7

یکساں نصاب تعلیم اور اکثریت پسندی

  • News cod : 28656
  • 31 ژانویه 2022 - 11:56
یکساں نصاب تعلیم اور اکثریت پسندی
مجھے فرقہ پرستی والی سوچ، جو اکثریت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اسکے اقدامات سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ شیعہ کمیونٹی سرے سے الگ نصاب تعلیم کا مطالبہ نہ کر دے اور پہلے کی طرح الگ اسلامیات کی تحریک شروع نہ ہو جائے۔

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یکساں نصاب تعلیم ایک دلکش نعرہ اور قومی خواہش بھی ہے کہ ایک قوم ایک نصاب کا خواب پورا ہو جائے۔ ویسے تو ہر چیز میں تنوع کا دور ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ صرف ایک سوچ معاشرے میں تنازعات کا باعث بنتی ہے اور ہمیں بچوں کو ہر طرح کے عقائد و نظریات کے ساتھ انجوائے کرنے کی تربیت دینی چاہیئے۔ وہ اپنے عقائد و نظریات پر مضبوطی سے قائم رہیں اور دوسرے نظریات و عقائد کے لوگوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھیں۔ دنیا بھر میں یہ مسئلہ ہے کہ معاشروں میں کچھ نظریات کے مجموعی ماننے والے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اور کچھ لوگ افرادی طور پر کم ہوتے ہیں۔ نظریاتی ریاست میں ریاست بچوں کے ذہنوں کو مذہب کی بنیاد پر پروان چڑھانا چاہتی ہے، تاکہ جو نسل سامنے آئے، وہ مذہبی تشخص کو اہم قرار دیتے ہوئے اس کے حوالے سے حساسیت کا مظاہرہ کرے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک، معاملہ اس وقت گھمبیر ہو جاتا ہے، جب اکثریت کی تعبیر و تشریح کو معاشرے کے تمام طبقات پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح معاشرے کا بڑا حصہ عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے، جب کوئی کمیونٹی عدم تحفظ کا شکار ہو جائے تو یہ نصاب جو قوم کو متحد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، وہ اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔

اب بھی یہی ہوا، حکومت نے بڑے خلوص نیت سے یکساں نصاب تعلیم پر کام کا آغاز کیا اور تمام مسالک کے نمائندوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ اس میں یہ ہوا کہ کچھ ایسے لوگ بھی اس میں شامل ہوگئے، جنہوں نے اکثریتی نظریات پر اتنا اصرار کیا کہ اس سے وہ نصاب بتدریج اسلامی نصاب سے اکثریت پسندی کا شکار ہو کر ایک فرقہ کا نصاب بن گیا۔ شیعہ علما و ماہرین شروع دن سے اس نصاب پر تحفظا ت کا اظہار کر رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان کی تجاویز کو نصاب میں شامل نہیں کیا گیا۔ ایسی کمیٹیوں کی کمپوزیشن کچھ یوں ہوتی ہے کہ چھ سات رکنی کمیٹی میں عملی طور پر ایک ہی شیعہ ہوتا ہے، اب دوسرے ممبران، وہ جن عناوین سے مرضی آئے ہوں، وہ عملی طور پر ایک طرف ہو جاتے ہیں اور شیعہ مسلک کی آراء کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی۔

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی شیعہ ممبر نے دس تجاویز دی ہیں تو کسی ایک آدھ تجویز کو جزوی طور پر قبول کرکے اس پر احسان عظیم کر دیا جاتا ہے اور عملی طور پر اکثریت پسندی غالب رہتی ہے۔ میری اس حوالے سے تجویز ہے کہ ایسی کمیٹوں میں اس کے ٹی او آرز میں یہ بات شامل کروانی چاہیئے کہ ہر مسلک کے مسائل میں اس مسلک کی رائے ہی معتبر ہوگی اور سوچ سمجھ کر انتہائی اعتدال کے ساتھ کچھ سرخ لائنوں کا تعین بھی کر لیا جائے، جس میں تصور امت کے اسلامی نظریہ اور اپنے تشخص کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔ میرا ایسی کمیٹیوں کے حوالے سے تجربہ یہ ہے کہ ان میں تفصیلی ادلہ کو پیش کرنا نہیں ہوتا اور فقط نظریہ بتا کر اس کے مطابق اقدام کرانے میں اکثریت پسندی مانع ہوتی ہے۔

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ نجانے کیوں اتنے بڑے فورمز پر فرقہ سے باہر نکلنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی اور اسلام کی بجائے اپنی فکر کے نفاذ پر ہی اصرار کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ بڑا واضح ہے کہ اتنی بڑی شیعہ کمیونٹی کو نظرانداز کرکے قومی یکجہتی کا حامل نصاب کیسے تشکیل دیا جا سکتا ہے؟ گلگت بلتستان میں نصاب تعلیم کو لے کر ایک بڑی تحریک چلی ہے، جس میں کئی کئی ہفتوں تک کرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔ لوگوں کی جانیں گئی ہیں، اب کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کی آراء کا انعکاس قومی نصاب میں نہ ہو؟ اگر اسی طرح اپنے فرقہ کی رائے کو ہی اسلام کا لبادہ پہنا کر پیش کیا جاتا رہا تو بہت جلد وہ قوتیں غالب آجائیں گی، جو ملک کو سیکولرازم کی گود میں پھینکنا چاہتی ہیں۔ ویسے بھی نوجوان نسل بڑی تیزی سے ان قوتوں کے قریب ہو رہی ہے، جو مذہب گریز خیالات رکھتی ہیں۔ ان کو دین سے قریب کرنے کے لیے فرقہ وارانہ خیالات سے بلند ہو کر اسلام کی تعلیم دینا ہوگی۔ پاکستان میں موجود ہر گروہ کی اسلامی تفہیم کو اہمیت دینا ہوگی، یہاں اکثریت پسندی کا مظاہرہ کرکے کسی کا استحصال نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کا آئین اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ ہر قوم، مذہب اور مسلک کے ماننے والوں کو ان کے عقائد و نطریات کے خلاف تعلیم نہیں دی جا سکتی۔ بین الاقوامی قوانین اور بالخصوص انسانی حقوق میں اس بات کی گارنٹی دی گئی ہے اور ان اقوام کو پابندیوں اور تنقید کا سامنا ہے، جو ایک طرح کے نظریات کو ٹھونسے کی کوشش کرتی ہیں۔ پاکستان میں تین فیصد کے قریب غیر مسلم ہیں، ان کے لیے الگ سے اخلاقیات کا مضمون موجود ہے، کیونکہ ہم انہیں ان کے عقائد و نظریات کے خلاف اسلامیات نہیں پڑھا سکتے۔ مجھے فرقہ پرستی والی سوچ جو اکثریت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اس کے اقدامات سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ شیعہ کمیونٹی سرے سے الگ نصاب تعلیم کا مطالبہ نہ کر دے اور پہلے کی طرح الگ اسلامیات کی تحریک شروع نہ ہو جائے۔ اس کی مضبوط بنیادیں اس ذہنیت نے فراہم کر دی ہیں، جس نے ان کی تمام تجاویز کو رد کر دیا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ نصابِ تعلیم میں جو کجی رہ گئی ہے، اس کو نفاذ سے پہلے دور کیا جائے گا، تاکہ ہم وہ خوبصورت دن دیکھیں، جب تمام مسالک ملکر اس نصاب تعلیم کو اپنا نصاب کہہ رہے ہوں اور کوئی بھی اسے مسلط شدہ نصاب نہ کہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=28656