان حکومتیں پکے پھل کی طرح افرنگ کی جھولی میں گر چکی ہیں، لہذا آپ نے اس بات کا احساس کیا، کہ یہ وہ دور ہے، جہاں اسلام ہی وہ قوت ہے، جو مغرب کی ان تباہ کاریوں کو روک سکتا ہے، اور مادہ پرستی کے اس سیلاب کے آگے مضبوط بندھ باندھ سکتا ہے، تو آپ نے اپنے کلام میں مسلمانوں کی توجہ اس بات کی طرف دلائی، کہ انسانیت کے بحرانوں کا حل مغرب کے پاس نہیں، بلکہ اسلام کے پاس ہے، اور چونکہ علماء اور فقہاء، اسلام کی تبلیغ اور پرچار کے حوالے سے ہر اول دستہ شمار ہوتے ہیں، تو انہیں بھی اپنے موضوعِ سخن کا حصہ قرار دیا۔
اور اس بات پر زور دیا، کہ اب وہ موقع ہے، کہ اجتہاد کے مسئلہ سے خوب استفادہ کیا جائے، کیونکہ دینِ خدا قیامت تک کے لئے ہر زمان و مکان میں ہر معاشرے کے لئے ہے، اور اس میں ہر مشکل کا حل موجود ہے، لہذا آپ نے کھل کر اس بات کی دعوت دی کی دینی نصوص کو اس نئے زمانے کے تقاصوں کو مدِ نظر رکھ کر نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش ہونی چاہیے، تاکہ موجودہ بحرانوں کا حل اسلام کے سنہریوں اصولوں سے پیش کیا جا سکے، اور دوسری طرف مسلم جوانوں کو متنبہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو عصری علوم سے آراستہ کریں، تاکہ وہ آنے والے جدید دور میں مغرب کی طرف سے اس لا دینی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کر سکیں، اور ساتھ ساتھ تزکیہ نفس اور تربیت کا سلسلہ بھی جاری رہے، تاکہ دل یادِ خدا اور عشقِ حق سے سرشار ہوں، تاکہ مادہ پرستی دلوں میں گھر نہ کر جائے۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ بعض علماء کی وہی پرانی روش ہے، نہ کوئی حالات سے آگاہی، نہ ہی دشمنوں کی چالوں اور سازشوں کی خبر، نہ کوئی اجتہاد، نہ ہی موجودہ بحرانوں کا حل، وہی تقلید، اور وہی اسلاف کے زمانے کے قصے کہانیاں۔
اس روش کو دیکھ کر آپ تڑپ اٹھے، اور اس اسلوب پر اصلاحی اور لطیف انداز میں خوب تنقید کی، آپ کے کلام میں ایسے دسیوں اشعار ہیں جو اس غفلت اور کوتاہی کو بیان کرتے ہیں، اور اس سے دوری کی تلقین کرتے ہیں، یہ مصرعے بھی اسی تناظر میں کہے گئے ہیں، آپ کہتے ہیں، کہ بعض دفعہ علماء پر میری تنقید کو ان بزرگان کی تحقیر اور توہین شمار کیا جاتا ہے، اور سننے یا پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے، کہ میں ان سے نفرت کرتا ہوں، یا ان کی تحقیر کر رہا ہوں، خدا نہ کرے، کہ میں ایسا کبھی سوچوں بھی، میری کیا مجال کہ میں ان کی توہین کروں، میرا ان میں سے بعض بزرگان سے اختلاف صرف اس بات پر ہے، کہ یہ فکری دنیا میں جمود کا شکار ہیں، عصری جدتوں اور تقاضوں کے مطابق نئی نسل کو قائل نہیں کر پاتے، اور قرآن و سنت کی روشنی میں موجودہ بحرانوں کا حل نہیں پیش کرتے، میں صرف یہ چاہتا ہوں، کہ اس تقلیدی روش کو اب ترک کیا جائے، اجتہاد کی عظیم نعمت سے استفادہ کرتے ہوئے علماء انسانی معاشرے کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالیں، کیا اسلام قیامت تک کے لئے ہر زمان و مکان اور ہر معاشرے کی ترقی اور پیش رفت، فلاح و بہبود، اور انسانی دکھوں کا مداوا نہیں؟؟!!

تحریر: محمد اشفاق

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=2669