15

ایک دل میں دنیا اور امامؑ کی محبت جمع نہیں ہوسکتی، مولانا محمد رضا

  • News cod : 43756
  • 07 فوریه 2023 - 14:48
ایک دل میں دنیا اور امامؑ کی محبت جمع نہیں ہوسکتی، مولانا محمد رضا
جشن ولادت با سعادت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے خطاب میں مولانا محمد رضا نے کہاکہ امام جواد علیہ السلام وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کی ولادت پرامام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں هذاالمَولُودُ الّذي لَم يُولَد مَولُودٌ أعظَمُ بَرَكَةً عَلى شيعَتِنا مِنهُ ہمارے شیعوں کے لئے اس مولود سے بابرکت کوئی مولود دنیا میں نہیں آیا حالانکہ تمام آئمہ علیہم السلام منبع فیض و حکمت و رحمت ہیں۔

وفاق ٹائمز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم جشن ولادت با سعادت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے خطاب میں مولانا محمد رضا نے کہاکہ امام جواد علیہ السلام وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کی ولادت پرامام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں هذاالمَولُودُ الّذي لَم يُولَد مَولُودٌ أعظَمُ بَرَكَةً عَلى شيعَتِنا مِنهُ ہمارے شیعوں کے لئے اس مولود سے بابرکت کوئی مولود دنیا میں نہیں آیا حالانکہ تمام آئمہ علیہم السلام منبع فیض و حکمت و رحمت ہیں جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ میں آیا ہے کہ تمام آئمہ علیہم السلام منشا رحمت و خیر ہیں یعنی تمام رحمتیں پہلے ان کے پاس آتی ہیں پھر باقیوں کو ملتی ہیں لیکن اس کے باوجود امام رضا علیہ السلام اپنے فرزند کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس مولود سے بابرکت کوئی مولود نہیں ہے امام جواد علیہ السلام اپنے زمانے میں باب المراد کے لقب سے مشہور تھے یہ لقب روایات میں بیان نہیں ہوا ہے بلکہ لوگوں نے ان کے کردار کو دیکھ کر یہ لقب دیا تھا یعنی امام علیہ السلام لوگوں کی اس قدر حاجت روائی کرتے تھے کہ اس لقب سے مشہور ہوگئے جیسے ایک شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ مجھے اپنی سخاوت کے مطابق عطا فرمائیں تو امام علیہ السلام نے فرمایا یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا محدود ہے اور اس میں موجود چیزیں بھی محدود ہیں لہٰذا میں اپنی سخاوت کے مطابق تمہیں نہیں دے سکتا تو پھر عرض کی کہ پھر مجھے میری مروت کے مطابق عطا فرما دیں امام علیہ السلام کی خدمت میں جو بھی سائل آتا تھا خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا اسی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی باب المراد کے لقب سے مشہور ہوگئے۔

انہوں نے کہاکہ دعائے توسل دو قسم کی ہے ایک مشہورہ ہے اور ایک غیر مشہورہ ہے کہ جس میں ہر امامؑ کے نسبت ایک چیز طلب کرنے کا حکم ہے تو امام جواد علیہ السلام کے متعلق آیا ہے کہ ان سے وسعت رزق کو طلب کیا جائے ایک شخص امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری آنکھیں نہیں ہیں امام علیہ السلام نے اسے اپنے بیٹے کے پاس بھیج دیا تو امام جواد علیہ السلام نے اس کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ پھیرا تو بینا ہوگیا امام جواد علیہ السلام سلسلہ امامت میں سب سے کم سن تھے کہ جو سات سال کی عمر میں منصب امامت پر آئے ہیں اور ۲۵ سال تک ان کی زندگی تھی ایک واقعہ ملتا ہے کہ وہ لوگ جو امام رضا علیہ السلام کے وکیل تھے تو بہت زیادہ ان کے پاس خمس و زکات کی وجہ سے بہت زیادہ مال جمع ہوگیا تھا تو وہ مال انہوں نے امام جواد علیہ السلام کے حوالے کرنا تھا لیکن انہوں نے امام جواد علیہ السلام کی امامت کا انکار کردیا دنیا کی محبت بہت عجیب ہے ایک دل میں دنیا اور امام کی محبت جمع نہیں ہوسکتی یہ امام وقت کے مقابلے میں لا کھڑا کرتی ہے ہمیں ہوشیار ہونا چاہیے کہ یہ چیز ہمارے اندر تو موجود نہیں ہے امام جود و رافت و رحمت کا مظہر تھے سب کی حاجت روائی کرتے تھے جیسے سیستان سے ایک شخص نے آپ کو پیغام بھیجا کہ وہاں کا حاکم شیعہ ہے لیکن وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے تو وقت کا امام اس حاکم کو خط لکھتے ہیں کہ ہمارے شیعوں پر ظلم و ستم نہ کرو چونکہ اس کا فائدہ نظر آرہا تھا اس وجہ سے امام نے خط لکھا لہٰذا اگر ہمارے کسی بھی کام سے کسی کو فائدہ حاصل ہورہا ہو تو دریغ نہیں کرنا چاہیے آیت کہ جسے سرنامہ کلام میں پیش کیا ارشاد خداوندی ہے جنّت کا وارث وہ افراد ہوں گے کہ جو متقی ہوں گے اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا یہ دارِ آخرت ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیں گے جو زمین میں برتری اور فساد کے طلبگار نہیں ہوں گے ایک روایت میں ہے کہ علوا سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ میری جوتی کا تسمہ فلاں کی جوتی کی تسمے سے برتر ہے تو اس کے لئے بھی آخرت نہیں ہے علوا کی تنوین تحقیر کے لئے بیان ہوئی ہے کہ کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی علو ہو تو آخرت اس کے لئے نہیں ہے کیونکہ آخرت اور جنت فقط متقین کے لئے ہیں امام علیہ السلام کی ایک صفت شجاع ہونا ہے کہ جو انہیں اپنے آباء سے حاصل ہوئی ہے ایک واقعہ ملتا ہے کہ بچے گلی میں کھیل رہے تھے تو وہاں سے وقت کے حاکم کا گزر ہوا تو سب بچے ڈر کر بھاگ گئے لیکن امام علیہ السلام نہیں بھاگے تو وقت کے حاکم نے پوچھا کہ سب بچے بھاگ گئے ہیں لیکن آپ نہیں بھاگے تو امام علیہ السلام نے جواب دیا کہ اول تو میں نے ایسا کام نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے تجھے دیکھ کر بھاگ جاؤں اور دوسرا یہ کہ راستہ بھی کافی کھلا ہے پھر حاکم وقت شکار پر چلا گیا اور واپسی پر پھر اسی راستے سے گزرا تو سب بچے ڈر کر بھاگ گئے تو امام علیہ السلام کھڑے رہے تو وقت کے حاکم نے امام سے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے تو اس نے کہا کہ یہ بادشاہوں کی عادت ہے کہ وہ اپنے باز کو شکار پر بھیجتے ہیں اور وہ باز کسی چھوٹی سی مچھلی کو پکڑ کر لے آتے ہیں پھر وہ بادشاہ اسے اپنے ہاتھ میں چھپا کر وقت کے امام کا امتحان لیتے ہیں

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=43756