5

ملک میں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کی حد تک پہنچا دیا گیا ہے جو ملکی سیاست کےلئے نقصان دہ ہے، قائد ملت جعفریہ

  • News cod : 32465
  • 04 آوریل 2022 - 18:12
ملک میں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کی حد تک پہنچا دیا گیا ہے جو ملکی سیاست کےلئے نقصان دہ ہے، قائد ملت جعفریہ
آئین کی تشریح کے انداز کی واضح اور روشن رہنمائی کے ذریعہ ذاتی مفادات کے سدباب کو بھی وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد حل آئین اور قانون کی حکمرانی میں مضمر قرار دیا۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،  قائدِ ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے آئین کی بالادستی اور جمہوری استحکام کو ہی وطن عزیز پاکستان کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکالنے کا واحد حل قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ آئین کی تشریح کے انداز کی روشن اور واضح رہنمائی سے موجودہ بحران کو حل کر لیا جائے گا۔

عدم اعتماد کی تحریک کے ردعمل کے طور پر پیدا شدہ بحرانی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ موجودہ آئینی و سیاسی بحران نے ملک میں انارکی کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے جو کہ عوامی سطح پر خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے جس کے لیے اس بحرانی صورتحال سے فوری نمٹنا ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ملک میں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کی حد تک پہنچا دیا گیا ہے جو نہ صرف ملکی سیاسیات کےلئے نقصان دہ ہے بلکہ آئندہ نسلوں پر یہ غیر سیاسی روئیے منفی اثرات مرتب کریں گے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی کلچر کو ایک بار پھر بہتر انداز میں روشناس کروانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لیے امید کی جاتی ہے کہ عدلیہ آئین کی تشریح کے انداز کی واضح اور روشن رہنمائی سے ملک کو اس شدید بحران سے نکالنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی۔ تاکہ ملک میں سیاسی اختلافات اور سیاسی رویوں کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے جس سے براہ راست عوام کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مہذب سیاسی کلچر کو فروغ دے کر عوام کو انتشار سے بچایا جا سکتا ہے۔

جبکہ انہوں نے آئین کی تشریح کے انداز کی واضح اور روشن رہنمائی کے ذریعہ ذاتی مفادات کے سدباب کو بھی وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد حل آئین اور قانون کی حکمرانی میں مضمر قرار دیا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=32465