3

یادگار شہداء سکردو پر واقع نایاب علمی و ثقافتی مرکز

  • News cod : 35494
  • 21 ژوئن 2022 - 11:25
یادگار شہداء سکردو پر واقع نایاب علمی و ثقافتی مرکز
یاد رہے 2017 سے مرحوم علامہ شیخ حسن فخرالدین، علامہ سید عباس رضوی اور امام جمعہ سکردو علامہ شیخ حسن فخرالدین کی صوابدید پر شیخ ذاکر فخر الدین اس لائبریری کی مدیریت کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔

(علامہ شیخ محمد حسن فخرالدین رحمة الله عليه کی علمی و ثقافتی میراث مکتبة المذاہب العالمية العامة کا مختصر تعارف)

تحریر: سکندر علی بہشتی

کتاب کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی ورثہ ہے۔ جو قوم کو اپنی تاریخ، ثقافت اور میراث کے ساتھ جوڑ کررکھتی ہے۔
بلتستان سرزمین ادب سے معروف ہے۔ یہاں کی تہذیب وثقافت میں علم اور علماء کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ بلتستان کے علماء نے اپنے علم وعمل کے ذریعے بلتستان کے باسیوں میں اسلامی اقدار کو پروان چڑھایا۔اشاعت دین، تدریس وتبلیغ کے ساتھ تحقیق اور فروغ علم میں نمایاں کردار ادا کرنے والے مختلف ادارے اور علمی وادبی شخصیات بلتستان کی پہچان ہیں۔
ہم اپنی اس تحریر میں اپنے قارئین کو ایک ایسے ادارے کا تعارف کرانا چاہتے ہیں جو سکردو کےصدر مقام یادگار شہداء کے برابر میں واقع ہے۔ وہ مرکز مرحوم علامہ شیخ حسن فخرالدین علیہ الرحمہ کی علمی و ثقافتی میراث کتابخانہ مکتبة المذاہب العالمية العامة ہے۔
کتابخانہ کے مسئول شیخ ذاکر فخر الدین کا اس مرکز اور لائبریری کی تاریخ کے بارے میں کہنا ہے:
علامہ شیخ حسن فخرالدین مرحوم کی تحصیل علم کے دوران نجف اشرف میں بعض علمائے بلتستان نے «تعاون دینی» کے نام سے ایک ادارے کاقیام عمل میں لایا۔ اور 1977میں اس ادارے نے شریعت کمیٹی کے ذریعے بلتستان میں فعالیتوں کاآغاز کیا۔
اس کے بعد علامہ شیخ علی فاضلی اور علامہ شیخ حسن فخر الدین نے موجودہ لائبریری کی زمین دینی مرکز کے لئے خریدی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت تک وہ اس زمین کی بابت مالیات بھی ادا کرتے رہے۔ مالیات کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد خمس و زکات کے رقم سے لائبریری کی عمارت کا قیام عمل میں لایاگیا۔ سکردو مرکز میں قائم شریعت کمیٹی بھی ایک مدت تک لوگوں کے مسائل کے حل و فصل کے امور اسی مرکز میں انجام دیتی تھی۔
اس مرکز کے دیگر ثقافتی سرگرمیوں میں سے ایک علاقے کے جوانوں کو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی بے ہودہ فلموں کی چنگل سے آزادی دلانے کے لئے ایرانی اسلامی فلمیں دکھانا بھی تھی۔
اس لائبریری کو مزید رونق بخشنے کے لئے علامہ شیخ حسن فخر الدین مرحوم نے اپنی ذاتی کتابیں بھی اس لائبریری کے لئے وقف کر دیں اور اس کے علاوہ ایران،عراق اور پاکستان کے مختلف شہروں میں واقع ناشرین اور مختلف مذاہب اسلامی کے مراکز سے مناظراتی اور تقابل ادیان کی کتابیں جمع کیں۔
علامہ فخرالدین نے کتابخانہ ہذا کو مختلف علمی آثار سے مستغنی کرنے کے لئے نہ فقط اپنی جیب سے کثیر رقم خرچ کیا بلکہ اخراجات کی کمی کو پوری کرنے کے لئے آپ اجارے کی نماز وروزے بھی رکھا کرتے تھے۔ یوں اس کتابخانہ میں مختلف مذاہب کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ جمع ہوا۔
اس کتابخانے کی قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مرحوم علامہ شیخ حسن فخر الدین کی کتابوں کے قلمی نسخے بھی محفوظ کئے گئے ہیں۔ جن کو مرحوم نے مختلف موضوعات پر تالیف کی ہیں۔

لائبریری اپنی مختلف مشکلات کے باوجود بہت سارے طلباء کو مطالعے کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
کتابخانہ مستقبل قریب میں ایک کتب میلہ کا انتظام کی کوشش کر رہا ہے۔
لائبریری کے مسئول شیخ ذاکر فخر الدین اہل علم اور با اثر طبقے کا اس مرکز کی نسبت بے توجہی کی شکایت کے باوجود یہاں اہل علم، محققین اور طالب علموں کے لئے تمام تر سہولیات کی فراہمی کے لئے پرعزم نظر آتے ہیں۔
لائبریری کی موجودہ عمارت کی نچلی منزل پر دکانیں بنائی گئی ہیں۔ تاکہ لائبریری کے اخراجات میں ممد و معاون ہوسکے۔
اور اوپر کی منزل میں لائبریری قائم ہے۔ لائبریری کی تعمیرات کا کام ابھی جاری ہے۔
یاد رہے 2017 سے مرحوم علامہ شیخ حسن فخرالدین، علامہ سید عباس رضوی اور امام جمعہ سکردو علامہ شیخ حسن فخرالدین کی صوابدید پر
شیخ ذاکر فخر الدین اس لائبریری کی مدیریت کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=35494